الیکشن بلا تاخیر کرائیں

منیر نیازی نے کہا تھا،
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
اور ہماری تمام حکومتوں کی بھی یہی روش رہی ہے، ہمیں ہر ضروری کام اس وقت کرنا یاد آتا ہے جب پانی سر سے گزرنے والا ہو اس سے پہلے نہیں، ہم ہر کام آخری وقت میں کرنے کے عادی ہو چکے ہیں،وجہ ایک ہی ہے مناسب چیک اینڈ بیلنس کا نہ ہونا، لاپروائی و غفلت کا شعار یہ سوچ کہ اگر یہ کام نہ کیا تو کون سا کسی نے پوچھ گچھ کر لینی ہے، ہاں غیر ضروری کام کرانے ہوں اور اس حوالے سے کوئی عالمی سطح کا ٹورنامنٹ ہو تو پتا نہیں کیوں یقینِ واثق ہوتا ہے کہ ہم ٹرافی بھی جیت جائیں گے، مگر معیشت،صنعت، زراعت، کان کنی، سیاحت، تعلیم، صحت، درآمدات و برآمدات، سرمایہ کاری، نج کاری دوسرے ممالک کے ساتھ کئے گئے معاہدوں پر عملدرآمد غرض کتنے ہی ایسے شعبے ہیں جن پر یہاں قائم ہونے والی حکومتوں کو خصوصی توجہ دینی چاہئے، لیکن ان پر توجہ دینے میں تاخیر کی جا رہی ہے اور مسلسل کی جا رہی ہے۔ موجودہ صورت حال کی بات کی جائے تو اگلے عام انتخابات کا انعقاد حالات و واقعات کے گلے کی پھانس بنتا محسوس ہوتا ہے۔ اگرچہ سرکاری طور پر کہا جا چکا ہے کہ امسال انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں اور یہ انعقاد اگلے سال جنوری کے اواخر میں ہی ممکن ہے پھر بھی ابہام کے بادل چَھٹنے کا نام نہیں لے رہے اور اس سلسلے میں جتنے منہ اتنی باتیں والا معاملہ نظر آتا ہے۔
نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے ماہ رواں کے آغاز میں کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے 90 روز میں انتخابات کا حکم دیا تو حکومت عمل کرے گی،ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدالتوں کی عزت و تکریم پر سمجھوتہ کریں تو پورا نظام متاثر ہو گا، ان کی باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اگر چاہے تو بروقت الیکشن کا انعقاد کر سکتی ہے لیکن اس صورت میں جب عدالت حکم جاری کرے۔ سوال یہ ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن کے بارے میں آئین بالکل واضح ہے تو ملک میں عام انتخابات کے لئے سپریم کورٹ کے حکم کا انتظار کیوں؟ کیا آئین میں یہ واضح نہیں لکھا کہ جب کوئی حکومت اپنی مدت پوری کر لے اور اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں تو اس کے بعد 90 روز کے اندر انتخابات کرانا ضروری ہیں۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان فی زمانہ مالی مسائل اور سیاسی بحران کا شکار ہے، لیکن اس کو بنیاد بنا کر انتخابات میں تاخیر کسی طور مناسب نہیں، ہمارے سامنے ترکی کی مثال موجود ہے،جہاں چند ماہ پہلے تباہ کن زلزلہ آیا اور 60 ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی تھیں، انفراسٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچا تھا، وہ یقینا ایک غیر معمولی تباہی تھی اور الیکشن ملتوی کرنے کا جواز بن سکتی تھی اس کے باوجود صدر طیب اردوان نے ملک میں عام انتخابات کا اعلان کیا اور یہ انتخابات مئی میں مقررہ تاریخ کو ہی ہوئے تھے اس سے ایک دن آگے نہیں گئے۔ پاکستان میں صورت حال خدانخواستہ ترکی جیسی نہیں ہے لہٰذا میرے خیال میں انتخابات کو موخر کرنے یا 90 دن سے آگے لے جانے کا کوئی آئینی اور قانونی جواز نہیں ہے، جہاں تک نئی مردم شماری اور اس کے تحت نئی حلقہ بندیوں کا تعلق ہے تو یہ سوال بنتا ہے کہ اس ملک کے ارباب بست و کشاد کو کیا یہ معلوم نہیں تھا کہ اگست 2023ء میں اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی اور اس کے بعد انتخابات کرانا پڑیں گے؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ 2017ء میں مردم شماری ہوئی تھی اس کے محض چھ سال بعد اچانک نئی مردم شماری کی کیا ضرورت پیش آ گئی تھی اور اگر کوئی ایسی ناگزیر ضرورت تھی بھی تو کیا مردم شماری کا شیڈول کچھ ایسا نہیں بنایا جا سکتا تھا کہ اگست میں اسمبلیاں تحلیل ہونے سے پہلے پہلے اس کے نتائج بھی مرتب کر لیے جاتے اور ان کے تحت الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیاں بھی مکمل کر چکا ہوتا تاکہ انتخابات میں تاخیر کا کوئی جواز پیدا نہ ہوتا، اگر ایسا نہیں کیا گیا تو اس میں کس کا قصور ہے؟اور اس کی سزا اس ملک اس کے عوام اور جمہوری نظام کو کیوں دی جا رہی ہے؟
ہمارے ہاں ایک بڑا بلکہ سب سے بڑا مسئلہ قانون کی حکمرانی کا ہے، ہر حکومت اور ہر سیاسی رہنما قانون کے نفاذ اور آئین کے احترام کی بات کرتا ہے، معاشرے کے نظام کو چلانے،برائیوں کو روکنے، لوگوں کے جان و مال کی حفاظت اور عوام کے بنیادی حقوق پورے کرنے کے لئے قانون اور اس کی حکمرانی آئین اور اس کا احترام سب ضروری ہیں، مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب قانون کے احترام کے دعوے دار ہی آئین اور قانون کی پاس داری میں ناکام ہو جاتے ہیں۔آغاز میں نگران وزیر اعظم کا ایک بیان لکھا تھا، جس میں انہوں نے کہا کہ عدالتوں کی عزت و تکریم پر سمجھوتہ کریں تو پورا نظام متاثر ہوتا ہے، ان کی بات درست ہے، لیکن یہ بھی تو اتنی ہی بڑی حقیقت ہے کہ جن عدالتوں کی عزت و تکریم کی وہ بات کرتے ہیں وہی عدالتیں آئین کی کسٹوڈین بھی ہیں، آئین کی کسٹوڈین کا احترام کرنا، لیکن آئین کا حکم نہ ماننا بات کچھ سمجھ میں نہیں آتی، آئین تو کہتا ہے کہ نوے روز میں الیکشن کراؤ، لیکن جواز یہ گھڑا جاتا ہے کہ الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کیا حکومت یا ریاست سے الگ کوئی چیز ہے اور کیا الیکشن کمیشن حکومت کا حصہ نہیں ہے؟
یہ تو سب کے سامنے کی بات ہے کہ اس وقت پورا نظام جمود کا شکار ہے، نہ تو کوئی کاروباری سرگرمیاں ہو رہی ہیں اور نہ ہی کوئی نئی سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے، درآمدات و برآمدات کا سلسلہ بھی موقوف ہے اور معاشرتی و سماجی سرگرمیاں بھی تعطل کا شکار ہیں، اس جمود کو توڑنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ جلد از جلد نئے انتخابات کرائے جائیں تاکہ ملک میں سیاسی استحکام آئے، ہر کوئی انتظار کی اس سولی پر لٹکا ہوا ہے کہ کب الیکشن ہوں اور کب ہر معاملے کے لٹکنے کا سلسلہ بند ہو، سیاسی استحکام آئے گا تو حکومت اور سماج کی سرگرمیاں پھر سے شروع ہو جائیں گی۔ ماضی میں جو تاخیر کی جاتی رہی وہ اپنا خراج لے کر گئی،انتخابات میں تاخیر کہیں ہمیں مہنگی نہ پڑ جائے! سابق وزیر اعظم سربراہ مسلم لیگ (ق) چوہدری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں تمام سیاستدانوں کو اختلافات بھلا کر اکٹھے بیٹھنا چاہئے الیکشن ہونا نہ ہونا بعد کی بات ہے پہلے ملکی حالات ٹھیک ہونے چاہئیں۔ میں ان کی اس بات سے تو متفق ہوں کہ تمام سیاستدانوں کو اختلافات بھلا کر اکٹھے بیٹھنا چاہئے، لیکن اس بات سے متفق نہیں کہ الیکشن ہونا نہ ہونا بعد کی بات ہے پہلے ملکی حالات ٹھیک ہونے چاہئیں میرے خیال میں تو حالات ٹھیک ہونے کی کلید ہی الیکشن ہیں لہٰذا یہ بلا تاخیر اور فوری طور پر ہونے چاہئیں۔