بھمبر (آزادکشمیر) کی گروہی سیاست

بھمبر (آزادکشمیر) کی گروہی سیاست
بھمبر (آزادکشمیر) کی گروہی سیاست

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ خاکسار تھوڑے عرصے سے بھمبر کی سیاست کو قریب سے دیکھ رہا ہے اور عوام کی خدمت اور سماجی مسائل کے حل کی تگ و دو میں شریک ہے۔ مسائل کی اصل جڑ بوسیدہ نظام اور موروثی سیاست ہے۔ ہمارے گلی محلوں اور محفلوں میں یہ ورد کثرت سے کیا جاتا ہے کہ عوام جاہل ہیں اور ہر بندہ مفاد پرست ہے اسی لئے یہ حالات ہیں۔مَیں اس بات کی نفی کرتا ہوں۔

میرے نزدیک ہمارے عوام جاہل ہیں نہ اس سے زیادہ مفاد پرست جتنا قدرتی طور پر انسان اپنی ذات کا سوچ سکتا ہے۔ بات ہے ماحول کی، معروضی حالات کی اور علاقائی سیاسی کرداروں کی۔ اقوام کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی جائے تو بات صاف ہو جاتی ہے۔ تمام بگڑی ہوئی قوموں کی تربیت اور ان کو راہِ راست پر لانے کا کردار خود اعلیٰ کردار اور صلاحیتوں کے حامل رہنماوں نے ادا کیا ہے۔
ضلع بھمبر بالعموم اور تحصیل بھمبر یا حلقہ ایل اے 7 بالخصوص موروثی اور دھڑوں کی سیاست کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے اور اب تو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ایک دوسرے کی مخالفت اور نیچا دکھانے میں تمام اخلاقی قدروں کو پامال کیا جاتا ہے۔

کوئی انصاف ہے نہ حق سچ کی بات۔ ان حالات میں عوام کی اکثریت بھی برائیوں میں گر چکی ہے۔ ہر کسی کے خیال میں یہی بات گھر کر چکی ہے کہ یہاں حالات ٹھیک ہونے کا امکان یا تو سرے سے ہے ہی نہیں یا بہت محدود ہے، لہٰذا جہاں سے اپنی ذات کو فائدہ پہنچے جائز یا ناجائز حاصل کر لیا جائے۔ اس طرح ہمارے لوگوں کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹ کر وقتی فوائد اور مفادات پر جم چکی ہے۔
ماضئ قریب میں تحصیل بھمبر کے سیاسی اور سماجی حالات کے بگاڑ کے موجب ہمارے دو دھڑے اور ان دھڑوں کے سرخیل ہیں، کیونکہ فریقین اپنی ناجائز جائیدادوں پر تو آپس میں معاہدے کر لیتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے خلاف کچھ نہیں کریں گے، لیکن بات جب عوام الناس کے مسائل اور مصائب کی آتی ہے تو تمام اخلاقی قدروں کو پامال کرتے ہوئے انصاف کے گلے پر اُلٹی چھری چلانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

مَیں صرف نظام کو درست کرنے کی بات کرتا ہوں، لیکن اب اس بات کا یقین کر لینے کے بعد کہ ہمارے علاقے کی خرابیوں کی جڑ بھی یہی مفاد پرست قیادت ہے اور ان حالات کے سدھار کی ذمہ داری بھی انہی پر عائد ہوتی ہے مجبور ہو کر براہِ راست ان دھڑوں اور ان کی قیادت کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

میرا یہ دعویٰ ہے کہ اگر ان دو متحارب گروہوں کے سربراہان مل بیٹھ کر ایک ضابطہ اخلاق بنا لیں اور اپنی مداخلت ختم کر کے اداروں کو میرٹ پر کام کرنے دیں، تو حالات ٹھیک ہو سکتے ہیں اور عوام کو ریلیف بھی مل سکتا ہے، لیکن ان کے لئے مشکل یہ ہے کہ ایسا کرنے کے بعد ان کو بھی اپنی صلاحیتوں اور اہلیت کو ثابت کرنے کے لئے محنت کرنا پڑے گی اور اپنے لئے حلال روزی کا بھی بندوبست کرنا پڑے گا،جو شاید ان کے لئے مشکل ہو جائے۔ میری چونکہ دلچسپی صرف عوام کو ریلیف دلانے اور نظام کو درست کرنے میں ہے تو میں ان دونوں حضرات کو صائب مشورہ دے رہا ہوں کہ اپنی انرجی غلط طریقے سے ضائع کرنے کی بجائے آپس میں بیٹھ کر اللہ کو حاضر ناظر جان کر کوئی ضابطہ اخلاق ترتیب دیں اور لوگوں کو اپنی غلامی سے آزادی دیں۔

اسی میں آپ کی اپنی بقا ہے اور عوام کے دکھوں کے مداوے کی صورت بھی۔ دوسری صورت میں پھر عوام کو سوچنا ہے۔ کہ وہ کب تک ان دھڑوں کی اور دو خاندانوں کی غلامی کا طوق اپنی گردنوں میں لٹکائے پھریں گے اور وہی طوق اپنی اگلی نسلوں کو دے کر ریلے ریس میں داخل کرتے رہیں گے۔ اگر یہ لیڈران اپنی سوچ بدلنے سے معذور ہیں تو عوام کو ان کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونا چاہئے۔
ان دھڑوں کے علاوہ دوسرا بڑا مسلہ جو ہمارے ضلع کو درپیش ہے۔ (یہ مسئلہ بھی پورے ملک کو درپیش ہے) مگر ہمارے ہاں اس کی شدت کچھ زیادہ ہی ہے اور وہ ہے برادری ازم کا۔ ویسے تو اب نئی نسل اس سے نجات حاصل کرنے کی سعی کر رہی ہے۔ اور اس کی آب و تاب میں کچھ کمی بھی ہوئی ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ابھی تک ہم نکل نہیں پا رہے ہیں۔ اس برادری ازم کی سیاست نے بھی ہمیں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے اور اس کے پیچھے بھی مفاد پرست قیادتوں کا ہاتھ ہے۔

حقیقی قیادت جو ہوتی ہے وہ ایسی برائیوں کا قلع قمع کرتی ہے اور عوام میں محبت و بھائی چارے کا بیج بوتی ہے، لیکن اہلیت اور صلاحیت سے عاری لوگ اپنی نااہلی کو چھپانے کے لئے اپنے لوگوں کی توجہ برادری ازم جیسی برائیوں کی طرف مبذول کرواتے ہیں اور اس عمل سے اپنے مفادات حاصل کیے جاتے ہیں۔

برادری کی سیاست اور برادری ازم ایک وسیع موضوع ہے اس پر اپنے اگلے کسی کالم میں لکھوں گا، لیکن میں تمام عوام کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے اندر قومی سوچ پیدا کریں اور سب ایک قوم بن کر اپنے وطن کی خوشحالی کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

مزید :

رائے -کالم -