آئی ایم ایف کا زیادہ ٹیکس جمع کرنے کا مشورہ

آئی ایم ایف کا زیادہ ٹیکس جمع کرنے کا مشورہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) نے پاکستان سے کہا ہے کہ معیشت کو استحکام دینے کی غرض سے قلیل المدتی بنیاد پر محاصل بڑھانے کے لئے مزید ٹیکس اقدامات کرے۔ پاکستان میں آئی ایم ایف کی ریذیڈنٹ چیف ٹیریز سابان سانچیز کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ کی طرف سے پیش کئے گئے اصلاحاتی پیکیج کا جائزہ لینے میں مصروف ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اس پیکیج میں ٹیکسز کا ایک سیٹ، انتظامی اور ریگولیٹری اقدامات شامل ہیں جن کا مقصد بگاڑ کو ختم کرکے پرائیویٹ سیکٹر میں سرگرمیوں کو بڑھانا ہے، تاہم قلیل مدت کے لئے مزید ٹیکس اقدامات بھی ہونے چاہیں۔
حکومت نے اپنے عرصہء اقتدار میں دوسری مرتبہ جو منی بجٹ پیش کیا ہے اسے اصلاحاتی پیکیج بھی کہا جائے اور اس میں تجویز کئے گئے بعض اقدامات کی تحسین بھی کی جائے تو بھی رواں مالی سال کے ساتویں مہینے میں حالت یہ ہے کہ ٹیکس ریونیو میں 175ارب روپے کا شارٹ فال موجود ہے۔ نئے منی بجٹ میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی یا بعض سیکٹروں کو جو ریلیف دیئے گئے ہیں ان سے ریونیو میں مزید 8.6ارب روپے کمی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

اگرچہ ایف بی آر نے امید ظاہر کی ہے کہ مالی سال کے آخر میں ٹیکس جمع کرنے کا ہدف حاصل کر لیا جائے گا لیکن یہ بھی ایک مشکل ہدف ہے ایسے میں آئی ایم ایف مزید ٹیکس اقدامات کا مشورہ دے رہا ہے جو اس کے خیال میں قلیل مدت میں کرنا ضروری ہے تاکہ معیشت کو استحکام حاصل ہو سکے۔ اگر حکومت ٹیکس اہداف بڑھانا چاہتی تو اس منی بجٹ میں اقدامات کئے جا سکتے تھے لیکن اگر ایسا نہیں کیا گیا تو بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ اس ہدف کا حصول آسان نظر نہیں آیا ہو گا یا خدشہ تھا کہ عوام نئے ٹیکسوں سے خوش نہ ہوں گے۔

گزشتہ دو مالی سال ایسے گزرے ہیں جب ٹیکس ریونیو کا ہدف کم کرنا پڑا تھا۔ 2017-18ء کے بجٹ میں تو ایسا دوبار کیا گیا پھر بھی کم کیا جانے والا ہدف حاصل نہ ہو سکا۔

اب جوہری تبدیلی تو صرف اتنی آئی ہے کہ حکومتی چہرے بدل گئے ہیں اور سابق حکومت مطعون ہے لیکن ایف بی آر تو وہی ہے اس کے افسر اور اہل کار بھی وہی ہیں، اس ادارے کا ٹیکس جمع کرنے کا چلن بھی تبدیل نہیں ہوا تو اضافے کی امید کیسے لگائی جا سکتی ہے اوراگر آئی ایم ایف یہ مشورہ دے رہا ہے تو اسے کیسے قبولیت بخشی جا سکتی ہے؟
موجودہ حکومت نے خارجہ محاذ پر یہ کامیابی ضرور حاصل کی ہے کہ دوست ملکوں سے امدادی پیکیج مل گئے ہیں، ادھار تیل کے وعدے بھی ہوئے ہیں اور شاید اس پر عمل درآمد کا آغاز بھی ہو چکا، ویسے بھی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں مسلسل گر رہی ہیں جس کی وجہ سے حکومت کو ایک اضافی ریلیف بھی مل رہا ہے لیکن یہ سب عارضی اقدامات ہیں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے جو پیکیج ملے ہیں وہ ایک سال کے لئے ہیں اور ایک سال کے بعد یہ رقوم سودسمیت واپس کرنا ہوں گی۔ ادھار تیل کی سہولت اپنی جگہ ہے اور عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ اٹھا کر ایسے اقدامات کی ضرورت ہے کہ حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوتاکہ دوستوں کے تعاون سے جو عبوری ریلیف ملا ہے اس کے خاتمے کے بعد ملک کے پاس متبادل انتظام موجود ہو، اس لحاظ سے ٹیکس آمدنی بڑھانے کے سلسلے میں آئی ایم ایف کا مشورہ تو بروقت ہے لیکن کیا کوئی اقدامات پیشِ نظر بھی ہیں؟
اسد عمر نے اپنی تقریر اور بعدازاں اپنی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کسی سے ڈکٹیشن نہیں لی جائے گی ان کا اشارہ بھی آئی ایم ایف کی طرف تھا ان کا یہ فرمانا درست ہو سکتا ہے لیکن اگر ڈکٹیشن کے بغیر ہی روپے کی قدر میں اتنی زیادہ کمی کر دی جائے کہ قرضے بیٹھے بٹھائے بڑھ جائیں اور لوگوں کی قوتِ خرید میں تیس فیصد تک کمی ہو جائے تو اسے کوئی بھی نام دے لیں متاثر تو بہرحال وہی لوگ ہوں گے جن کے پاس پہلے ہی محدود وسائل ہیں اور وہ انہیں بڑھانے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے اور ان وسائل کو استعمال کرکے بمشکل جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے مہنگائی کا ایسا طوفان آیا ہوا ہے جو اس سے پہلے کبھی دیکھا نہ سنا ایسے میں اگر حکومت کے کل پُرزے یہ نوید سنائیں گے کہ دو سال میں مہنگائی کم ہو جائے گی تو اس پر اعتبار کرنا خاصا مشکل ہو گا۔

اصولی طور پر تو آئی ایم ایف کی مشورے سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اپنے اندرونی وسائل بڑھانا تو بہت ضروری ہے۔وزیراعظم عمران خان تو یہ دعویٰ بھی کرتے رہے ہیں کہ وہ ٹیکس ریونیو دوگنا، تگنا کر دیں گے اور ہمارے پاس ایسی صلاحیت ہے ۔ غالباً ان کی صلاحیت کو مدنظر رکھ کر ہی آئی ایم ایف ٹیکس بڑھانے کے مشورے دے رہا ہے لیکن حکومت موجودہ مالی سال میں تو ایسا کرتی نظر نہیں آتی دیکھیں آئندہ برس ہمارے لئے کیا لے کر آتا ہے جو صرف پانچ ماہ کے فاصلے پر ہے۔

سابق حکومتیں بھی ٹیکس کی بنیاد وسیع کرنے پر زور دیتی رہی ہیں لیکن ان ادوار میں بھی یہی دیکھا گیا کہ نئے ٹیکس دینے والے تلاش نہیں کئے گئے اس مقصد کے لئے جو بھی کوششیں کی گئیں بالآخر ناکام ہی ثابت ہوئیں یا بہت محدود کامیابی ملی اور ٹیکس انہی لوگوں سے جمع کیا گیا جو پہلے سے اس نیٹ میں موجود ہیں نئے ایونیو تلاش نہیں کئے جا سکے، کہنے کو تو زرعی ٹیکس بھی لگا ہوا ہے لیکن اس مد میں بہت معمولی رقم جمع ہوتی ہے البتہ چند سال سے صوبوں میں ٹیکس جمع کرنے والے جو نئے ادارے قائم ہوئے ہیں اور جو خدمات پر بھی صوبائی ٹیکس وصول کرتے ہیں ان کی کارکردگی بڑی حد تک تسلی بخش ہے۔ اگر ٹیکس بیس وسیع کرنا مقصود ہے تو ان متموّل لوگوں پر ٹیکس لگانا ہوگا جن کے ذرائع آمدن وسیع ہیں اور ان کا طرز زندگی بھی شاہانہ ہے، لیکن وہ اپنی آمدنی کے تناسب سے ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ ٹیکس کی بنیاد وسیع کئے بغیر آمدنی میں اضافہ ممکن نہیں لیکن اصول یہ ہونا چاہئے کہ ٹیکس امرا سے وصول کرکے غربا کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے۔ ’’ٹیکس ٹو جی ڈی پی ‘‘ کی شرح میں کم از کم دوگنا اضافہ کرنا ضروری ہے لیکن یہ ایک مشکل ٹاسک ہے۔ البتہ پہلا قدم تو اٹھایا جانا چاہئے۔

مزید :

رائے -اداریہ -