نیل آرمسٹرانگ دُکھی کیوں تھے؟
چاند پر قدم رکھنے والاپہلا انسان نیل آرم سٹرانگ 82 برس کی عمر میں دُنیا سے رخصت ہو گیا۔ انسانی تاریخ میں جدید سائنسی دور کا آغاز کوئی زیادہ دُور کی بات نہیں، چند دہائیاں پیشتر سائنس اور ٹیکنالوجی کا وجود یا تو سرے سے ہی ناپید تھا یا پھر اسے انسان کی چند بنیادی ضروریات تک ہی محدود کر دیا گیا تھا۔ شاید کسی انسان نے چاند پر قدم رکھنے کا خواب میں تو سوچا ہو، اس کے عملی اظہار کی کوئی صورت موجود نہیں تھی۔ شاعری میں تو ضرور کہا گیا تھا کہ ....”محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند“.... لیکن شاید شاعر کے ذہن میں بھی اس کا مطلب یہ نہ ہو کہ انسان ستاروں پر جا پہنچے گا، وہاں پر جھنڈے گاڑ دے گا، سائنسی آلات نصب کرے گا، وہاں پر زندگی کے آثار تلاش کرے گا اور وہاں پر انسانی کالونیاں بنانے کے بارے میں سوچنا شروع کر دے گا۔ انسانی سوچ تو چاند کی خوبصورتی، دلکشی اور اس پر داغ تک ہی محدود تھی۔ شاعر اپنی محبوبہ کی خوبصورتی کو مثل چاند سمجھتے تھے۔ چاند جیسی دُلہن کی باتیں بھی ضرور ہوتی ہوں گی، لیکن ماضی کے انسان نے چاند پر قدم رکھنے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا ہو گا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ اور امریکہ میں تیز رفتاری کے ساتھ ہونے والی صنعتی، معاشی اور سائنسی ترقی کے نتیجے میں سوویت یونین اور امریکہ کے مابین اپنی طاقت کے اظہار اور اس کا لوہا منوانے کا جذبہ پیدا ہوا، اس طرح دو عالمی طاقتوں کی وجہ سے دُنیا میں بائی پولر سسٹم وجود میں آیا۔ دونوں عالمی طاقتوں نے ایک دوسرے پر بالادستی حاصل کرنے کے مختلف ذرائع اور طریقے اختیار کئے۔ اِن طریقوں میں خلاءکی تسخیر، راکٹوں، جدید طیاروں اور مصنوعی سیاروں کی ایجاد بھی شامل تھی۔ سیاروں تک پہنچنے کی جدوجہد کے ایک نئے دور کا آغاز بھی شامل تھا، جس کے تحت سوویت یونین اور امریکہ نے چاند پر پہنچنے کی کوشش کی تاکہ ایک دوسرے پر سبقت لے جاکر دُنیا میں اپنے آپ کو نمبر ون ثابت کر سکیں۔ اِس جدوجہد میں امریکہ کامیاب ہوا اور1969ءمیں پہلا امریکی شہری نیل آرم سٹرانگ چاند پر قدم رکھنے میں کامیاب ہو گیا۔
چاند پر ایک امریکی کے قدم کو امریکی کامیابی ہی تصور نہیںکیا گیا تھا، بلکہ اُسے پوری انسانیت کے چاند پر قدم رکھنے کے مماثل قرا دیا گیا۔ گو کہ چاند پر قدم رکھنے والا ایک امریکی تھا، لیکن تھا تو ایک انسان۔ نیل آرم سٹرانگ نے چاند پر قدم رکھ کر انسانی تاریخ میں جو مقام حاصل کیا، یہ نہ ماضی میں کسی انسان کو حاصل ہوا ہے اور نہ ہی آئندہ کسی کو ملنے کی توقع ہے۔ انسان خواہ کتنے ہی سیاروں اور ستاروں کو مسخر کر لے، سیاروں پر انسانی آبادیاں بسانے میں کامیاب ہو جائے، نیل آرم سٹرانگ کے کارنامے اور مقام میں نہ کمی آئے گی اور نہ ہی کوئی انسان اُن سے یہ مقام چھین سکے گا، کیونکہ نیل آرم سٹرانگ کے چاند پر قدم رکھنے سے پہلے انسان کو یہ اعتماد حاصل نہیں تھا کہ وہ سیاروں تک پہنچ بھی سکتا ہے یا نہیں، کیونکہ چاند کے بارے میں انسان کے جو تصورات صدیوں تک موجود تھے اور جو توہمات پائے جاتے تھے، انہیں ختم کرنے کا ذریعہ تو انسانی قدم ہی ہو سکتا تھا۔ چاند پر انسانی قدم سے پہلے انسان کو نہ اعتماد حاصل تھا اور نہ وہ اتنا پُرعزم تھا کہ وہ سیاروں تک پہنچ سکتا اور چاند، مریخ سے آگے تک بھی اُس کی سوچ جا سکتی ہے۔
چاند پر نیل آرم سٹرانگ کے ایک قدم نے خلا کی لامحدود تسخیر کو اب ممکنات کی حدود میں شامل کر دیا ہے۔ نیل آرم سٹرانگ اِس کارنامے کے بعد نہ صرف امریکی ہیرو بننے اور کہلانے کا سو فیصد اہل تھا، بلکہ وہ تو پوری دُنیا اور بنی نوع انسانیت کا ہیرو بننے کے خواب بھی دیکھ سکتا تھا، لیکن شاید اُس نے ہیرو بننے اور خواب دیکھنے کے بارے میں نہ کبھی سوچا اور نہ ہی اسے اہمیت دی۔ اتنا بڑا کارنامہ سرانجام دینے کے بعد نیل آرم سٹرانگ نے تقریبات کا مہمان خصوصی بننے، اپنی ستائش کروانے اور تالیاں بجوانے کو اہمیت نہ دی۔ انہیں مختلف تقریبات میں مدعو کیا جاتا، تو وہ انکار کر دیتے۔ کوئی اخباری نمائندہ اُن کا انٹرویو لینے کی کوشش کرتا تو وہ معذرت کر لیتے۔ کوئی ٹیلی ویژن کا اینکر پرسن اُن سے ٹیلی ویژن پر آنے کی درخواست کرتا تو اُسے نظر انداز کر دیتے ۔ نہ انہوں نے اصلاح معاشرے کا بیڑہ اُٹھایا اور نہ لوگوں کو نیکی اور پارسائی کا درس دیا، وہ جس شعبے سے منسلک تھے، اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اسی شعبے سے وابستہ رہے، لیکن انہوں نے عہدے حاصل کرنے کی کبھی کوشش نہیںکی، بلکہ نوجوان سائنس دانوں کے لئے جگہ خالی کی اور خود درس و تدریس کے پیشے سے منسلک ہو گئے اور اپنی باقی ماندہ زندگی جھمیلوں کی نذر نہ کی اور بطور استاد گزار دی۔
یہ ایک ایسی سوچ ہے، جس کے تحت انسان اپنے آپ کو ناگزیر نہیں سمجھتا۔ دوسروں کی صلاحیتوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اپنی نفی کرتا ہے اور اپنے ساتھیوں میں آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ اِس کے مقابلے میں ایک ایسی سوچ بھی ہے،جس کے تحت ایک انسان اپنے کارناموں پر فخرکرتا ہے۔ قوم پر اپنے احسانات گنوانا اُس کا معمول بن جاتا ہے۔ باتوں باتوں میں اپنے کارناموں کو عظیم قرار دینا، اپنے آپ کو قوم و ملک کے لئے ناگزیر قرار دینا اور کوئی بھی ایسا موقع ہاتھ سے نہ جانے دینا، جس کے ذریعے اپنی شخصیت کو اُجاگر کیا جا سکے اور عوام سے واہ واہ کروا کر داد وصول کی جائے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنا بڑا کارنامہ سرانجام دینے کے بعد نیل آرم سٹرلنگ نے اِس کارنامے کو کیش کیوں نہیں کرایا؟ تالیاں بجوانے سے احتراز کیوں کیا؟ اپنے آپ کو ناگزیر قرار کیوں نہیں دیا اور گم نامی کی زندگی گزارنے کو کیوں ترجیح دی؟ اِس سوال کا جواب نیل آرم سٹرانگ کے بارے میں لکھی جانے والی ایک کتاب ”پہلا آدمی“ کے مصنف ڈاکٹر ہنسن نے اپنی کتاب میں دینے کی کوشش کی ہے۔
ڈاکٹر ہنسن لکھتے ہیں کہ انہوں نے یہ سوال نیل آرم سٹرانگ کی بیوی سے پوچھا اور کہا کہ نیل آرم سٹرانگ کو اِس بات کا کریڈٹ دیا جاتا ہے کہ انہوں نے دوسروں کی طرح اپنی شہرت سے فائدہ نہیں اُٹھایا تو اس کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ نیل آرم سٹرانگ خیال کرتے تھے کہ انہوں نے جو کارنامہ انجام دیا ہے اُس میں ہزاروں ایسے افراد کی محنت بھی شامل تھی، جنہوں نے چاند پر قدم رکھنے کے انسانی مشن کی کامیابی کے لئے دن رات کام کیا تھا، لیکن ستائش نیل آرم سٹرانگ کی ہوئی۔ اِس بات پر نیل آرم سٹرانگ اپنے آپ کو مجرم تصور کرتے تھے۔ اِس غم کو انہوں نے دل پر لگا لیا تھا اور اُنہیں اِس بات کا رنج تھا کہ آخر کیوں صرف انہیں ہی اتنی پذیرائی ملی ہے اور دوسروں کی محنت کو کیوں نظر انداز کیا گیا۔ یہ ایک ایسی سوچ تھی، ایسا دُکھ تھا، ایسا خلوص تھا، دوسروں کے لئے ایسی ہمدردی اور دیانت داری کے جذبوں کی وہ معراج تھی، جس کے ذریعے نیل آرم سٹرانگ نے ایک ہیرو سے مجرم تک کا82سالہ عظیم الشان سفر طے کیا تھا۔
یہ ایک ایسی سوچ ہے،جس کا ہمارے صوفیائے کرام نے درس دیاہے۔ دوسروں کو بہتر جانو، اپنی ” مَیں“ ختم کرو ، تم کچھ نہیںہو۔ تمہاری وجہ سے کچھ نہیں ہوا، تم اکیلے کسی قابل نہیں تھے۔ اگر اِس طرح کی سوچ کسی قوم کے افراد میں پیدا ہو جائے تو پھر وہ اپنے کارناموں پر فخر نہیں کرتے۔ دوسروں کی محنت کو اپنے کھاتے میں نہیں ڈالتے، اپنے آپ کو ناگزیر برقرار نہیں دیتے، نوجوانوں کے لئے راستے بند نہیں کرتے، بلکہ آگے جانے کے لئے اُن کے لئے جگہ بناتے ہیں۔ اپنا ہنر اور ذہن دوسروں میں منتقل کرتے ہیں اور اپنے علم پر سانپ کی طرح نہیں بیٹھتے۔ ایک طرف نیل آرم سٹرانگ کی سوچ اور رویہ ہے اور دوسری طرف ہمارے قومی رویے ہیں، جن کے تحت ہر فرد صرف نمبر بنانے کے چکر میں ہے۔ ذاتی نمود و نمائش اور ستائش سے وہ باغ باغ ہو جاتا ہے۔ نیل آرم سٹرانگ سے جب بھی کوئی چاند پر قدم رکھنے کے بارے میں سوال کرتا تھا تو وہ بڑے سکون سے جواب دیتے تھے کہ مَیں نے اپنا کام کیا ہے، اس کے علاوہ مَیں نے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا۔ اس کے برعکس ہم کوئی کام نہیںکرتے، صرف کارنامے انجام دیتے ہیں، وہ بھی اپنی اَنا کی تسکین اور واہ واہ کرانے کے لئے۔ امریکی قوم کے اسی طرح کے رویوں نے امریکہ کو دُنیا کی واحد سپرپاور کے درجے پر فائز کر دیا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے ایک مشہور امریکی جنرل سے، جن کی امریکہ کے لئے بے مثال خدمات تھیں، صحافیوں نے جب پوچھا تھا کہ آپ تو اتنے ناگزیر تھے اور ابھی امریکی فوج کو آپ کی ضرورت تھی، تو اِس عظیم جنرل نے جو جواب دیا تھا وہ ہمارے قومی ہیروز کو بھی ضرور معلوم ہونا چاہئے۔ امریکی جنرل نے کہا تھا کہ ”دُنیا بھر کے قبرستان ناگزیر انسانوں سے بھرے پڑے ہیں، لیکن پھر بھی دُنیا کا نظام پہلے سے بہتر انداز میں رواں دواں ہے، اِس لئے میرے جانے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا“۔ کچھ عرصہ پہلے نیو یارک کے میئر نے ایک شہری کو آگ میں کود کر موت کے منہ میں جانے سے بچایا تھا، جب میڈیا نے اُسے ہیرو قرار دینے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ مَیں ہیرو وغیرہ نہیںہوں۔ مَیں نے تو انسانی جان بچا کر اپنا فرض پورا کیا ہے۔ فرض کی ادائیگی اور اپنے فرائض کی ایمانداری سے انجام دہی جب کسی قوم کے افراد کے لئے ہیرو بننے سے زیادہ مقدم بن جائے تو پھر اُس قوم کو بددُعاﺅں کے ذریعے سپر پاور کے منصب سے نہیں ہٹایا جا سکتا، جبکہ بددُعائیں دینے والے ذاتی برتری، غرور، گھمنڈ اور ناگزیریت کے غیر حقیقی اور غیر فطری تصورات کو قومی فرائض پر ترجیح دینے میں عار محسوس نہ کریں۔ ٭