حکیم اﷲ محسود صاحب کے نام ایک کھلا خط

حکیم اﷲ محسود صاحب کے نام ایک کھلا خط
حکیم اﷲ محسود صاحب کے نام ایک کھلا خط

  

محترم حکیم اﷲ محسود صاحب!

جناب کی خیریت نیک مطلوب ہے۔ ہماری طرف یہ چیزخیریتجتنی ہمیں سوٹ کرتی ہے، موجود ہے چنانچہ مقام ِ شکر ہے۔دیگر احوال یہ ہے کہ کچھ کوتاہ نظر حاسدان گاہے بگاہے فوجی آپریشن کا شور مچاتے رہتے ہیں آپ بندہ کہستانی ہیں، چنانچہ ان کی ژرف نگاہی سے کبیدہ خاطر ہوکر خود کش حملہ آور نہ داغ دیا کریں یہ شور وغوغا محض لہو گرم رکھنے کا ایک بہانہ ہی ہوتا ہے۔ پھر ویسے بھی ہمارا آپ سے جھگڑ ا ہی کیا ہے؟ اعتماد سازی کو مزید یقینی بنانے کے لئے ہم نے آپ کے زیر ِنگین علاقوں، جہاں عزیزم طالبان کا پُر شکوہ سفید پرچم پہاڑوںکی سیاہ چوٹیوں پر لہراتا ہے، کی طرف کبھی میلی نظر سے بھی نہیں دیکھا۔ہم سفید و سیاہ کے امتزاج ،اس ملجگے افق، سے جنم لینے والے مضمرات کو جانتے ہوئے بھی دل میلا نہیں کرتے۔ آپ سے درخواست ہے کہ کبھی جنگی تیاریوں یا خود کش جتھوںکی اعلیٰ تربیت کے نیک کام سے فراغت ملے تو ہمارے ہاں ہر آن برسنے والی بریکنگ نیوز پر بھی نظر رکھا کریں کہ ہم اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے(موخر الذکر محض محاورةً ہے)”پر امن بقائے باہمی“ کا ورد کرتے رہتے ہیں۔ اگر مشکل اردو طبع نازک پر گراں گزرے ،نو اس کا مطلب ”جیو او ر جینے دو “ہے، ہم صلح جو لوگ ہیں، جنگ نہیں چاہتے اور پھرآپ سے صلح کے فوائد پرگہرا غور وغوص کرنے کے ہمیں عالمی تنہائی کی ضرورت ہے(جو مل رہی ہے)۔ ہمارے یہ نیاز مندانہ اقدامات آپ کے علم میں ہیں تو پھر آپ ہمیں نشانہ کیوں بنائے ہوئے ہیں....” اپنوںسے مگر چاہیے یوں کھنچ کہ نہ رہنا“....ہماری طرف سے اپنائیت کا اس سے بڑا مظاہر ہ اور کیا ہو گا کہ جو علاقہ آپ کے ذاتی تصرف میں ہے ، وہاں جاتے ہوئے ہماری سوچ کے بھی پر جلتے ہیں، آپ پر ہونے والے ڈرون حملوں کی وجہ سے ہم امریکیوںسے نفرت کرتے ہیں۔ اس سے بڑی ”وفاداری بشرط ِ استواری “ کی کوئی اور مثال ہو سکتی ہے؟

لشکر ِ جھنگوی والے( جو آپ کی کارروائیوںمیں شراکت دار ہیں)کوئٹہ میں معصوم شہریوں کو خون میں نہلا دیتے ہیںیا گلگت بلتستان کے دو ر افتادہ مقام پر نانگا پربت کے سرد سائے میں غیر ملکیوں کو گولیوںسے بھون دیا جاتا ہے ، خیبر پختونخوا میں ہر روز حملے ہوتے ہیں، اگلے دن کراچی میں ہائی کورٹ کے ایک جج صاحب کو نشانہ بنایا جاتا ہے یا ملک میں کہیں بھی خود کش حملہ آوور بال بیرنگ اور لوہے کے ٹکروںکی بوچھاڑ شہریوں کے جسموں میں داخل کر دیتے ہیں، لیکن محترم! کیا آپ نے کبھی ہماری جبین شکن آلود دیکھی؟یا خدا نہ کرے، ہم نے آپ یا آپ کے زیر ِ کمان جہادی لشکروںکو، جو عقیدے کی سربلندی کی خاطر جہاد کررہے ہیں، مورد ِ الزام ٹھہرایا؟ آپ جانتے ہیںکہ مستقل مزاجی ہمارے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ہمارا ورد”یہ سب مسائل ڈرون حملوںکی وجہ سے ہیں“ صبح و شام جاری ہے۔ ہماری دوستانہ غیر جانبداری کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہو گا؟لیکن آپ پھر بھی ہم سے خفا رہتے ہیں۔ کیا آپ کو عمران خان سے بڑا کوئی حامی مل سکتا ہے؟جتنی ہمدردی خان صاحب کو آپ سے ہے، اگر شمار ہو سکے تو صحارا کی کل ریت چٹکی بجاتے میں گن لی جائے!اس کے باوجود گزشتہ دنوں اُن کے دو ایم پی اے خیبر پختونخوا میں ہلاک کر دیئے گئے۔ یہ طرز ِ عمل نامناسب ہے۔ آپ ، جیسا کہ آپ کا نام ظاہر کرتا ہے، امیر ہونے کے ساتھ ساتھ ”حکمت “بھی جانتے ہیں اور فارسی بھی۔ ہو سکتاہے کہ آپ نے حافظ شیرازی کا وہ شعر سنا ہو جس میں اُنھوںنے فرمایا ہے”بادوستاں مروت“، شعر کی اگلی ترکیب دشمنوںکے بارے میں ہے ،لیکن اُن سے نمٹنے کی ترکیب آپ حافظ صاحب سے بہتر جانتے ہیں۔

فی الحال پنجاب سے صرف ِ نظر کرنے اور دیگرصوبوں میں کارروائیاں کرنے کی آپ کی حکمت ِ عملی عمدہ طریقے سے کام دے رہی ہے ،کیونکہ اس طرح جسم کے باقی اعضا برید کر لئے جائے گے تو پھر دل، جو پنجاب ہے، خالی ہاتھ آپ کے رحم و کرم پر ہوگا۔ یقینا ملک کے ایک حصے کو تحفظ کا جھوٹا احساس دلا کر دوسرے حصوں کو نشانہ بنانا اعلیٰ جنگی حکمت ِ عملی ہے۔ آپ کی رسائی اب کراچی ، جہاں سہراب گوٹھ تقریباً وزستان بنا ہی چاہتا ہے، تک بھی ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ صورت ِ حال آپ کے حق میں جارہی ہے۔ اگلے سال امریکی بھی افغانستان سے بوریا بستر سمیٹ کرروانہ ہورہے ہوں گے تو طالبان، جن کو نیٹو کی مہیب اور عقربی فوجی قوت خائف نہیں کر سکی، چند دستوں کی علامتی موجودگی کو کیا خاطر میں لائیںگے؟

ذرا پاکستان میں ہونے والی مثبت (اپنے لئے ) تبدیلیوں پر نظر ڈالیں ، یہاں پشاور اور اسلام آباد میں طالبان دوست حکومتیں قائم ہو چکی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہم دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے واویلا کرتے رہیں ، لیکن خاطر جمع رکھیں ، کھل کر آپ یا طالبان کا نام نہیں لیںگے۔ ایک جہاں گواہ ہے کہ گول مول مذمتی بیان جاری کرنے کے ماہر ہو چکے ہیں۔ جب بھی کوئی خود کش حملہ ہوتا ہے، عمران خان کا بیان ہوتا ہے کہ یہ سب ڈرون حملوں کا نتیجہ ہے، جبکہ نواز شریف کہتے ہیں”ہمیں طالبان سے مذاکرات کرنے چاہئیں“....اس سے زیادہ” پانچوں گھی میں، سرکڑاہی میں “ والی صورت ِ حال کا تصور بھی محال ہے، چنانچہ آپ کو اور کیا چاہیے۔

ہم یہ توقع نہیں کرتے کہ ملک میں ہر طرف امن کی فاختاہیں چہچہانا شروع کردیں، لیکن امن نہ سہی، تباہی میں تو مساوات نظر آئے ۔ جب شہباز شریف نے تاریخی بیان دیا تھا ”طالبان اور پی ایم ایل (ن)کے نظریات (عقیدے کے اعتبار سے) ایک ہیں ، اس لئے پنجاب کو نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے“....اس کے بعد ، تقریباً تین سال سے پنجاب محفوظ ہے۔ حالیہ انتخابات میں پی ایم ایل (ن) کی پنجاب میں بھاری کامیابی میں اس بات کا بھی اہم کردار ہے۔ اگر پشاور کی طرح لاہور بھی خود کش حملوں کی زد میںہوتا تو ہو سکتا ہے کہ پھر انتخابی نتائج بہت مختلف ہوتے۔ بہرحال، جو بھی ہو، اب جبکہ تمام حالات آپ کے حق میں ہیں اور پاکستانی ریاست بھی مشکل فیصلے کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی تو ہم پاکستان کے شہری بھی آپ سے امن کے لئے درخواست گزار ہیں۔

ہم امن کے لئے بہت سے اقدامات کے ماہر ہیں ، جن میں تیر بہدف ”کل جماعتی کانفرس “بلانا ہے۔ اس کے بعد کچھ کرنے کی ضرور ت ہی نہیں رہتی، چنانچہ کئی سال سے ہم یہی کام کررہے ہیں کہ جب بھی بے نام خوف و خدشات ہمیں گھیر لیں، ہم بے ریش و باریش گفتار کے غازیوں کی کانفرنس بلا کر دھواں دھار تقاریر کر لیتے ہیں۔ اس کارروائی کے بعد سکون ہو جاتا ہے(حکومت کو، عوام کو نہیں)۔ ہم نے بہت سے بھاری بھرکم جملے ٹکسال کئے ہوئے ہیں”تما م اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لیا جائے، یاہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا“....خدا بھلا کرے ہمارے تقریر نویسوں کا، اب تو معاملہ ختم ہی سمجھو....”جب امریکہ طالبان سے بات کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں “؟یہ بات ان کی سمجھ میں کب آئے گی کہ امریکہ طالبان سے اپنے انخلا کے لئے مذاکرات کررہا ہے۔ کیا ہم بھی کسی انخلا کی پوزیشن میں ہیں؟ کیا ان کے اذہان ِ رسا پاکستانی اور امریکی صورت ِ حال کو ایک ہی سمجھتے ہیں ؟

چنانچہ اے عقربی امیر!دل میں ذرہ برا بر بھی خدشہ نہ لانا کہ ہم آپ سے ہتھیار ڈالنے کی زحمت کا کہیں گے، کیونکہ ہم اتنے بھی بے وقوف نہیں ، گرچہ ”لوگ کہتے ہیں کہ ہے ، پر ہمیں منظور نہیں“ کہ ہم آپ سے وہ شرط طے کربیٹھیں ،جسے منوانے کے لئے ہمارے پاس طاقت ہی نہ ہو۔ پھر آپ کی ارفع تحریک کی تاریخ بھی اس امر کی گواہی دیتی ہے کہ آپ ان گھٹیا دنیاوی معاہدوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے ، چنانچہ بات کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہی ہے۔ آپ کے عزائم تو واضح ہیں آپ کے علاقوں میں دخل اندازی نہ کی جائے، اور امن کی خاطر ہم اس بات کے لئے بخوشی تیار ہیں۔ پاکستانی اشرافیہ طبقہ پہلے ہی اپنے اثاثے بیرونِ ملک منتقل کر چکا ہے ،جبکہ باتونی گروہ ملک کو درپیش مسائل (التباساتی مسائل ) پر اسی طرح بحث کررہا ہے کہ تمام ملک ہلاکو خان کے حملے سے پہلے بغداد میں خلیفہ کے دربار، جہاں ہمہ وقت مناظرے جاری رہتے تھے، کا منظر پیش کر رہا ہے۔

ہمیں تاریخ کا باریک بینی سے جائزہ لینا چاہیے: 1917ءکے انقلاب سے پہلے روس کی حالت ، ہٹلر کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے جرمنی ، دوسری جنگ ِ عظیم سے پہلے فرانس میں شکست خودرگی کااحساس اگر ہمیں کچھ نہیں سکھا سکتے تو کیا مارچ1971ءمیں فوجی مداخلت سے پہلے ڈھاکہ کے حالات بھی ہماری نظر سے اوجھل ہیں؟ جو باتیں دوسرے لوگ نہایت آسانی سے سمجھ لیتے ہیں، وہ ہمارے لئے معمہ کیوں ہیں؟تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ بحرانوں اور جنگوں میں ممالک اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور مسائل کا چیلنج قبول کرتے ہیں۔ ان حالات میں وسائل کی کمی بے معنی ہوجاتی ہے، تاہم اس کے عزم وہمت کے سیل ِ رواں کی ضرورت ہے۔

اس وقت پاکستان کہاں کھڑا ہے؟درودیوار پر ہولناک نقش ابھررہے ہیں، آسمان سے لرزہ خیز گھن گرج کانوں کو بہرہ کررہی ہے اور مغربی افق لہو رنگ ہے، لیکن ہم شتر مرغ ”سب ٹھیک ہے “ کی ریت میں سر دیئے ہوئے ہیں۔ اب ان باتوں کی گہرائی میں جانے کا وقت نہیں کہ طالبان کس نے بنائے یا ہمارے ہاں ہونے والی دہشت گردی کے لئے امریکہ کس حد تک ذمہ دار ہے ؟ جب آپ کنوئیںمیں گر چکے ہوں تو وہاںسے نکلنا ترجیح ہوتی ہے نہ کہ یہ سوچ بچار کرنا کہ یہ کنواں کس نے کھودا تھا، کیوں کھودا تھا یا کس ”ہتھیار “ سے کھودا تھا؟ یہ سب فضول باتیں ہیں۔ اس وقت ہم کنوئیں میں گر چکے ہیں اور جو چیلنج ہمارے سامنے ہے، اس میں ہماری مدد کے لئے کوئی نہیں آئے گا۔ اس وقت ہم ہیں اور ہماری بقا کا سوال ہے! اس لئے ہمیں آہنی یک سوئی چاہیے ، جو فی الحال نہیںہے۔

چنانچہ امیر صاحب، ہماری منتشر ترجیحات پر آپ کو خوشی ہوگی کہ آپ تو اپنے مقصد میں یک سو ہیں، لیکن ہم کبھی پرویز مشرف کے گرم تعاقب میں ہیں تو کبھی آرٹیکل چھ کے اطلاق کا سوچ رہے ہیں۔ ہمارے ہر قدم پر ماضی کا سایہ بھوت بن کر موجود ہوتا ہے اور ہم اس سے نمٹنے کا منتر پڑھنے لگتے ہیں، جبکہ حقیقی خطرہ ہمارے سامنے منہ پھاڑے کھڑا ہوتا ہے۔ بہرحال اس خط کے ذریعے آپ سے رجوع کرنے کا مطلب عر ض ِاحوال کے سوا کچھ نہیں ،کیونکہ آپ ہمیں مشورہ نہیں دیںگے کہ ہم اپنے حقیقی مسائل کی نشاندہی ، جو قطعاً مشکل نہیں ہے ، کریں اور ان کے حل کے لئے مثبت اقدامات اٹھائیں۔ ہم جتنے کنفیوژ ہوں گے ، آ پ کا کام اتناہی آسان ہوگا۔ اس سرزمین پر آپ کے بہی خواہ عمران خان، چودھری نثار اور انواع و اقسام کے مولاناہمیں باور کراتے رہتے ہیںکہ ایک مرتبہ جب امریکی یہاںسے چلے گئے تو آپ کی طرف سے لاحق خطرہ ٹل جائے گا۔ محترم امیر! کیا یہ لوگ آ پ کی حقیقی ترجمانی کرتے ہیں ؟ براہ کرم جوابی خط سے اس مصیبت زدہ قوم کو احوال ِ واقعی سے آگاہی فرمائیں۔    

والسلام       

ایک پاکستانی         

مصنف، معروف کالم نگار اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔

نوٹ ! اس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں ری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے۔  ٭

مزید :

کالم -