ہم ترقی کیوں نہیں کر سکے؟

ہم ترقی کیوں نہیں کر سکے؟
ہم ترقی کیوں نہیں کر سکے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


یہ سوال ہر باشعور شخص کے ذہن میں وقتاً فوقتاً ابھرتا ہے کہ پاکستان اپنی صلاحیت کے مطابق ترقی کیوں نہیں کر سکا خصوصاً اس بات سے لوگوں کو ایک اذیت سی ہوتی ہے کہ آخر ہم میں کیا خرابی ہے کہ ہم خطے میں بھی شاید سب سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ اگرچہ خطے میں پاکستان بھارت کے بعد ایک بڑا ملک ہے۔ ہماری آبادی 22 کروڑ کے قریب پہنچ گئی ہے ہمارے پاس ایک مضبوط پروفیشنل آرمی ہے ہمارے پاس ایٹم بم ہے اس کے علاوہ یہ تو ایک Cliche سا بن گیا ہے کہ پاکستان میں دریا ہیں خوبصورت وادیاں ہیں بلند پہاڑ ہیں چار موسم ہیں، لیکن پھر کمی کس چیز کی ہے پانی کہاں مرتاہے؟


پچھلے دنوں یارِ طرح دار اور دانشور ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے میرے حوالے سے یہی سوال اپنے کالم میں اُٹھایا تھا،جس انداز میں انہوں نے میرا ذکر کیا وہ پچاس سالہ خوشگوار تعلق کی ایک جھلک تھی۔ ویسے انہوں نے بہت صحیح تجزیہ کیا ہے۔ مضبوط دلائل کے ساتھ ساتھ انہوں نے اُردو بھی خوبصورت لکھی ہے۔یہ نہیں کہ پاکستان نے 72سال میں کوئی ترقی نہیں کی۔ روٹین کی ترقی تو ظاہر ہے کہ ہوتی رہتی ہے آج کی دنیا میں تیز رفتاری کا مقابلہ کرنے کا مسئلہ ہوتا ہے اِس لئے ترقی کی دوڑ میں سبھی شامل ہوتے ہیں۔

ہم نے بعض شعبوں میں قابل قدر ترقی کی ہے مثلاً ہم نے ایٹمی ہتھیار بنا لئے یہ ایک معجزہ تھا اور یہ معجزہ صرف اس وجہ سے ممکن ہوا، کیونکہ پوری قوم اس پر متفق تھی اور سب سیاست دانوں، بیوروکریسی اور سیکیورٹی کے اداروں نے مل کر بھرپور حصہ ڈالا۔ تاہم پوری تاریخ میں ہم ایٹمی ہتھیاروں کے بعد سی پیک کے منصوبے پر بحیثیت قوم متفق ہوئے تھے اور توقع تھی کہ واقعی یہ منصوبہ بھی گیم چینجر ثابت ہو گا، لیکن بدقسمتی سے وہ اتفاق رائے کچھ مصلحتوں کی نذر ہو گیا کچھ عرصہ پہلے گوادر سے ایم این اے ہمارے دوست اسلم بھوتانی کے بقول وہاں ہو کا عالم تھا۔ بہرحال اب اشارے مل رہے ہیں کہ چند سال کے Setback اور چین جیسے دوست کے ساتھ کچھ غلط فہمیوں کے بعد اب شاید قومی مفاد کے تقاضے غالب آ رہے ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے قومی مفادات سیاست کی نذر ہوتے رہے ہیں۔ ان منصوبوں کے علاوہ میری رائے میں موٹرویز کی تعمیر تیسرا بڑا منصوبہ ہے جو خدا کا شکر ہے کہ مکمل ہو گیا ہے، لیکن یہاں بھی قومی مفاد پر کریڈٹ کا مسئلہ آڑے آتا رہا ہے اور شاید اب بھی آ رہا ہے۔ میں اتفاق سے اسلام آباد سے لاہور تک موٹروے کی تعمیر کی افتتاحی تقریب میں شامل تھا۔

مجھے یاد ہے کہ اُس وقت موٹروے کی بعض سیاسی اور بیورو کریٹک حلقوں سے بڑی مخالفت کی گئی اور حکومت ٹوٹنے کے بعد کراچی تک موٹروے کا منصوبہ ختم کر دیا گیا،جو اب مکمل ہوا ہے لیکن اس عرصے میں موٹرویز کے اس منصوبے کی قیمت کتنے گنا بڑھ چکی ہو گی؟ کچھ اور شعبوں میں بھی ہم کافی آگے ہیں ہم نے نادرا جیسے کامیاب ادارے بھی بنا لئے۔ پنجاب جیسے بڑے صوبے میں ریونیو ریکارڈ ہم نے کمپیوٹرائزڈ کر لیا وغیرہ وغیرہ، لیکن ناکامیوں کی فہرست ذرا طویل ہے۔


معیشت کے معاملے میں ہم بڑا عرصہ پڑوسی ممالک سے آگے رہے کئی دفعہ عالمی اداروں نے پاکستان کو دُنیا کی بڑی معیشتوں میں شامل ہونے کی پیشگوئی کی، لیکن پھر ہر دفعہ ایسا ہوا کہ معاشی ترقی کے اس ناہموار سفر میں کشکول کا لفظ ہماری پہچان بن گیا،جو پاکستان جیسے بڑے ملک کے شایان شان نہیں ہے۔ ہماری پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ شایدسیاسی عدم استحکام ہے یہ صرف میری رائے نہیں،بلکہ میں نے یہ سوال بہت سے باشعور اور سینئر لوگوں سے پوچھا ہے تو جواب یہی ملا ہے۔ پاکستان ووٹ کے ذریعے وجود میں آیا اور اسی لئے پاکستان کے بانیوں نے پورے شعور کے ساتھ ہمارے لئے جمہوری نظام ہی تجویز کیا، لیکن افسوس ہم نے اس نظام کو چلنے نہیں دیا۔ 72 سال میں کوئی وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکا۔ کئی دفعہ مارشل لاء لگا اور ہر چیز تہس نہس ہو گئی۔ تعمیر کے لئے تو تسلسل کی شدید ضرورت ہوتی ہے وہ عمارت کیسے مکمل ہو سکتی ہے، جس کا نقشہ ہی چند سال بعد بدل دیا جائے۔

اس اکھاڑ پچھاڑ سے قوم میں مایوسی پیدا ہوئی، لوگ کاروبار، تعلیم اور جاب کے لئے باہر دیکھنے لگے۔ ادارے مضبوط نہ ہو سکے۔ پوری قوم کی توجہ سیاسی محاذ آرائی پر لگی رہی اور لگی ہوئی ہے اگر آپ غور کریں تو ہمارا میڈیا چوبیس گھنٹے اِسی محاذآرائی پر بحث کر رہا ہے کسی تعمیری موضوع پر کوئی ٹھوس پروگرام کہیں نظر نہیں آتا۔ نجی محفلوں میں سیاست ہمارا مرغوب موضوع ہے۔اس کی وجہ سیاست کی Volitalityہے۔ ہر آدمی دوسرے سے پوچھ رہا ہوتا ہے کہ حکومت کتنا عرصہ چلے گی۔ہم جمہوریت کا صحیح مفہوم سمجھنے سے قاصر رہے۔ جمہوریت تو بڑا صبر آزما سیاسی نظام ہے اس میں کوئی شارٹ کٹ نہیں، لیکن تیز رفتار اور غیرآئینی سیاسی تبدیلیوں سے جمہوریت کا تصور دھندلا گیا اور اس نظام کو کرپشن، بدانتظامی اور نااہلی سے منسلک کر دیا گیا۔ مارشل لاء لگتے رہے، لیکن ایوب خان کے بعد آنے والے کوئی بڑا کام نہ کر سکے۔تاہم انہوں نے ہی غیر آئینی مداخلت کا راستہ کھولا۔ جنرل ضیاء الحق نے ایک اچھا کام کیا کہ ایٹم بم بنوا دیا لیکن بہت برا کام بھی کیا کہ بھٹو کو پھانسی دے دی۔

جنرل یحییٰ خان نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا اور پھر ملک توڑ دیا۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں سیاسی مخالفوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا گیا۔بہرحال اس دو رمیں قومی اسمبلی میں خواتین کا کوٹہ بڑھایا گیااور پرائیویٹ سیکٹر میں الیکٹرانک میڈیا کو اجازت دی گئی، لیکن وعدے کے باوجود کالا باغ ڈیم تعمیر نہ ہو سکا۔ نئے صوبوں کی تشکیل نہ ہو سکی حتیٰ کہ قبائلی علاقوں کے مسئلے کے لئے بھی پہل مسلم لیگ نے کی۔کرپشن کے خاتمے کے لئے کی گئی توڑ پھوڑ کے باوجود کرپشن بڑھتی رہی۔ دہشت گردی کی لہر سے عالمی سطح پر ہمارا امیج بہت مجروح ہوا اور اقتصادی ترقی پر بہت بُرا اثر پڑا۔


بھارت میں تعلیم کا شعبہ آزادی کے بعد مولانا ابوالکلام جیسے نابغہ کے ہاتھ میں رہا اور ہمارے ہاں یہ شعبہ کابینہ کے زیادہ ترغیراہم اور نیم خواندہ اشخاص کے حوالے رہا۔ اب تک ہماری خواندگی کا تناسب کم از کم 80 فیصد ہونا چاہئے تھا اگر ایسا ہو جاتا تو ہم زندگی کی دوڑ میں بہت آگے نکل چکے ہوتے۔ میں پہلے بھی کہیں لکھ چکا ہوں کہ ایک محفل میں ڈاکٹر محبوب الحق نے بتایا کہ بنگلہ دیش میں سابق وزیراعظم خالدہ ضیاء نے اپنے دور میں پرائمری تعلیم کا قلمدان اپنے پاس رکھا اور ایک اہم فیصلہ کیا کہ آئندہ پرائمری سطح تک صرف خواتین ٹیچر ہوں گی۔ اس سے سکولوں میں ڈراپ آؤٹ ریٹ فوری طور پر نیچے آ گیا۔ ورک فورس میں خواتین کی تعداد بڑھ گئی اور پھر آبادی میں اضافے کی شرح بھی نیچے آ گئی۔ ہارورڈ میں اقتصادیات کے پاکستانی پروفیسر ڈاکٹرعاصم خواجہ سے چند دن پہلے جب بنگلہ دیش کی ترقی کا سوال کامران خان نے اُٹھایا تو انہوں نے ایک بڑی وجہ یہی بتائی کہ وہاں ورک فورس خصوصاً ٹیکسٹائل کی صنعت میں خواتین کو شریک کیا گیا۔کاش ہماری قیادت بھی ایسی دور اندیشی کا مظاہرہ کر سکتی۔ میرے خیال میں بنگلہ دیش کی ترقی کی تین وجوہ ہیں۔


بھارت سے تعلقات کا فیکٹر بھی ہماری معیشت کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ ایسا نہیں کہ بھارت کو کوئی نقصان نہیں ان کی پالیسیاں بھی پاکستان کو مدنظر رکھ کر بنائی جاتی ہیں، لیکن وہ بڑا ملک ہے اس کی اکانومی بہتر ہے لہٰذا وہ یہ بوجھ نسبتاً آسانی سے سہار سکتا ہے، لیکن پاکستان کی اکانومی کا سائز کافی کم ہے لہٰذا ہم اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے کئی مواقع ضائع ہوئے ہیں۔ اب یہ تعلقات کافی کشیدہ ہو چکے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت نے جو غیرقانونی اقدامات کئے ہیں اور جس طرح کشمیریوں پر ظلم و بربریت روا رکھی جا رہی ہے اس سے ہم کافی مشکل میں آ گئے ہیں۔ معلوم نہیں اس Phase کا اختتام کس طرح ہو گا اور پاکستان پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ہمارے ہاں بار بار حکومتوں کی تبدیلی سے اقتصادی پالیسیوں میں تسلسل نہیں رہا اور اس طرح سرمایہ کاری نہیں آتی۔ ڈاکٹر عاصم خواجہ نے موجودہ صورتِ حال پر تبصرے میں معیشت کی خرابی کی سب سے بڑی وجہ غیریقینی کی کیفیت بتائی ہے اور بدقسمتی سے اس وقت یہی کیفیت طاری ہے۔

توقع کی جا سکتی ہے کہ چھ ماہ تک ہم اس ناخوشگوار صورتِ حال سے باہر آ جائیں گے، لیکن ہم پروپیگنڈے اور نعروں پر جیتے ہیں۔ مثلاً یہ جملہ آپ نے کثرت سے سنا ہو گا کہ جہاں حکمرانوں کا سرمایہ اور بچے ملک سے باہر ہوں ان کی پاکستان کے ساتھ کیا وفاداری ہو سکتی ہے اور وہاں کون سرمایہ کاری کرے گا۔ اگر سطحی نظر سے اس نعرے کو دیکھیں تو پھر موجودہ وزیراعظم عمران خان، وزیر خزانہ اور کئی دوسری اہم شخصیات کے بچے بھی باہر ہیں۔ سرمایہ کاری والی بات بھی فضول ہے۔ باہر سے آنے والے سرمایہ کار منڈی کے حالات، انفراسٹراکچر، امن و امان کی صورتِ حال اور پالیسیوں میں تسلسل کی ضمانت چاہتے ہیں۔ کسی کے بچوں سے اُن کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔


جاگیر داری نظام بھی ہماری ترقی میں ایک رکاوٹ بنا رہا۔ بہرحال جاگیرداری اب جنوبی پنجاب اور سندھ تک محدود ہو گئی ہے یہ بات بھی غور طلب ہے کہ دو دفعہ زرعی اصلاحات اور وراثتی تقسیم کے باوجود ان علاقوں میں یہ نظام ابھی تک کیوں حاوی ہے؟ قانون کی حکمرانی اور قومی اخلاقیات کا زوال بھی ہماری پسماندگی کا سبب ہے۔ یہ بہرحال تفصیل طلب موضوع ہے کہ بڑھتے ہوئے مذہبی رحجان کا روزہ مرہ زندگی پر مثبت اثر کیوں نہ ہو سکا۔ بدقسمتی سے انسانیت اعلیٰ اخلاقی قدروں کے علمبردار طبقے علماء، دانشور اور صحافی خود زوال پذیر کلچر کا حصہ بن گئے۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے۔ افغانستان کے حالات اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دہشت گردی نے بھی ہمارے معاشرے اور اقتصادی ترقی پر بہت مضر اثرات ڈالے ہیں۔ ہماری نااہلی اور ناکامی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں کچرے کا ڈسپوزل اور ڈینگی کی وباء ہمارے لئے قومی مسئلہ بن گیا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -