سست انٹرنیٹ اور درپیش عالمی چیلنجز

  سست انٹرنیٹ اور درپیش عالمی چیلنجز
  سست انٹرنیٹ اور درپیش عالمی چیلنجز

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  

وزیر اعظم شہباز شریف نے وفاقی دفاتر کو پیپر لیس (Paperless) بنانے کے لیے وزارت آئی ٹی اور متعلقہ اداروں کو ٹاسک دے دیا ہے۔ انہوں نے آئندہ 2 ہفتوں میں ای آفس کے نفاذ میں پیش رفت پر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی سرکاری دفاتر میں ای آفس کے نفاذ میں سست روی قبول نہیں‘ ایک ماہ کے اندر تمام دفتری فائلز پر کام ای آفس کے ذریعے یقینی بنایا جائے۔انہوں واضح کیا کہ وہ آئندہ ماہ سے کوئی بھی فائل ای آفس کے علاوہ نہیں دیکھیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ شفافیت اور تیزی لانے کے لیے ای آفس کا نفاذ ان کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔

صورتحال یہ ہے کہ میں کبھی جناب وزیراعظم کی اس ہدایت یا فرمان کی طرف دیکھتا ہوں اور کبھی میرا دھیان ان خبروں کی طرف چلا جاتا ہے جو پچھلے کچھ عرصے سے ملک میں انٹرنیٹ کے سست ہونے کے بارے میں مختلف حلقوں کے حوالے سے سامنے آ رہی ہیں اور جن میں انٹرنیٹ کے سست ہونے پر گہری تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے اور قومی معیشت پر اس کے منفی اثرات کے بارے میں آگاہ کیا جا رہا ہے۔ یہ خبروں والا بھی بڑا دلچسپ معاملہ ہے۔ وہ جو انٹرنیٹ کی بندش اور سستی کی وجہ سے متاثر ہو رہے ہیں ان کا خیال ہے کہ حکومت نے انٹرنیٹ کی رفتار بالقصد کم کر رکھی ہے تاکہ سوشل میڈیا کے حوالے سے معاملات کو کنٹرول کیا جا سکے۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ حکومت غالباً فائر وال نصب کر رہی ہے جس کی وجہ سے انٹرنیٹ کی رفتار سست ہے۔ حکومت کی جانب سے نیٹ کے سست ہونے کے بارے میں مختلف تاویلیں پیش کی جا رہی ہیں۔ اس وقت ملک میں فری لانسرز کی تعداد 5 لاکھ سے زیادہ ہے اور یہ تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔پی ٹی اے کی 2022ء اور 2023ء کی سالانہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 18 کروڑ 97 لاکھ انٹرنیٹ موبائل صارفین ہیں، جبکہ براڈ بینڈ سبسکرائبرز کی تعداد 12کروڑ 69 لاکھ ہے۔ سست انٹرنیٹ کی وجہ سے یہ سبھی متاثر ہو رہے ہیں۔

تازہ خبر یہ آئی ہے کہ انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کی وجہ سے 2023ء میں پاکستان کی اقتصادیات کو 65 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا تھا اور انٹرنیٹ کی بندش سے 8 کروڑ 30 لاکھ پاکستانی متاثر ہوئے تھے جبکہ انٹرنیٹ کی بندش کا مجموعی دورانیہ 259 گھنٹے رہا جو لگ بھگ 11 دن بنتے ہیں یعنی سال بھر میں 11 دن انٹرنیٹ بند رہا یا متاثر ہوا۔ امسال بھی ویسی ہی صورتحال نظر آتی ہے۔

عام زندگی تو متاثر ہے ہی، فری لانسرز بھی انٹرنیٹ کی سست روی کے باعث بھاری مالی نقصان کے سامنے کی شکایت کر رہے ہیں۔ ایک محتاط انداز ے کے مطابق انٹرنیٹ سروسز میں خلل سے تیس کروڑ ڈالر سے زائد کے نقصان کا اندیشہ ہے جبکہ اس عمل سے لاکھوں فری لانسرز ہی نہیں دیگر متعدد شعبے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ آئی ٹی ماہرین کا خیال ہے کہ انٹرنیٹ سکیورٹی نیٹ ورک سسٹم فائر وال کی تنصیب اور تجربات کی بنا پر حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ کی رفتار سست کی گئی ہے۔ دوسری جانب چند روز قبل وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن شزہ فاطمہ نے یہ کہا تھا کہ نہ تو پاکستان میں انٹرنیٹ بند کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کی رفتار سست کی گئی ہے بلکہ ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) کے زیادہ استعمال کی وجہ سے ایسی صورتحال کا سامنا ہے‘ لیکن آئی ٹی ماہرین اس موقف کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وی پی این کی وجہ سے انٹرنیٹ سروس متاثر ہو تو وہ صرف 10 سے 15 فیصد تک متاثر ہو سکتی ہے‘ لیکن اس وقت انٹرنیٹ سروس کافی زیادہ متاثر ہے جس کا واحد سبب وی پی این کا استعمال نہیں ہو سکتا۔ وزیر مملکت کے بولے گئے سنہرے اقوال کی بازگشت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ چیئرمین پی ٹی اے میدان میں آ گئے۔ انہوں نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اجلاس میں  بتایا کہ پی ٹی اے وفاقی حکومت کے کہنے پر فائر وال لگا رہا ہے جبکہ انہوں نے واضح کیا کہ ملک بھر میں انٹرنیٹ کی سست روی فائر وال کی وجہ سے نہیں بلکہ سب میرین کیبل میں خرابی کی وجہ سے ہے، جسے ٹھیک ہونے میں مزید ایک ہفتہ درکار ہے۔ یاد رہے کہ وہ ایک ہفتے کا پیریڈ گزر چکا ہے۔

دنیا فور جی سے فائیو جی کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے تاکہ عالمی سطح پر کمیونی کیشن کو تیز تر بنایا جا سکے‘ لیکن ہمارے ملک میں معاملہ اس کے بالکل الٹ چل رہا ہے۔ انٹرنیٹ کی جو سپیڈ دستیاب ہے اس کو مزید سست کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کوششیں کون کر رہا ہے لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے ملک میں پچھلے کچھ عرصے سے انٹرنیٹ کے ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور کیا جا رہا ہے۔ ہمارے وزیراعظم ای آفس کی بات کرتے ہیں‘ یعنی سرکاری دفاتر کے معاملات کو انٹرنیٹ  کے ذریعے چلانے کی خواہشمند ہیں، لیکن صورت حال یہ ہے کہ انٹرنیٹ کی رفتار ہی اتنی مناسب نہیں کہ تیز رفتار کمیونی کیشن یقینی بنایا جا سکے۔ اس بے یقینی کی صورت حال کا ہی نتیجہ ہے کہ نہ صرف عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے بلکہ اسے مالی نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

کون نہیں جانتا کہ یہ کمیونی کیشن اور سوشل میڈیا کا دور ہے۔ کمیونی کیشن کے ذرائع پر پابندی لگانے کا مطلب ہے آپ اپنے ملک کے عوام کو باقی دنیا (جو موبائل‘ انٹرنیٹ اور فیس بک وغیرہ کے آنے سے واقعی ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے) سے منقطع کرنا چاہتے ہیں۔ اس حقیقت سے کسی طور انکار ممکن نہیں کہ جہاں انٹرنیٹ کا اچھا استعمال ہوتا ہے وہاں غلط استعمال بھی ہو رہا ہے اور اس غلط استعمال کو روکنے کی اشد ضرورت ہے۔ انٹرنیٹ کو سست کرنا سوشل میڈیا کے غلط استعمال کا حل نہیں ہے۔ اس کے لیے الگ سے قواعد و ضوابط وضع کرنا ہوں گے۔ حکمران اگر واقعی ملک کو ترقی کی نئی منزلوں کی جانب گامزن دیکھنا چاہتے ہیں تو  انہیں انٹرنیٹ کو پابند نہیں کرنا چاہیے‘ آزاد چھوڑنا چاہیے کہ درپیش عالمی چیلنجز سے نبردآزما ہونے کے لیے یہ ضروری ہے۔ 

مزید :

رائے -کالم -