امن اور خوشحالی
تنازعات ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوا کرتے ہیں۔ تنازعات کو خوش اسلوبی سے حل کرنے میں فریقین کے لیے امن اور خوشحالی کی راہیں پناہ کا درجہ رکھتی ہیں ۔ تنازعات سے گریز کرنا دانشمندی کا حصہ ہے۔ سوچیے تو تنازعات کی کوششوں پر کس قدر توانائی صرف ہوتی ہے۔ یہ ساری کاوشیں ، ساری رسہ کشی کا انجام مزید تنازعات کو جنم دیتا ہے۔
ماہرین بتاتے ہیں کہ جو انسانی ذہن دس یا بیس سال تک تنازعہ یا تنازعات میں غرق رہے وہ تنازع مووڈ اختیار کرلیتا ہے اور بغیر تنازع اور اختلاف رائے کے رہنا اس کے لیے مشکل ہوجاتا ہے۔ چنانچہ دس یا پندرہ سال تنازعے کی صورت حال میں رہنے کے بعد تو انسانی دماغ کافی مستقل کنفلکٹ مووڈ میں چلا جاتا ہے۔ یاد رہے مووڈ ایک آئی۔ٹی یا کمپیوٹر کی اصطلاح کے طور پر لینا بہتر ہوگا۔
کنفلکٹ مووڈ سے باہر نکلنے کے لیے ہارڈ لسنز لینا ضروری ہوتے ہوں گے۔ سخت سبق انسان کب سیکھتا ہے۔ ایسا سبق جو یاد رہے جو انسانی دماغ کو کنفلٹ مووڈ سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوجائے۔ شدید نقصانات ، جنگ کے نتیجے میں تباہی اور بربادی، خونریزی اور قتل و غارت وہ ہارڈ لسنز ہیں جو انسانی دماغ کو جھنجوڑ کے رکھ دیتے اور انسانی دماغ کو اسکے کنفلکٹ مووڈ سے اکثر نکالنے میں معاون اور مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔
تنازعات میں ملوث ہونے سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ یہ ایک دوطرفہ عمل ہے۔ دونوں فریقین سے کسی ایک کا مثبت طرز عمل تنازعات کو روکنے کے لیے پچاس فیصد کارگر ثابت ہوتا ہوگا۔ لیکن سوفیصد نہیں ہوسکتا۔ کیا تنازعات کی شرح تعلیم کی کمی بیشی پر منحصر ہے؟ یا تعلیم کی کمی بیشی محض تنازعات کی نوعیت متعین کرتی ہے؟
ٓآئیے بین الاقوامی تناظر میں چند تنازعات کی مثال لیتے ہیں۔ چند نئے تنازعے جو کرنٹ افئیرز کا حصہ ہیں۔
امریکہ اور چین کے درمیان ٹریڈ وار، امریکہ اور ایران کے درمیان ایٹمی معاہدے کی منسوخی پر تنازعہ۔ چین اور جاپان کے درمیان سمندری جزیروں پر تنازعہ۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کا تنازعہ تو پرانا ہے۔
بعض اوقات فریقین اپنے درمیان تنازعہ خود پیدا نہیں کرتے۔ بلکہ ایک تیسرا فریق پیدا کرتا ہے جو براہ راست خود تنازعے کا حصہ نہیں ہوتا۔ تیسرے فریق کو براہ راست یا کسی اور طریقے سے مذکورہ تنازعے کا فائدہ پہنچتا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا پر تو الزام ہے کہ وہ تنازعات اور پراکسی وارز پر بزنس کرتے ہیں۔ چنانچہ اپنے بزنس امپائیر کو ترقی دینے کے لیے سیاسی اداروں کو ایسی پالیسیوں کی طرف اکسایا جاتا ہے جن سے تنازعات اور پراکسی وارز کی فضا پیدا ہو۔ مال کی طلب اور کھپت کے لیے مارکیٹ ڈھونڈی نہیں بنائی جاتی ہے۔
تنازعات کو حل کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا خاص کر وہ تنازعات جو تیسرے فریق کی کاوش اور دلچسپی سے بنے ہوں اور جس میں تیسرے فریق کے مفادات پنپتے ہوں۔ تیسرے فریق کا بزنس پھلتا پھولتا ہو۔ ایسے تنازعات تیسرا فریق حل نہیں ہونے دے گا۔ ایسا تنازعہ حل ہونے کی صورت میں تیسرا فریق نقصان اٹھاتا ہے۔ پھر اسے اس نقصان کی تلافی کے کے لیے کئی اور تنازعہ شروع کروانا پڑے گا۔ اسے بڑھاوا دینا پڑے گا۔ تاکہ بزنس پہلے جیسا چلنے لگے۔ یہ تو کافی لمبا اور مشکل کام ہے۔ اس لیے بنی ہوئی مارکیٹ کو کیوں خراب ہونے دیا جاے؟ یہ تو بیوقوفی ہوگی۔
اس کا اچھا طریقہ یہ ہے کہ کچھ ایسا کرو کہ دونوں فریقین مصالحت کے لیے تیسرے فریق کے پاس آئیں۔ یا کم از کم ایک تو آئے او ر بار بار آتا رہے۔ ایسی صورت میں تنازعہ کا تصفیہ کرنے والا فریق صرف اسی صورت میں دونوں فریقین کے درمیان موجودہ تنازعہ صلح صفائی سے حل کروانے کا سوچے گا جب اسے ایسا کرنے سے سب سے زیادہ منافع نظر آرہا ہو۔ یا اسے یہ تنازعہ حل نہ کرانے کی صورت میں اپنے بزنس میں بڑا نقصان نظر آنے لگے۔ ہم آپ سے ایک سادہ سی بزنس تھیوری ڈسکس کررہے ہیں۔
کیپیٹلزم کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جائے۔ یہ کیپٹلزم کا بلائینڈ پرنسپل ہے۔منافع حاصل کرنے کا یہ اصول اکثر حاوی نظر آتا ہے باقی پالیسی ترجیحات پر۔ہمیں ترقی یافتہ دنیا سے شکوہ ہے کہ منافع اس دنیا کی سب سے اہم ترجیح رہی ہوگی۔
تنازعات کو دو فریقین خود سے کیوں حل نہیں کرسکتے؟ خود سے نہ حل کرنے کی سزا تلخ اور طویل ہوا کرتی ہے۔ کیا کریں کہ تیسرا فریق حل بھی نہیں کرنے دیتا ۔ تنازعہ حل ہونے میں دونوں فریقین کا نقصان ہونا رک جاتا ہے اور تیسرے کا بزنس ماند پڑجاتا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں تنازعات کا چپٹر ہمہ گیر ہے۔ کیا دنیا کا آدھا بجٹ تنازعات کی بھینٹ چڑجاتا ہے؟ یا اس سے بھی زیادہ؟ تہذیب اور تعلیم اور ترویج نے انسان کی کتنی مدد کی ہے کہ وہ اپنی محنت، کاوش اور خون پیسنے کی کمائی کو ہتھیاروں کے انبار لگانے پر نہ صرف ہونے دے؟ امن اور خوشحالی مقدم ہیں۔امن اور خوشحالی کی قیمت جاننی ہو تو شام کے تباہ شدہ شہروں کی ایک جھلک دیکھنی چاہیے۔امن اور خوشحالی کے لیے کام کرنے والے انسانیت کو دکھ ، رنج اور تباہی سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آئیے ہم ان کا ساتھ دیں۔ اللہ ہمارا حامی اور ناصر ہو۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔