شفقت محمود: اہلِ قلم کے درمیان

شفقت محمود: اہلِ قلم کے درمیان
شفقت محمود: اہلِ قلم کے درمیان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


چند روز قبل نیشنل بُک فاؤنڈیشن کے ایم ڈی ڈاکٹر انعام الحق جاوید کا اسلام آباد سے فون آیا۔کہنے لگے: ”ہمارے محکمے کے وزیر جناب شفقت محمود لاہور کے اہل قلم سے مکالمہ کرنا چاہتے ہیں۔آپ ابھی سے دوستوں کو کہنا شروع کر دیجیے“۔ پھر ایسا ہی ہُوا۔24 اگست کی شام ایوانِ اقبال کے کمیٹی روم میں لاہور کے سارے ادیب جمع تھے اور شفقت محمود صاحب ان کے سوالوں کے جواب دے رہے تھے۔ان کے ایک طرف وفاقی سیکرٹری ڈاکٹر ندیم شفیق ملک اور دوسری جانب ڈاکٹر انعام الحق جاوید بیٹھے تھے۔
یہ بات مجھے اندر کے ایک آدمی نے بتائی کہ پی ٹی آئی حکومت کے وفاقی وزیر تعلیم جناب شفقت محمود نے لاہور کے ادیبوں شاعروں سے ملاقات کا فیصلہ میرا کالم ”عرفان صدیقی کی گرفتاری اور رہائی“ (مطبوعہ 30جولائی2019ء) پڑھنے کے بعد کیا۔مجھے یاد نہیں تھا کہ مَیں نے اپنے کالم میں کیا لکھا تھا۔کمپیوٹر سے کالم کا پرنٹ لیا اور دوبارہ پڑھا تو ساری بات سمجھ میں آ گئی۔وہ پیرا گراف آپ بھی پڑھ لیجئے، جو شفقت محمود صاحب کو لڑ گیا ہو گا۔


”خدا لگتی کہوں گا کہ پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ اس لحاظ سے خوش قسمت جماعتیں ہیں کہ انہیں بہت سے ادیبوں،شاعروں اور کالم نگاروں کی حمایت حاصل ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ ان دونوں پارٹیوں نے اپنے ادوار میں ایک آدھ وزیر یا مشیر ایسا ضرور رکھا،جس کا تعلق براہِ راست ادیبوں اور ادیبوں کے اداروں سے تھا۔یہ دونوں جماعتیں اسلام آباد میں اہل ِ قلم کانفرنس منعقد کر کے ادیبوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ مسلم لیگ(ن) کے پچھلے دور میں، جب عرفان صدیقی صاحب قومی تاریخ و ادبی ڈویژن کے سربراہ تھے، اکادمی ادبیاتِ پاکستان کے زیر اہتمام کئی کانفرنسیں منعقد ہوئیں۔این بی ایف نے ہر سال کتاب میلہ منعقد کیا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے جناب شفقت محمود کو تمام علمی و ادبی اداروں کی سربراہی دے دی ہے،لیکن شفقت محمود صاحب ابھی تک ادیبوں اور شاعروں سے براہِ راست تعلق بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ان کی حکومت نے اپریل 2019ء میں نہایت بے دِلی سے ایک کتاب میلے کا اہتمام کیا تھا، لیکن اس میں شفقت محمود صاحب کی ویسی دلچسپی نظر نہیں آئی، جیسی عرفان صدیقی صاحب دکھایا کرتے تھے۔وہ میلے میں صبح سویرے پہنچ جاتے اور شام تک وہیں موجود رہتے۔شاعروں،ادیبوں سے گپ شپ کرتے۔ ادبی جلسوں میں شرکت کرتے۔حتیٰ کہ چائے اور کھانے کے وقفے میں بھی ادیبوں شاعروں کے ساتھ ہی ہوتے۔اگر پی ٹی آئی کی حکومت،واقعی پانچ سال پورے کرنا چاہتی ہے اور اگر ان پانچ برسوں میں عوام کے لیے بھی کچھ کرنے کی آرزو مند ہے تو اسے ادیبوں، شاعروں،کالم نگاروں اور دانشوروں سے ہم کلام ہونا پڑے گا“۔
مَیں نے اپنے اِسی کالم میں قومی تاریخ اور ادبی ورثہ ڈویژن کے سیکرٹری ڈاکٹر ندیم شفیق ملک صاحب کے تقرر کو بھی سراہا تھا اور کہا تھا کہ ان کی آمد سے تمام اہم ادبی ادارے متحرک ہو سکتے ہیں۔


مَیں دیکھ رہا تھا کہ ادیبوں شاعروں کے درمیان شفقت محمود اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہے تھے۔ ان کے چہرے پر وہ تناؤ نہیں تھا جو عام طور پر ٹی وی چینلوں کے مذاکروں اور مباحثوں میں مخالفین کے سیاسی اعتراضات کے جوابات دیتے ہوئے نظر آتا ہے۔البتہ ایک بات محسوس کی گئی کہ ادیبوں نے سرکاری ادبی اداروں سے متعلق جتنے بھی اعتراضات اٹھائے شفقت محمود صاحب سب کے لیے کمیٹیاں بنانے کااعلان کرتے گئے اور کمیٹیاں بنانے کا مطلب آپ جانتے ہی ہیں۔ہم نے دیکھا ہے کہ حکومت کوئی ہو۔ وزیر تعلیم کوئی ہو بیرونِ ملک دورے کرنے والے ادیبوں کی فہرست وہی رہتی ہے۔اسی طرح اکادمی ادبیات، ادارہ فروغ قومی زبان،نیشنل بُک فاؤنڈیشن، اُردو سائنس بورڈ، قائداعظم اکیڈمی، اقبال اکیڈی کے سربراہ بھی آپس میں میوزیکل چیئر کا کھیل کھیلتے رہتے ہیں۔دُنیا بھر میں قائم اُردو چیئرز پر دوسرے مضمون پڑھانے والوں کو لگا دیا جاتا ہے۔ ایوارڈ دینے کے لیے حقائق کو سامنے نہیں رکھا جاتا۔یہ سارے امور نمٹانے کے لیے متحرک ادیبوں شاعروں پر مشتمل کمیٹیاں بنا دی جائیں تو بعد میں اُٹھنے والے اعتراضات کا سلسلہ ختم ہو سکتا ہے۔


مکالمے کے دوران میں،جب مائیک مجھ تک پہنچا تو مَیں نے مناسب سمجھا کہ شفقت محمود صاحب کو وہ نظم سنا دوں جس میں،مَیں نے وزیراعظم عمران خان سے کچھ توقعات وابستہ کی ہیں:
ذرا سا وقت ملا ہے، ذرا سی مہلت ہے
اک امتحان تمھارے لیے حکومت ہے
پہاڑ جیسے مسائل، تمھارے سامنے ہیں
بدن ہیں جتنے بھی گھائل، تمھارے سامنے ہیں
چراغ اندھیروں سے مانوس ہو گئے سارے
وہ تیرگی ہے کہ تھوڑے ہیں، عرش کے تارے
غریبِ شہر کے تن پر ہزار زخم لگے


سوال یہ ہے کہ وہ، اپنا درد کس سے کہے؟
اُمید اب کے بھی ٹوٹی تو حشر اُٹھے گا
یہ شاعر آپ، بغاوت کے گیت لکھے گا
تمھارے سینے میں دل ہے تو درد بھی ہو گا
اسی سے مختلف، انداز سروری ہو گا
گر اختیار ملا ہے تو کچھ بَھلا کر دو
غریبِ شہر کے دامن کو پیار سے بھر دو


میری نظم سُن کر شفقت محمود صاحب کہنے لگے: ”اِن شا اللہ اب کے امید نہیں ٹوٹے گی اور آپ کو بغاوت کے ترانے نہیں لکھنا پڑیں گے کیونکہ میرا لیڈر عمران خان کرپٹ نہیں ہے“۔
اس مکالماتی نشست کے اہتمام کے لیے وفاقی سیکرٹری ڈاکٹر ندیم شفیق ملک نے ذاتی دلچسپی لی۔انھوں نے عہدہ سنبھالتے ہی ملک بھر میں قائم تمام علمی اور ادبی اداروں کے معاملات کو بغور دیکھا اور مسائل کو سلجھانے کے لیے بذاتِ خود میدانِ عمل میں نکل کھڑے ہوئے۔بیورو کریسی عام طور پر ادبی اداروں کو کام کرنے سے روکتی ہے۔ راہ میں روڑے اٹکاتی ہے،لیکن ندیم شفیق ملک صاحب کا دم غنیمت ہے کہ وہ ادیب پہلے ہیں، افسر بعد میں۔ اس لیے وہ ادبی اداروں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے جو کوشش کریں گے،وہ سچی اور کام یاب کوشش ہو گی۔

مزید :

رائے -کالم -