عثمان بزدار پر مُرشد مہربان ہے

ماضی میں کسی وزیراعظم نے اپنے کسی وزیراعلیٰ کو اتنی تھپکی نہیں دی، جتنی وزیراعظم عمران خان وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو دے رہے ہیں۔ جو لوگ یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ عثمان بزدار آج گئے یا کل گئے، انہیں عمران خان کی ایسی باتوں سے بڑی مایوسی ہوتی ہے۔
وہ اپنی مہم مزید تیز کر دیتے ہیں، لیکن عمران خان نے بھی تہیہ کر رکھا ہے کہ عثمان بزدار کو ہلنے نہیں دینا ،چاہے خود تحریک انصاف کی حکومت ہی کیوں نہ ہل جائے۔ کچھ لوگ حیران ہیں کہ آخر عثمان بزدار میں عمران خان نے کیا دیکھا ہے کہ ان کے بارے میں کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ ان سے کوئی پرانی یاد وابستہ تو ہو نہیں سکتی کہ عمروں میں بہت فرق ہے۔
پھر عثمان بزدار تو شاید کپتان سے ایک دوبار ہی وزارتِ اعلیٰ ملنے سے پہلے ملے ہوں، تو یہ ازل و ابد کا یارانہ کیسے قائم ہو گیا؟ نمل یونیورسٹی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے پھر واشگاف الفاظ میں عثمان بزدار کی تعریف کی۔ ان پر تنقیدکرنے والے شہبازشریف کو بھی نشانہ بنایا۔ یہ ایسا ہی ہے ؟ جیسے کوئی اپنے محبوب کے بارے میں کوئی بات ہی نہ سنے۔
انہوں نے عثمان بزدار کی جو صفات گنوائیں ان میں یہ صفت بھی شامل تھی کہ وہ خزانے کی حفاظت کریں گے،اسے لوٹیں گے نہیں۔پھر یہ بھی کہا کہ میرٹ پر چلیں گے، اپنے عزیزوں دوستوں کو نہیں نوازیں گے۔ ان سے یہ تعریف سنتے ہوئے عثمان بزدار کے چہرے پر خوشی و آسودگی کے تاثرات نمایاں تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے گورنر پنجاب چودھری محمد سرور بھی تالیاں بجا رہے تھے، پتہ نہیں ان کے دل پر کپتان کی ان باتوں کا اثر بھی خوش کن تھا یا افسردہ کرنے والا؟
جب بھی کپتان اپنے مین کھلاڑی عثمان بزدار کی تعریف کرتے ہیں، میری سوئی اس سوال میں اٹک جاتی ہے کہ آخر عمران خان اس کی ضرورت کیوں محسوس کرتے ہیں؟ یہ پیغام وہ کسے دے رہے ہوتے ہیں۔ کیا وہ اپوزیشن کے لئے یہ سب کچھ کہتے ہیں، تاکہ وہ عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب مان لے یا ان کے مخاطب تحریک انصاف اور اس کے اتحادی ہوتے ہیں۔
میرا خیال ہے اپوزیشن کے لئے عثمان بزدار کوئی مسئلہ نہیں ہیں۔ عثمان بزدار کی جگہ کوئی دوسرا ہو، اس سے اپوزیشن کو کوئی فرق نہیں پڑتا، بلکہ عثمان بزدار کے ہونے سے مسلم لیگ (ن) کو یہ فائدہ ہے کہ کمزور وزیراعلیٰ کی وجہ سے پنجاب میں حکومت کا وہ رعب داب قائم نہیں ہونے پا رہا ہے جو شہبازشریف کا تھا۔ اس طرح بالواسطہ طور پر پنجاب میں شہبازشریف کو لوگ یاد کرتے ہیں۔ پھر اپوزیشن نے کبھی یہ مطالبہ بھی نہیں کیا کہ عثمان بزدار کو ہٹا کر کوئی تگڑا وزیراعلیٰ لایا جائے۔ البتہ خود تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کے لئے عثمان بزدار کی موجودگی ایک مسئلہ ضرور ہے۔
یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ تحریک انصاف میں ایسی کئی شخصیات موجود ہیں جو عثمان بزدار کی جگہ خودکو اس تخت لاہور پرمتمکن دیکھنا چاہتی تھیں۔ پھر کچھ ایسے بھی ہیں جو بڑے مناصب لینے کے باوجود عثمان بزدار کو ہضم نہیں کر پا رہے۔ وہ پنجاب کے اختیارات میں شیئرنگ چاہتے ہیں۔ چودھری محمد سرور ، چودھری پرویز الٰہی اور عبدالعلیم خان کے نام تو عموماً لئے جاتے ہیں۔ عمران خان بجائے انہیں ایک ایک کرکے اپنا یہ پیغام دیں، کسی بھی تقریب میں عثمان بزدار کی تعریف کرکے انہیں بالواسطہ طور پر باور کرا دیتے ہیں کہ عثمان بزدار کا کلہ مضبوط ہے۔
اب ان کی اس حکمتِ عملی کو آپ کیسے ناکام کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے نمل یونیورسٹی کی تقریب میں گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کو عثمان بزدار کے ساتھ بٹھا کر وزیراعلیٰ کی تعریف کی اور گورنر پنجاب نے تائید میں تالیاں بھی بجائیں۔یہ سب کے لئے ایک واضح اشارہ ہے کہ جس نے تحریک انصاف میں رہنا ہے ،اسے عثمان بزدار کے حق میں تالیاں پیٹنی ہوں گی۔
جوبات اپوزیشن سمجھ گئی ہے، وہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کو سمجھ نہیں آ رہی۔ مثلاً اپوزیشن کا سب سے بڑا اعتراض ہی یہ ہے کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو ریموٹ کنٹرول کے ذریعے وزیراعظم ہاؤس سے چلایا جا رہا ہے۔
اب اپوزیشن نے تو یہ عثمان بزدار کی خامی بیان کی ہے کہ وہ ہر معاملے میں وزیراعظم عمران خان سے اجازت لیتے ہیں، مگر یہ تو عثمان بزدار کی وہ تعریف ہے، جسے عمران خان یقیناًبہت پسند کرتے ہیں۔ عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنانے کے پسِ پردہ یہی خوبی تو کار فرما تھی، جسے وزیراعظم عمران خان نے بہت پسند کیا۔ اس بارے میں کس کو شک ہے کہ وفاقی حکومت کی کامیابی کا دار ومدار پنجاب حکومت پر ہوتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر گرفت اس لئے مضبوط رہی کہ اس کے پاس وفاقی و پنجاب حکومتیں ہمیشہ رہیں۔ پیپلزپارٹی پنجاب کے بغیر اقتدار میں آئی اور اپنا اثر نہ چھوڑ سکی، حتیٰ کہ وہ صوبہ پنجاب ہی سے محروم ہو گئی۔
ذرا سوچئے کہ آج اگر پنجاب میں شہبازشریف یا حمزہ شہباز وزیراعلیٰ ہوتے تو کیاعمران خان اتنی آسانی کے ساتھ حکومت کر سکتے۔ کیا وہ جو ایجنڈا نافذکرنا چاہتے ہیں، اس پر اس آسانی کے ساتھ عمل پیرا ہوتے، جس طرح اب ہیں۔ اب اس حقیقت کو اگر مان لیا جائے تو یہ بات بھی ماننا پڑے گی کہ وزیراعظم عمران خان کو وزارتِ اعلیٰ پنجاب کے لئے ایک ایسے ہمراز کی ضرورت تھی جو ان کا سایہ بن کر تختِ لاہور پر بیٹھا رہے۔ یہ خوبی کسی منجھے ہوئے سیاستدان میں ہرگز نہیں پائی جاتی، اس کے لئے ایک نئے چہرے کی ضرورت تھی، جو عثمان بزدار کی شکل میں دریافت کیا گیا۔ ایک لمحے کو یہ بھی سوچئے کہ اگر شاہ محمود قریشی صوبائی اسمبلی کا انتخاب نہ ہارتے اور وزیراعلیٰ پنجاب بننے پر بضد رہتے تو کتنا کڑا وقت آنا تھا؟ اس سے بھی زیادہ کڑا وقت وہ ہوتا جب صوبے میں شاہ محمود قریشی اور مرکز میں عمران خان حکمران ہوتے۔
تب یہ بھید کھلتا کہ شاہ محمود قریشی کس طرح پنجاب میں من مانی کرتے اور عمران خان کے احکامات کو خاطر میں نہ لاتے۔ شاہ محمود قریشی کے دل میں آج بھی وزیراعلیٰ پنجاب بننے کے ارمان مچل رہے ہیں۔ حال ہی میں جب ملک مظہر عباس کی وفات سے صوبائی حلقہ 218 کی نشست خالی ہوئی تو ایک منصوبہ بندی کے تحت شاہ محمود قریشی کے حامیوں نے یہ افواہ اڑا دی کہ وہ ضمنی انتخاب میں حصہ لیں گے اور بعدازاں وزارت اعلیٰ انہیں دی جائے گی، مگر غالباً اس آئیڈیے کو کپتان نے بُری طرح مسترد کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ محمود قریشی باقاعدہ اعلان کرنے پر مجبور ہو گئے کہ وہ 218کے ضمنی انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے۔
صاف لگ رہا ہے کہ عمران خان پنجاب میں عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنوا کر بہت مطمئن ہیں۔ پنجاب اب ان کے مکمل اور براہ راست کنٹرول میں ہے۔ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ پنجاب عثمان بزدار کی قیادت میں بہت ترقی کرے گا، یہاں ایسے ہسپتال قائم ہوں گے کہ عوام کو علاج کے لئے بیرون ملک نہیں جانا پڑے گا۔ اعلیٰ تعلیم کے مواقع میں اضافہ ہوگا تو واضح مطلب یہی ہوتا ہے کہ عمران خان عثمان بزدار کے ذریعے خود ان سب باتوں کو عملی جامہ پہنائیں گے۔
جو لوگ یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ جلد ہی عمران خان اپنے فیصلے کو تبدیل کرتے ہوئے عثمان بزدار کووزارتِ اعلیٰ سے سبکدوش کر دیں گے، وہ اس نکتے کو بھول جاتے ہیں کہ آخر کپتان نے عثمان بزدار کا انتخاب کیوں کیا تھا؟کیا عثمان بزدار نے اس کپتان کی وہ امیدیں پوری نہیں کیں، جو ان سے وابستہ کی گئی تھیں۔ وہ امیدیں تو سو فیصد پوری ہوئی ہیں۔
عثمان بزدار نے ایک مودب کھلاڑی کے طور پر اپنے کپتان کا ہر حکم مانا ہے۔یہ کام کتنی دیانتداری سے کیاہے، اس کا اندازہ اپوزیشن کے اس الزام سے لگایا جا سکتا ہے کہ عثمان بزدار ہر کام کے لئے اسلام آباد کی طرف دیکھتے ہیں، پنجاب کو انہوں نے مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ اپوزیشن جسے خامی بنا کر پیش کر رہی ہے، درحقیقت عمران خان کی نظر میں یہی تو عثمان بزدار کی خوبی ہے۔
عمران خان نے پنجاب کو اپنے ہاتھ میں رکھ کر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پنجاب میں طاقت کے کئی مراکز بن گئے ہیں اور ایک سے زیادہ وزیراعلیٰ کام کر رہے ہیں، وہ اس سارے معاملے میں عمران خان کے کردار کو بھول جاتے ہیں۔ پنجاب میں زبانی حکم چاہے جو بھی دیتا رہے، قانونی و آئینی حکم تو وزیراعلیٰ کا ہی چلتا ہے۔
وزیراعلیٰ کا حکم اس ضابطے میں رہ کر جاری ہوتا ہے جو کپتان نے طے کر رکھا ہے۔ سو اب جو بھی عثمان بزدار کو کمزور وزیراعلیٰ سمجھتا ہے، وہ آج کی سیاسی سائنس سے ناواقف ہے۔ عثمان بزدار ایک بہت مضبوط وزیراعلیٰ ہیں ، کیونکہ انہوں نے بھی مرشد کی انگلی کو بڑی مضبوط سے پکڑا ہوا ہے۔ مرشد خوش ہیں تو کسی دوسرے کی ناراضی عثمان بزدار کاکیا بگاڑ سکتی ہے۔ خاص طور پر جب مرشد کی اپنی گدی بھی مضبوط ہو۔