خیالات کی جارحیت

     خیالات کی جارحیت
     خیالات کی جارحیت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایک نہ ختم ہونے والا، گہرا گھپ اندھیرا،ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ سانس لینا دشوار تھا۔ خیالات کے افق پر درد کے پھوڑے ابھرتے محسوس ہوتے جن میں سے پیپ بہہ رہی ہو۔اندر، باہر، ہر طرف شور ہی تو تھا۔ جسم کے روئے روئے میں درد کا محشر برپا تھا۔ اس صورت میں کچھ سجھائی نہ دیتا۔ شوریدگی حد سے بڑھنے لگتی تو دل کرتا کہ کوئی دیوار یا پتھر مل جائے، جس سے سر پھوڑ لیا جائے اور خیالات کا محشرستان کاسۂ سر سے بہہ جائے۔ سر پھٹول حبس کے موسم میں اس لئے ضروری ٹھہرتی ہے کیونکہ اس دوران زبان گنگ ہوتی ہے۔ صلب کر لی جاتی ہے۔ ادنیٰ کی ہر درست بات دورغ گوئی ٹھہرتی ہے۔ 

زندگی بھی کتنی درشت ہے۔ کہیں تقشف کی انتہاء ہے، خاک بسری ہے تو تشین سے بھری ہوئی۔ ان دنوں  اس کی زندگی حقیقتا تلخ تھی۔ اسے جب بھی دیکھتے وہ اپنے نوکیلے ناخنوں سے خود کو نوچتا رہتا۔ جسم کے ایک ایک حصے پر کھرونچیں تھیں اور چھید تھے۔ روزنِ زخم مسلسل رستے رہتے۔ان سب سے بڑھ کر وہ اپنی ذات کے اندر برپا شور سے تنگ تھا۔ زخم زدہ جسم اسے اس قدر تکلیف نہ دیتے جتنے ذات کے اندر موجود پھوڑے اسے ستاتے تھے۔ ان میں سے چیخیں نکلتیں۔ چیخوں  کا جناتی منہ اسے نگل جانے کے در پے ہوتا۔ کسمپرسی کے اس عالم میں وہ جگہ جگہ ہاتھ رکھتا، کانوں میں انگلیاں ٹھونستا، روح کے پرندے کو جسم میں تلاش کرتا کہ اس کے کان بند کر سکے، مگر ناکام رہتا۔ آخر یہ شور کیا تھا؟ یہ کس ذات کا شور تھا۔ یہ خیالات  میں  تلاطم اور اس میں حبس کیوں تھا؟ 

تنگی کے اس عالم میں در و دیوار بھی آسیب لگتے۔ فضا خون آلود لگتی۔ تنگ آ کر وہ باہر بھاگ اُٹھتا۔ گلی محلوں میں لوگوں کو دیکھنے لگتا۔ اسے ان سب کی کیفیت خود سے  بھی زیادہ بری معلوم ہوتی۔ ان کے جسم چھلنی چھلنی لگتے۔  بدن چنگھاڑتا محسوس ہوتا۔ ہونٹوں پہ اداسی کے پہاڑ نظر آتے۔ آنکھوں میں سے تکلیف رستی اور روح مردہ کی طرح تعفن زدہ جس کی سرانڈ تکدر پیدا کر دیتی۔ گمان ہونے لگتا کہ گیڈروں کے غول کی لمبی لمبی چیخوں نے جنگل کو سر پر اُٹھا رکھا ہے۔ ایک دوسرے کی تھوتھنیاں کاٹ رہے ہیں۔ اس صورت میں وہ کہتا یہ کیا ہیں۔ یہ انسان ہیں یا زرد کتے؟ کیا  انسان معاشرے میں خارش زدہ کتے سے بھی بدتر ہو گئے ہیں؟جب کچھ سمجھ نہ آتا تو وہ خود کو زد و کوب کرتا۔ مارتا، روتا، لیکن، ایک لفظ بھی زبان پر نہ لاتا۔ اگر کچھ کہ بھی لیتا تو اسے سنتا کون؟ جو سنتے تھے وہ کر ہی کیا سکتے تھے!  وہ سوچتا زندگی بدصورت ہوتی ہے یا اسے بنا دیا جاتا ہے؟ اسے کریہہ کون بناتاہے۔ جو بناتے ہیں وہ کون ہیں؟ ان کے اس کے پیچھے مفاد کیا ہوتے ہیں؟ کیا زندگی سب کے لئے بدصورت ہوتی ہے؟ آخر، زندگی ہے کیا۔۔۔! معاشرے میں چلتے پھرتے انسانوں کے جسم ایسے کیوں لگتے کہ چیونٹیوں نے انہیں ڈھانپ رکھا ہے اور مسلسل کھا کر کھوکھلا کر رہی ہیں۔

جب کسی بات کا جواب نہ ملتا تو وہ لوگوں کے ہجوم میں بھاگتا ہوا لب ِ سٹرک پہنچ جاتا۔ وہاں، الف ننگا ہو جاتا۔ کبھی کبھار تو کھڑا ہی رہتا بلکہ پہروں کھڑا رہتا۔ ہاتھوں کو تیشہ بنا کر اُداسی کے دیو ہیکل پہاڑ جسم سے توڑنے لگتا۔ عالیشان گاڑیوں میں، زرق برق لباسوں میں، قیمتی خوشبوؤں میں بسے جسم اسے دیکھ کر ہنستے اور استہزاء کرتے گزر جاتے۔ نازک لوگ تو اسے دیکھ چیختے اور کہتے اسے پاگل خانے میں بند کیوں نہیں کیا جاتا۔ اسے دیکھ کر قے آتی ہے۔ اس سرانڈ زدہ انسان کو یہاں کون چھوڑ گیا ہے۔ تنگ آ کر رعنائی کی تلاش میں پھولوں اور پتوں کے پاس جاتا، مگر، وہاں بھی کوئی ملتا نہ ملتی۔ وہاں بھی اداسی گل و لالہ کو نچوڑتے، چچوڑتے ہوئے نظر آتی۔ آب و گل بے ذائقہ۔ پھلوں میں رس ندارد۔ پھولوں میں رعنائی۔ سب اداس اور ماتم کناں۔ آخر یہ کیا تھا؟

سرِ راہ بیٹھ کر مٹی کو کریدتا تو وہ بھی درد کا دلدل تھی۔ وہ فورا ہاتھ ہٹا لیتا کہ وطن کے پتوں میں سمٹی اداسی کی سمجھ آتی ہے، لیکن مٹی میں درد اور اس میں سے آنسو اور اس سے بنی دلدل کیا ہے؟اس میں بھی چیخیں تھیں۔ ان کی جن کو یہ دلدل کھا گیا تھا۔ جو اس حبس زدہ موسم میں سسک سسک کر مر گئے تھے۔ وہ جنہیں زندہ آگ میں پھینک دیا گیا تھا۔ وہ جن کے جسم زرد کتوں سے بدتر تھے۔ وہ جو طاعون زدہ انسان سے  بھی گزر چکے تھے۔ ان سب کی درد ناک چیخیں مٹی میں سے نکلتیں تو بھاگ اٹھتا۔ لیکن، خیالات سے کیسے پیچھا چھڑاتا؟  سوچنے والا وجود کہاں تک بھاگے۔۔۔!

جب وہ تھک جاتا، اس کا جسم سوچ کے ہاتھوں شل ہو جاتا تو وہ پابلو پکاسو کی گورنیکا کی مجرد دنیا میں کھو جاتا۔ اسے ڈچ مصور، پائیٹ مونڈرین، جس کی زندگی بندی خانوں میں مقید تھی۔ اس کی روح اور باہری دنیا میں رسہ کشی تھی۔ ایک نہ خٹم ہونے والی جنگ۔ نہ تھمنے والے خیالات۔ وہ بھی تو تنہا ہی تھا۔ اس نے اندر باہر کی اداسیوں کو تجریدی آرٹ میں زبان دی تھی۔ تجرید کو کیا زبان کہا جا سکتا ہے؟ وہ کہتا تھا۔ وہ بولتا تھا۔ اسے آہٹ میں اپنا آپ محسوس ہوتا۔ پھر وہ اس کے اداس ’سرمئی درخت‘ میں کھو جاتا۔ عفریت، انسانی سفلگی اور پریوں کی کہانیوں کی کونپلیں اس کے دماغ میں اگنے لگتیں،مگر پریوں کی کہانیوں کی فصل پر بھلا بْورکبھی آیا بھی ہے!

کبھی طبیعت میں اس قدر غصے کی لہر اٹھتی جیسے سب کچھ بہا کر لے جائے گی۔ وہ اس دوران خوش ہوتا کہ اسی بہانے موت کی آغوش میں چلا جائے۔ جسم اور روح کے چنگھاڑتے عذاب سے خلاصی پائے گا۔ بریدہ جسموں کو دیکھنے سے آرام پائے گا۔ لب بستگی کے عذاب سے چھوٹ جائے گا۔ 

کمخواب میں لپٹے جسم تو ان باتوں سے عاری تھے۔ وہ پاگل کتوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیتے۔ ان کی باتوں پہ کان نہ دھرتے۔ کہتے یہ ظالم ہیں۔ جھوٹے ہیں۔ جھوٹوں کو مارو کیوں کہ ان پہ تو خدا بھی لعنت بھیجتا ہے۔ یہ جھوٹا ٹھہرائے جانے کا تمغہ اوپر والے ہی کیوں دیتے ہیں؟ ایک دن خود سے تنگ آ کر شاہوں کے محل کے سامنے وہ اس قدر زور سے چیخا کہ صورِ اسرافیل کا گمان ہونے لگا، لیکن، شاہوں کے کانوں تک یہ درد ناک چیخ درباریوں کی مدھر تانوں نے روک لی۔ سب عیش و عشرت میں نہاتے رہے۔ لیکن، وہ چیخ اپنا اثر دکھا گئی۔ ایک سیلاب آیا وہ خس و خاشاک کی طرح سب کچھ بہا کر لے گیا۔ شاہی زمین بوس ہو کر رہ گئی۔

 یہ کیسا بھیانک خواب تھا۔

٭٭٭٭٭

  

مزید :

رائے -کالم -