تاریخی شنگھائی کانفرنس کے اعلامیہ سے کشمیر اور غزہ نظر انداز؟
پاکستان کی میزبانی میں شنگھائی تعاون تنظیم کا23واں سربراہان حکومت کا کامیاب ترین دو روزہ اجلاس نئی تاریخ رقم کر کے اختتام پذیر ہو چکا ہے پاکستان کے سفارتی وقار میں اضافے کے باعث بننے والا ایس سی او سربرہان کا اجلاس خطے میں گیم چینجر ثابت ہو گا چین اور روس کے وزرائے اعظم ایس او سی کے دیگر ممالک کے ارکان اور مبصرین کی شرکت نے انتہائی ضروری پیغام دیا ہے۔ پاکستان ایک بار پھر کاروبار کے لئے کھلا ہے کثیر الجہتی اداروں میں مرکزی کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم2001ء سے اپنے قیام کے وقت سے اب تک تمام مقاصد اور کاوشوں کے حوالے سے یقینی طور پر وسعت اور اہمیت اختیار کر چکی ہے۔روسی اور چائنہ کے وزیراعظم کی شرکت نے ایس سی او کانفرنس کی کامیابی پر نہ صرف مہر ثبت کر دی بلکہ یادگار بھی بنا دیا ہے۔روسی وزیراعظم نے میاں محمد شہباز شریف سے ملاقات کے دوران کثیر الجہتی فورمز پر تعاون کے علاوہ تجارت،صنعت، توانائی علاقائی روابط، سائنس و ٹیکنالوجی اور تعلیم کے شعبوں میں تعاون پر اتفاق کیا ہے یقینا اس کے اثرات بھی دور رَس ہوں گے۔چینی وزیراعظم جو پاکستان کے چار روزہ دورے پر کانفرنس سے پہلے پاکستان پہنچے تھے انہوں نے 14مفاہمت کی13دستاویزات پر دستخط کئے۔
شنگھائی کانفرس کی پاکستان اور خطے کے لئے اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔روس،چین کے وزرائے اعظم اور بھارتی وزیر خارجہ کی شرکت نے ایس او سی کانفرنس کی اہمیت کو اور بڑھا دیا ہے یقینا اس کانفرنس کے دور رَس نتائج برآمد ہوں گے۔ 23ویں کامیاب ترین اہم اجلاس کے بعد ہمارے ڈپٹی وزیراعظم محترم اسحاق ڈار کی طرف سے جاری کیے گئے اعلامیے میں ایک زمین،ایک خاندان،ایک مستقبل کے اصول پر زور دیا گیا ہے۔ غیرامتیازی اور شفاف عالمی تجارتی نظام کو ضروری قرار دیتے ہوئے یکطرفہ تجارتی پابندیوں کی مخالفت کی گئی درحقیقت شنگھائی تعاون تنظیم کے قیام کا بنیادی مقصد دنیا میں تنہا سپر پاور کے نظریے کی نفی کرنا ہے اس کے اہم اہداف میں رکن ممالک کے درمیان اچھی ہمسائیگی،تجارت، سائنس و ٹیکنالوجی، تعلیم،توانائی، سیاحت کے شعبوں میں تعاون، امن عامہ اور سیاسی عزم کو مشترکہ طور پر یقینی بنانا ہے۔ تاریخی شنگھائی کانفرنس کی ریاست کی سیاست پر اہمیت کا تو اندازا ہوا ہے کرفیو کے ماحول میں تین روز تک تعلیمی اداروں سمیت تمام دفاتر کو چھٹی دے دی گئی،اس سے مجھے ذاتی طور پر اختلاف نہیں ہے،ریاست نے خوب ذمہ داری نبھائی اور کامیابی سے کانفرنس کا انعقاد مکمل ہوا اور تمام شرکاء اپنے اپنے ممالک کو روانہ ہو گئے،مجھے ذاتی طور پر جو دُکھ ہوا اس کا اظہار بحیثیت مسلمان صحافتی طالب علم کی حیثیت سے کروں گا۔ میں نے دو روزہ بین الاقوامی شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس کے طویل اجلاس اور اعلامیہ کا جائزہ لیا اور ایک ایک لفظ پڑھا کہ شاید کہ میری نظرمیں آجائے۔ اس تاریخی خطے کے گیم چینجر ثابت کی جانے والی کانفرنس میں اہل کشمیر کا تذکرہ ہوا ہو، وہاں پر بھارتی فوج کی طرف سے جاری ظلم بربریت کی داستاں کی بات ہوئی ہو، بھارتی فوج کی طرف سے جاری کشمیر میں نسل کشی پر اظہارِ تشویش کیا گیا ہو مجھے دو روزہ کانفرنس،چار روزہ چائنیز وزیراعظم کے دورے اور تین روزہ روسی وزیراعظم کے دورے کی تمام نشستوں، عشائیوں، ناشتوں،کھانوں میں نہیں ملی اور نہ وزیراعظم، صدرِ پاکستان کے مہمانوں کے اعزازیہ میں دیئے گئے ڈنر کے موقع پر بھارتی وزیر وزیر خارجہ کے سامنے ایسا سوال اٹھایا گیا۔ مجھے اس سے بڑھ کر دُکھ ہوا محترم میاں محمد نواز شریف نے بھارتی صحافیوں اور ایڈیٹر کے اعزاز میں عشائیہ دیا، مودی کے نہ آنے کا گِلہ کیا گیا اگر آجاتے تو جواثرات مرتب ہوتے اس پر بات کی گئی۔اگر بات نہیں کی گئی تو کشمیر کی بات نہیں کی گئی،جہاں ظلم و بربیت کی سیاہ رات ہے،سات لاکھ بھارتی فوج سالہا سال سے ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے، اخباری بیانات تک کشمیر پاکستان کی شہ رگ محدود ہو گئی یا پانچ فروری کو عوام کو خوش کرنے کے لئے بینر، پوسٹر اور سرکاری چھٹی تک محدود کر دیا گیا ہے ذاتی خیال ہے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں کشمیر میں ہونے والے ظلم و زیادتی پر نہ صرف بات ہونا چاہئے تھی،بلکہ خطے میں امن کے لئے کشمیر میں امن کی اہمیت پر بھی بات ہونا چاہئے تھی۔ شنگھائی کانفرنس میں دنیا کی بڑی دوسری اور تیسری سپرپاور کے وزیراعظم موجود تھے، بھارت سمیت دیگر ممالک کے نمائندے شریک تھے اِس سے قبل قبلہ اول کو اسرائیل کی طرف سے قبرستان بنانے، 60 ہزار سے زائد مرد، خواتین و بچوں کو شہید کرنے اور ہسپتالوں سے لے کر سکولوں تک کو تباہ و برباد کرنے کی قرارداد آنا چاہئے تھی۔ لبنان اور ایران پر حملوں،حسن نصر اللہ، ہانیہ،یحییٰ سنوار اور ایرانی صدر کی ہلاکت اور مشترکہ طور پراسرائیل کی ایران پر حملے کی دھمکی کی مذمت کے ساتھ اسرائیل فلسطین جنگ بندی کا مطالبہ ہونا چاہئے تھا۔میری ذاتی اور دردِ دِل رکھنے والے کروڑوں مسلمانوں کی خواہش تھی کہ قبلہ اول کے محافظوں، غزہ، فلسطین،لبنان کے شہداء کے ساتھ اظہارِ یکجہتی ہونا چاہئے تھا۔شنگھائی کانفرنس کے اعلامیہ میں کشمیر اور غزہ کو نظر انداز کرنا، تاریخی کامیاب کانفرنس کے دِنوں میں آئینی ترمیم کو اوڑھنا بچھونا بنانا سمجھ سے بالاتر ہے، شنگھائی کانفرنس کے شرکاء کا پاکستان آنا معمولی بات نہیں ہے، کانفرنس کے دِنوں میں آئینی ترمیم کے لئے جو پکڑ دھکڑ ہوئی اور وطن عزیز کا سب سے بڑا مسئلہ آئینی ترمیم کو قرار دیا گیا اس پر سنجیدہ حلقوں کو تشویش ضرور ہوئی ہے اللہ ہمارے ملک کی خیر کرے اور حکمرانوں کو ایک ترمیم اپنی عوام کے لئے بھی کرنے کی توفیق دے جو مہنگائی، بے روزگاری کے دوزخ میں سڑ رہی ہے۔ کامیاب شنگھائی کانفرنس کی آڑ میں 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری اور چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کی تقرری قوم کو مبارک۔
٭٭٭٭٭