ریل گاڑیاں لیٹ اور پٹڑی سے اتر رہی ہیں
کراچی سے لاہور کے لئے چلائی جانے والی نئی ایکسپریس ٹرین نو گھنٹے کی تاخیر سے روانہ ہوئی اور مسافر سردی کے موسم میں بچوں سمیت ریلوے سٹیشن پر خوار ہوتے رہے۔ اس سے دو روز قبل فریٹ ٹرین بھی اپنے پہلے ہی چکر میں نہ صرف تاخیر کا شکار ہوئی بلکہ اس کی دو بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں اور کئی گھنٹے تک ریلوے ٹریفک بھی معطل رہی۔ مسافر ایکسپریس ٹرین کے منتظر مسافروں نے ریلوے سٹیشن پر احتجاج بھی کیا اور شکوہ کیا کہ اگر ریلوے پورا انتظام نہیں کر سکتی تو نئی گاڑیاں کیوں چلائی جا رہی ہیں۔وفاقی و زیر ریلوے شیخ رشید بڑے پرجوش اور نئی گاڑیاں شروع کرنے کے علاوہ فریٹ ٹرین بھی شروع کر چکے ہیں، وفاقی وزیر کے مطابق اب تک 21نئی مسافر گاڑیاں چلائی جا چکی ہیں۔ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک سال کے اندر ریلوے کو نقصان سے نکال لیں گے۔ فریٹ ٹرین سے تاجروں کو سہولت ہو گی تو آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا۔ یہ جذبہ قابل تعریف ہے لیکن اب تک کی اطلاعات کے مطابق ٹرینوں کے ڈبے پٹڑی سے اتر جانے اور مسافر گاڑیوں کی روانگی اور آمد میں تاخیر معمول بن چکی ہے، اس کی وجہ سے مسافر بھی پریشان ہوتے ہیں اور نیک نامی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ مسافر گاڑیوں کی بوگیوں کی حالت بھی خراب ہے، جن میں روشنی ہے نہ پانی، کھڑکیوں کے شیشے بھی ٹوٹے ہوئے ہیں اور بیت الخلاؤں کا بُرا حال ہے۔اطلاعات کے مطابق ریلوے کے پاس نئی گاڑیوں کے لئے بوگیاں دستیاب نہیں۔ اور اکثر گاڑیوں کی بوگیاں تبدیل کرکے دوسری گاڑیوں کے ساتھ منسلک کر دی جاتی ہیں، یوں اگر آنے والی ٹرین تاخیر کا شکار ہو تو دوسری روانگی والی از خود متاثر ہو جاتی اور بوگی صاف بھی نہیں ہو پاتی۔ یہ بھی شکایت ہے کہ بوگیاں مرمت کے بغیر چلائی جا رہی ہیں۔پٹڑیوں سے اسی لئے اتر رہی ہیں۔ اس سلسلے میں وفاقی وزیر ریلوے کی باتیں بہت خوش کرنے والی ہوتی ہیں لیکن عملی مشکلات کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہیں۔ کسی تیاری اور انفراسٹرکچر کو مضبوط، تبدیل اور درست کئے بغیر یہ کوشش ایڈونچر ہی کہلا سکتی ہے اور اس سے نیک نامی نہیں مل رہی، بہتر عمل تو یہ ہے کہ پہلے کیرج اور لوکو شاپوں کو پھر سے پہلے والی سطح پر لایا جائے۔ جب نئی بوگیاں بھی یہاں تیار کی جاتی تھیں اور مرمت بھی ہوتی تھیں، اسی طرح ریلوے انجن بھی لوکو شاپس میں مرمت ہوتے تھے، خود وزیر موصوف کا یہ بھی کہنا ہے کہ ریلوے کی طویل پٹڑی زیادہ پرانی ہو چکی اور اسے تبدیل کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ریلوے لائنوں (پٹڑیوں) کا تفصیلی سروے اور معائنہ کرنے کے بعد ابتدائی طور پر جہاں جہاں مرمت کی ضرورت ہے وہ فوری کی جائے اور پھر طویل المیعاد منصوبہ بندی کے تحت ہی تیز رفتار ٹرینوں کا سلسلہ شروع ہو، اسی طرح کسی بھی نئی مسافر گاڑی کے اجراء سے قبل لازم ہے کہ اس کے لئے بوگیوں کا پہلے انتظام کیا جائے۔ یہ سب نہ کرنے ہی کی وجہ سے یہ نقصان ہو رہا ہے اور مسافر پریشان ہوتے ہیں۔ اس لئے سب سے پہلے جو کچھ موجود ہے اسے بہتر بنایا جائے اوقات کار معمول پر لائے جائیں اور اس کے بعد ہی کوئی نئی گاڑی شروع کی جائے، تاکہ عوام پریشانی اور ریلوے نقصان سے بچ جائے۔ اس طرح نقصان بھی ختم ہو سکے گا، اس کے لئے ساکھ بہتر بنانا بھی ضروری ہے۔