ریڈیو پاکستان کی عمارت پر کس کی نظر ہے ؟

ریڈیو پاکستان کی عمارت پر کس کی نظر ہے ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا ہے کہ ریڈیو پاکستان کا سالانہ خسارہ ایک ارب 25کروڑ ہے، آئندہ پانچ سال میں یہ خسارہ نو ارب روپے ہو جائے گا۔ عمارت کرائے پر دینے کی تجویز بدستور موجود ہے۔ یہ تجویز واپس لی گئی ہے نہ حکومت اس سے پیچھے ہٹی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ریڈیو پاکستان پر سالانہ پانچ ارب روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ ریڈیو کی بہتری کے لئے تجویز دی اس پر عمل نہ کیا گیا تو ریڈیو آئندہ پانچ سال میں مزید مالی مشکلات کا شکار ہو جائے گا دوسری جانب وزیراعظم کے معاون خصوصی نعیم الحق نے ریڈیو پاکستان (اسلام آباد) کی عمارت لیز پر دیئے جانے کے فیصلے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ عوام کی بھلائی میں اچھے مقاصد کے لئے یوٹرن لینے میں کوئی برائی نہیں غلطیاں اور غلط فہمیاں ہمارے علم میں لائی جائیں تو ہم ہر وہ اقدام کریں گے جو ملک اور قوم کے مفاد میں ہو۔ اس سے پہلے ریڈیو پاکستان کے ملازمین نے ریڈیو کی عمارت لیز پر دینے کے فیصلے کے خلاف پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے احتجاج کیا اور فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ ملازمین کے مظاہرے اور احتجاج کے بعد وزارتِ اطلاعات نے ریڈیو پاکستان کی عمارت لیز پر دینے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔
ریڈیو پاکستان کی عمارت لیز پر دینے کا فیصلہ چند روز پہلے انتہائی پُراسرار انداز میں ہوا تھا معلوم نہیں اتنی جلد بازی کی کیا ضرورت تھی۔ ریڈیو پاکستان وزیراطلاعات کے بقول سالانہ سوا ارب روپے خسارے میں جا رہا ہے اگر یہ فیصلہ کرنا ہی تھا تو سوچ بچار کرکے اور منفی و مثبت پہلوؤں کو سامنے رکھ کر چند روز بعد کر لیا جاتا تو کیا آسمان ٹوٹ پڑتا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے کسی شخص یا ادارے کی اس بلڈنگ پر نظر ہے جو دفتر خارجہ سے قریب اور انتہائی اہم علاقے میں واقع ہے۔ مارکیٹ ویلیو کے حساب سے اربوں روپے تو اس پلاٹ کی قیمت ہے جس پر یہ عمارت بنی ہوئی ہے اسی طرح اس عمارت کی مالیت بھی اربوں سے کم نہیں اس کا کرایہ کتنا مقرر کیا گیا اس بارے میں ابھی کوئی معلومات نہیں۔ آج کے دور میں اگر اتنے مہنگے علاقے میں کوئی عمارت بنے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس پر کتنا خرچہ آئے گا۔ لیکن حکومت نے اقتدار کے پہلے ہی مہینے میں اتنا اہم فیصلہ کر لیا اور وہ بھی غیر شفاف انداز میں۔ابھی تک تو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کون شخص یا اشخاص ہیں جو اس عالی شان بلڈنگ کو کرائے پر لینے میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ جو بھی ہوں گے ان کے ہاتھ بہت لمبے ہوں گے جن کی رسائی حکومت میں اتنی اعلیٰ سطح تک ہے کہ انہوں نے آناً فاناً ایک مشکوک فیصلہ کرا لیا اور وزیراطلاعات نے اس کی یہ منطق بیان کی کہ آج کل تو ریڈیو نشریات ایک چھوٹے سے کمرے سے جاری کی جا سکتی ہیں اس کے لئے اتنی بڑی عمارت کی کیا ضرورت ہے؟۔ ویسے تو ان سے یہ بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ اس عمارت کے قریب ہی پرائم منسٹر سیکرٹریٹ کے نام پر جو عالی شان بلڈنگ موجود ہے اس کی کیا ضرورت ہے؟ سیکرٹریٹ کی اور بہت سی عمارتیں ہیں۔ وزیراعظم خود بھی فضول خرچی کو پسند نہیں کرتے اس لئے اگر عمارتوں کو کرائے پر ہی دینا ہے تو کیوں نہ اس کا آغاز پرائم منسٹر سیکرٹریٹ سے کیا جاتا؟
پھر سوال یہ ہے کہ کیا ریڈیو پاکستان حکومت کا کوئی ایک ہی ادارہ ہے جو خسارے میں جا رہا ہے؟ ایک اندازے کے مطابق سرکاری کارپوریشنیں ہر سال ایک ہزار ارب روپے کے خسارے میں جا رہی ہیں کیا ان سب کارپوریشنوں کا خسارہ ختم کرنے کے لئے حکومت کچھ کر رہی ہے؟ اگر ایک ہزار ارب روپے خسارے والی کارپوریشنوں نے جاری رہنا ہے تو ریڈیو پاکستان کا خسارہ کیوں اتنا کھٹک رہا ہے؟۔ اسلام آباد میں بہت سے سرکاری دفاتر کرائے کی عمارتوں میں قائم ہیں جن کا لاکھوں، کروڑوں روپے کرایہ ادا کیا جا رہا ہے، اگر ریڈیو پاکستان کی عمارت اتنی ہی ’’بے مصرف ‘‘ اور ’’بیکار ‘‘ ہے تو کرائے کی عمارتوں میں کام کرنے والے سرکاری دفاتر اس عمارت میں شفٹ کر دیئے جائیں تاکہ کم از کم وہ کرایہ تو بچے جو اس مد میں ادا کیا جارہا ہے۔ یہ منطق تو سمجھ سے بالاتر ہے کہ سرکاری عمارتیں خالی پڑی رہیں اور دفاتر پرائیویٹ بلڈنگوں میں قائم رہیں اس لئے بہتر یہ ہے کہ اگر ریڈیو پاکستان کی ’’خالی عمارت‘‘ کو کسی بہتر مصرف میں لانا ہے تو پہلے ایک سروے کرا لیا جائے کہ کتنے سرکاری دفاتر اس عمارت میں قائم ہو سکتے ہیں لیکن بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ یہ عمارت کرائے پر دینے کے پس منظر میں مقاصد کچھ اور تھے اگر ایسا نہ ہوتا تو کسی دوسری عمارت پر بھی نگاہِ انتخاب پڑی ہوتی اس ایک عمارت نے آخر توجہ کیوں کھینچی؟
اب بھی اس بارے میں متضاد خبریں آ رہی ہیں۔ وزیر اطلاعات اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ عمارت کو لیز پر دینے کی تجویز ختم نہیں کی گئی اور وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی نعیم الحق کہہ رہے ہیں کہ عوام کے مفاد میں ’’یو ٹرن‘‘ لینے میں کوئی حرج نہیں، لگتا ہے دونوں کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں یا پھر وہ مصلحتاً ایک معاملے پر دو متضاد موقف اپنائے ہوئے ہیں۔ اگر تجویز واپس لے لی گئی تو اس کا واضح اعلان ہونا چاہئے اور اگر نہیں لی گئی اور وزیر صاحب اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں تو بھی صاف صاف بات ہونی چاہئے کیونکہ یہ ایک عمارت کو کرائے پر دینے کا سادہ معاملہ نہیں ہے، لگتا ہے اس پردہ زنگاری میں کوئی معشوق ہے جو ابھی سامنے نہیں، لیکن زیادہ دنوں تک یہ معاملہ پوشیدہ نہیں رہ سکتا، بہتر ہے فواد چودھری اور نعیم الحق آپس میں بیٹھ کر فیصلہ کر لیں کہ حکومت کا اس سلسلے میں موقف کیا ہے؟ اور وہی سامنے لایا جائے، متضاد موّقف سے حکومت کے بارے میں اچھا تاثر نہیں ابھرتا۔

مزید :

رائے -اداریہ -