ہم تو کھیلوں میں بھی نا اہل ٹھہرے۔۔۔۔۔

       ہم تو کھیلوں میں بھی نا اہل ٹھہرے۔۔۔۔۔
       ہم تو کھیلوں میں بھی نا اہل ٹھہرے۔۔۔۔۔

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 دنیا کے قدیم ترین اور موجودہ تاریخ کے سب سے بڑے کھیلوں کے میلے ”اولمپکس“ کا دنیا کے انتہائی خوبصورت شہر پیرس میں گزشتہ ہفتے آغاز ہو گیا۔  776قبل مسیح میں شروع ہونے والے اولمپکس جدید دور میں آج اس مقام پر آ پہنچے ہیں کہ اس وقت 206ممالک کے 10500ایتھلیٹ پیرس میں جمع ہیں اور ان کے درمیان  32کھیلوں کے 329ایونٹس کے لئے مقابلہ ہوگا۔ جدید اولمپک کا اغاز 1896ء میں ایتھنز  یونان سے ہوا اور ان مقابلوں میں خواتین کو کھیلنے کا حق نہیں دیا گیا، لیکن آج 128سال کے بعد مرد اور خواتین کھلاڑیوں کی تعداد برابر ہے، یعنی اس بار”مردانگی“کا زور نہیں چلا۔ مقابلوں میں حصہ لینے والے 54 ممالک کا تعلق افریقہ،48 کا تعلق یورپ، 44کا تعلق ایشیا، 41ا تعلق امریکہ، 17کا اوشیانہ اور ایک ٹیم دنیا بھر میں بکھرے ہوئے مہاجرین کی نمائندگی کر رہی ہے، لیکن بدقسمتی کا مقام یہ ہے کہ ان کھیلوں میں جہاں امریکہ کے 592فرانس کے 572آسٹریلیا کے 460 چین کے 405ہمارے ازلی مخالف دشمن ملک بھارت کے 117کھلاڑی حصہ لے رہے ہیں وہاں آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پانچویں بڑے ملک، واحد اسلامی ایٹمی طاقت یعنی پاکستان کا دستہ 18افراد پر مشتمل ہے جس میں کھلاڑی صرف سات ہیں۔ کھلاڑیوں کے مطابق ان برے حالات کی ذمہ دار ہمارے ملک کی ”انتظامی اشرافیہ“ہے۔ کھیلوں کی انتظامیہ بھی برابر کی ذمہ دار ہے، اس سے برا کیا ہوگا کہ ہم ان کھلاڑیوں کو جو ”تمغے“کے حقدار ہو سکتے ہیں وہاں بھیج ہی نہیں رہے۔ پاکستان 1947ء میں آزاد ہوا اور 1948ء کے اولمپکس میں پاکستان نے 39کھلاڑیوں کو بھیجا۔ 1952ء اولمپکس میں یہ تعداد 44ہو گئی۔1956ء اولمپکس میں 62، 1960ء اولمپکس میں 49، 1964ء اولمپکس میں 41ہو گئی، جس کے بعد یہ تعداد کم ہوتی گئی اور 2016ء اولمپکس میں صرف سات کھلاڑی اولمپکس میں شرکت کے لئے بھیجے گئے۔ یہ تعداد آج بھی برقرار ہے۔ 1952ء اولمپکس میں ہم نے 16ایتھلیٹ اور چار باکسر بھیجے۔ 1956ء اولمپکس میں 19ایتھلیٹ اور چھ باکسر  بھیجے گئے۔ 1960ء اولمپکس میں 12ایتھلیٹ اور چار باکسر بھیجے گئے۔ یہ الگ الگ بات ہے کہ 76سالہ تاریخ میں ہم صرف 10تمغے حاصل کر سکے ہیں۔ ان 10تمغوں میں ہاکی کے 8تمغے شامل ہیں جن میں سونے کے تین  چاندی کے 3اور کانسی کے 2 ہیں۔  انفرادی مقابلوں میں صرف دو تمغے ہمارے حصے میں آئے۔ ایک تمغہ 1960ء اولمپکس میں محمد بشیر پہلوان اور دوسرا باکسر حسین شاہ نے 1988ء اولمپکس میں پاکستان کو دلوایا۔1988ء کے بعد ہم نے صرف ایک تمغہ حاصل کیا اور وہ ہے 1992ء میں ہاکی میں کانسی کا تمغہ، جس کے بعد 32 سال میں کوئی تمغہ بھی ہمارے حصے میں نہیں آیا۔ ہاکی کے وہ میدان جہاں کبھی ہم راج کیا کرتے تھے گزشتہ تین اولمپکس میں، یعنی 2016ء 2020ء اور 2024ء میں ہم ہاکی کے ایونٹ میں شرکت ہی نہیں کر سکے۔ ہماری ہاکی ٹیم اس معیار پر پورا نہیں اتری کہ اولمپکس کھیلنے جا سکے۔

پاکستان کے جو سات کھلاڑی پیرس اولمپکس میں حصہ لے رہے ہیں اس میں ہماری سب سے زیادہ امیدیں ارشد ندیم سے وابستہ ہیں ارشد ندیم جیولن تھرو، یعنی نیزہ پھینکتے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ ٹوکیو اولمپکس میں بھی حصہ لیا تھا جہاں وہ پانچویں نمبر پر رہے تھے۔ ارشد ندیم نے 2022ء میں کامن ویلتھ گیمز میں 90.18 میٹر کا نیزہ پھینکا اور گولڈ میڈل جیتا تھا، جس کے بعد 2023ء میں ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں چاندی کا تمغہ جیتا اس دفعہ پاکستان کی ساری امیدیں ارشد ندیم سے وابستہ ہیں اور امید ہے کہ وہ پاکستان کو جیولن تھرو میں فتح کے چبوترے پر یقینا پہنچائیں گے ان کا مقابلہ بھارت کے نیرج چوپڑا سے ہے جو اِس وقت دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں جبکہ ارشد ندیم رینکنگ میں پانچویں نمبر پر ہیں، دُکھ ہوا کہ شوٹنگ کے مقابلے میں ہم ناکام ہو گئے ہیں 

 پاکستان میں عوام کو سب سے بڑا دکھ ہاکی کے کھیل میں تنزلی ہے۔ وہ تنزلی کہ جس کی وجہ سے آج پاکستان ہاکی میں دنیا میں کہیں دور دور تک نظر نہیں اتا۔ ورلڈ رینکنگ میں پاکستان آج 14ویں نمبر پر ہے اس حوالے سے سابق اولمپین  اور آخری گولڈ میڈل جیتنے والی ٹیم کے کھلاڑی اولمپین توقیر ڈار کا کہنا ہے کہ آج ٹیم کی حالت دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ توقیر ڈار کا تعلق اس فیملی سے ہے، جس میں ایک نہیں تین اولمپین ہیں ان کے والد منیر ڈار  اور چچا تنویر ڈار بھی  اولمپین تھے اور گولڈ میڈل جیتنے والوں میں شامل ہیں۔ توقیر ڈار کہتے ہیں کہ قومی کھیل ہاکی کی تباہی سرکاری اداروں کی سرپرستی ختم ہونے کی وجہ سے ہوئی،  توقیر ڈار کہتے ہیں کہ آج ہا کی 25ہزار روپے کی ہے اور ہاکی کی کٹ تین لاکھ کی ہے۔پاکستانی والدین یہ خرچہ برداشت نہیں کر سکتے۔آج ضرورت ہے کہ ہاکی کے کھلاڑیوں کو نوکریاں دی جائیں۔اگر ایسا نہیں ہوا تو 2028ء اولمپکس میں بھی پاکستان کی واپسی نہیں ہو گی۔ پاکستان میں ایسے کھلاڑی بھی ہیں کہ جن کی حکومت سرپرستی کرتی تو تمغے جیت سکتے تھے۔ایسے ہی ایک کھلاڑی گوجرانوالہ کے پہلوان انعام بٹ ہیں،جو اس دفعہ کوالیفائی نہیں کر سکے، کیونکہ انہیں حکومت نے کسی بھی مقابلے میں شرکت کے لئے نہیں بھجوایا۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کوئی ریسلنگ اکیڈمی نہیں ہے۔ پہلوانوں کے پاس کھیلنے کے لئے میٹ تک نہیں ہے۔ ویٹ لفٹر نوح دستگیر بٹ بھی ان بدقسمت کھلاڑیوں میں ہیں،جو سرپرستی نہ ملنے کی وجہ سے اس اولمپکس میں شرکت نہیں کر سکے۔ نوح دستگیر بٹ نے کامن ویلتھ گیمز میں گولڈ میڈل لیا تھا اور انہوں نے جس پر سبقت لی تھی وہ کھلاڑی اولمپکس میں نیوزی لینڈ کی طرف سے حصہ لے رہا ہے، مگر نوح دستگیر بٹ کو موقع نہیں دیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک میرٹ پر سلیکشن نہیں ہوگی ہمارے ہاں کچھ نہیں بدلے گا وہ کہتے ہیں کہ کہ انہیں ان گیمز میں نہیں بھیجا گیا جہاں حصہ لے کے وہ اولمپکس کے لئے کوالیفائی کر سکتے تھے۔اس حوالے سے جہاں بھی ہاتھ ڈالو کھلاڑی روتے نظر آتے ہیں ان کا کہنا ہے پاکستان میں کھیلوں کی دو دو فیڈریشنیں بنی ہوئی ہیں اولمپک ایسوسی ایشن اور فیڈریشنوں کے درمیان جھگڑے ختم ہونے میں نہیں آتے۔ دراصل یہ طاقت کی لڑائی، پیسوں کا کھیل ہے۔ سیر سپاٹوں کی گیم ہے۔ کھلاڑیوں کی اور ملک کی کسی کو پرواہ نہیں۔ خدا جانے ملکی وسائل کھانے والی اشرافیہ کب اس ملک کا بھی کچھ سوچے گی۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -