"استقبال رمضان و اعمال رمضان سیرت طیبہؐ کی روشنی میں "

قرآن مجید اور احادیث نبوی ؐمیں رمضان المبارک کی بہت زیادہ فضیلت و عظمت بیان کی گئی ہے تاکہ مسلمان اس کے ثمرات و برکات سے محروم نہ رہ جائیں
1-روزہ کا لغوی اور اصطلاحی معنٰی۔
روزہ کو عربی زبان میں صوم کہتے ہیں ، صوم کا لغوی معنی امساک یعنی "رکنے" کے ہیں اور شرعی اصطلاح میں صبح صادق سے لیکر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور عمل مباشرت سے رک جانے کا نام روزہ ہے۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : رمضان رمض سے ماخوذ ہے اور یہ ایک بارش ہے جو کہ موسم خریف میں برستی ہے تو اس مہینہ کا نام رمضان اس سبب سے ہوا کہ وہ ایمانداروں کے جسموں کو گناہوں سے دھو ڈالتا ہے اور ان کے دلوں کو گناہوں کی آلودگیوں سے پاک و صاف کردیتا ہے۔
روزہ فرض محکم و فرض عین ہے اور دین کا ایک بڑا رکن ہے
2- روزہ کی شرائط تین قسم کی ہیں۔
الف۔روزہ کے وجوب ہونے کی شرطیں چار ہیں۔
1- مسلمان ہونا، 2- عاقل ہونا۔ 3- بالغ ہونا۔ 4- دارالسلام میں ہونا یا جو شخص دالحرب میں مسلمان ہوا ہو اسکو رمضان کے روزے کی فرضیت کا علم ہونا۔
ب-روزہ کے ادا کی واجب ہونے کی شرطیں دو ہیں۔
1- صحت مند ہونا۔ 2- مقیم ہونا۔
ج-روزہ کے ادا کی صحیح ہونے کی دو شرطیں ہیں ۔
1- نیت ۔ 2- حیض و نفاس سے پاک ہونا۔
3-استقبال رمضان میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ !
حضور صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے فضائل اور اس کی خصوصیات کے بیان کا اہتمام فرماتے تھے۔چنانچہ حضرت سلمان فارسیؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے عمومی طور پر ایک تقریر فرمائی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ! اے لوگوں! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے۔ اس مبارک مہینہ کی ایک رات (شب قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہِ خداوندی میں کھڑا ہونے(یعنی ترایح پڑھنے) کو نفل عبادت مقرر کیا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیرِ فرض عبادت ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانے کے فرضوں کے برابر اس کا اجر و ثواب ملے گا اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا اجر و ثواب دوسرے زمانے کے 70 فرضوں کے برابر ہوگا۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور غمخواری کا مہینہ ہے اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو(اللہ کی رضا اور اجرو ثواب حاصل کرنے کے لیے) افطار کرایا تو یہ عمل اس کے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کو روزہ دار کے برابر اجر و ثواب دیا جائے گا بغیر اس کے کہ روزہ دار کے اجر و ثواب میں کوئی کمی کی جائے ۔ آپؐ سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہؐ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا (تو کیا غرباء اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ : اللہ تعالیٰ یہ اجر و ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسّی پر یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دارکا روزہ افطار کرادے ۔اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلا دے اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض(یعنی حوض کوثر) سے ایسا سیراب فرمائینگے جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی حتی کہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا۔اس کے بعد آپؐ نے ارشاد فرمایا : اس ماہ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ہے اور درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آتش دوزخ سے آزادی ہے۔اور جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کردے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادینگے اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی عطا فرمائینگے۔
4- روزہ داروں کیلئے پانچ مخصوص انعام۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک نقل کیا ہے کہ میری امت کو رمضان المبارک کے بارے میں پانچ چیزیں مخصوص طور پر دی گئی ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں ملی ہیں (1)روزہ دار کے منہ کی (روزہ کی وجہ سے) بو اللہ کے نزدیک مشک وعنبر سے زیادہ پسندیدہ ہے (2)روزہ دار کیلئے دریا کی مچھلیاں تک دعا کرتی ہیں اور افطار کے وقت تک کرتی رہتی ہیں (3)جنت ہر روز (روزہ دار)کیلئے آراستہ کی جاتی ہے پھر حق تعالیٰ جل شانہ‘ فرماتے ہیں کہ قریب ہے کہ میرے نیک بندے (دنیا کی) مشقتیں پھینک کر تیری طرف آئیں (4) اس میں سرکش شیاطین قید کر دیئے جاتے ہیں کہ وہ رمضان المبارک میں روزہ دار کو ان برائیوں کی طرف نہیں لا سکتے جن کی طرف غیر رمضان میں لا سکتے ہیں (5) رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کیلئے مغفرت کی جاتی ہے صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ کیا شبِ مغفرت، شب قدر ہے؟ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا نہیں بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دے دی جاتی ہے۔
5-سحری کرنے میں برکت ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت نازل فرماتے ہیں، حضرت عبد اللہ بن حارثؓ نقل کرتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اس وقت آپؐ سحری نوش فرما رہے تھے، آپ ؐ نے فرمایا کہ یہ ایک برکت کی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم کو عطاء فرمائی ہے اس کو مت چھوڑنا…
6- روزہ چھوڑنے پر وعید ۔
۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص بغیر کسی شرعی عذر کے ایک دن بھی رمضان کا روزہ چھوڑ دے تو رمضان کے علاوہ وہ پوری زندگی بھی روزے رکھے وہ اس کا بدل نہیں ہو سکتے،
7- روزہ غیبت اور رزق حرام سے روکتا ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ ان کو روزہ کے بدلہ میں سوائے بھوکا پیاسا رہنے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ ان کو رات کے جاگنے (کی مشقت) کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا … یعنی اس کی غیبت و چغلی کے ذریعہ اور حرام مال کے ساتھ اس کو افطار کر کے اس کے ثواب سے محروم ہو گیا
8- تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی۔
حضور نبی کریم ﷺکا ارشادِ مبارک ہیکہ
تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی۔ ایک روزہ دار کی افطار کے وقت، دوسرے عادل بادشاہ کی دعا اور تیسرے مظلوم کی دعا۔ جس کو حق تعالیٰ شانہ بادلوں سے اوپر اٹھا لیتے ہیں اور آسمان کے دروازے اس کے لئے کھول دیئے جاتے ہیں اور ارشاد ہوتا ہے کہ میں تیری ضرور مدد کروں گا۔
9- روزہ داروں کیلئے جنت کا مخصوص دروازہ ۔
حضرت سہیل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺنے ارشاد فرمایا کہ:
’’ جنت کے دروازوں میں ایک خاص دروازہ ہے جس کو باب الریان کہا جاتا ہے، اس دروازے سے قیامت کے دن صرف روزہ داروں کا داخلہ ہو گا، ان کے سوا کوئی اس دروازے سے داخل نہیں ہو سکے گا، اس دن پکارا جائے گا کہ کدھر ہیں وہ بندے جو اللہ کے لئے روزہ رکھا کرتے تھے، اور بھوک پیاس کی تکلیف اٹھایا کرتے تھے وہ اس پکار پر چل پڑیں گے، ان کے سوا کسی اور کا اس دروازے سے داخلہ نہیں ہو سکے گا، جب روزہ دار اس دروازے سے جنت میں پہنچ جائیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا، پھر کسی کا اس سے داخلہ نہیں ہو سکے گا۔‘‘
10- " روزہ اور قرآن کی شفاعت ۔
روزہ اور قرآن (قیامت کے روز) بندے کے حق میں شفاعت کریں گے۔ روزہ عرض کرے گا، اے ربّ! میں نے اس شخص کو دن میں کھانے پینے اور خواہشاتِ نفس سے روکے رکھا‘ تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما! اور قرآن یہ کہے گا کہ اے پروردگار! میں نے اسے رات کے وقت سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا‘ لہٰذا اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما! چناں چہ (روزہ اور قرآن) دونوں کی شفاعت بندے کے حق میں قبول کی جائے گی اور اس کے لیے جنّت اور مغفرت کا فیصلہ فرما دیا جائے گا۔‘‘
ماہِ صیام میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولاتِ عبادت و ریاضت اور مجاہدہ میں عام دنوں کی نسبت بہت اضافہ ہو جاتا۔ اس ماہِ مبارک کی خشیت اور محبت اپنے عروج پر ہوتی۔ اور اسی شوق اور محبت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم راتوں کا قیام بھی بڑھا دیتے۔رمضان المبارک میں درج ذیل معمولات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا حصہ ہوتے۔
1۔ کثرتِ عبادت و ریاضت!
اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے :
’’جب ماہ رمضان شروع ہوتا تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ مبارک متغیر ہو جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نمازوں میں اضافہ ہوجاتا، اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کرتے اور اس کا خوف طاری رکھتے۔‘‘ (بيهقی، شعب الايمان)
2۔ سحری و افطاری!
رمضان المبارک میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے روزے کا آغاز سحری کھانے اور اختتام جلد افطاری سے فرمایا کرتے تھے۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سحری کھانے کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔‘‘
ایک اور مقام پر حضرت ابو قیس رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہما سے روایت کیا ہیکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں میں سحری کھانے کا فرق ہے۔‘‘(مسلم شریف)
3۔ قیام اللیل و تلاوت قرآن۔
رمضان المبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راتیں تواتر و کثرت کے ساتھ نماز میں کھڑے رہنے، قرآن مجید کی تلاوت ،تسبیح و تہلیل اور ذکر الٰہی میں محویت سے عبارت ہیں۔ نماز کی اجتماعی صورت جو ہمیں تراویح میں دکھائی دیتی ہے اسی معمول کا حصہ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک میں قیام کرنے کی فضیلت کے بارے میں فرمایا :
’’جس نے ایمان و احتساب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور راتوں کو قیام کیا وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جس دن وہ بطن مادر سے پیدا ہوتے وقت (گناہوں سے) پاک تھا۔‘‘(نسائی شریف)
4۔ کثرت صدقات و خیرات!
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ صدقات و خیرات کثرت کے ساتھ کیا کرتے اور سخاوت کا یہ عالم تھا کہ کبھی کوئی سوالی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے در سے خالی واپس نہ جاتا رمضان المبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت اور صدقات و خیرات میں کثرت سال کے باقی گیارہ مہینوں کی نسبت اور زیادہ بڑھ جاتی۔ اس ماہِ مبارکہ میں صدقہ و خیرات میں اتنی کثرت ہو جاتی کہ ہوا کے تیز جھونکے بھی اس کا مقابلہ نہ کر سکتے۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے :
’’جب حضرت جبریل امین آجاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھلائی کرنے میں تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے۔‘‘
حضرت جبریل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغامِ محبت لے کر آتے تھے۔ رمضان المبارک میں چونکہ وہ عام دنوں کی نسبت کثرت سے آتے تھے اس لئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے آنے کی خوشی میں صدقہ و خیرات بھی کثرت سے کرتے۔ (بخاری شریف)
5۔ اعتکاف
رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اعتکاف کرنے کا معمولِ مبارک تھا۔ ام المومنین عفیفہِ کائنات حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہیکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے آخری دس دن اعتکاف کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وصال فرما گئے ۔اسی طرح ایک دوسری روایت جو کہ حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان المبارک میں دس دن اعتکاف فرماتے تھے اور جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصالِ مبارک ہوا، اس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس دن اعتکاف فرمایا ۔(بخاری شریف)
قارئین کرام ! ہمیں اللہ تعالی نے اس ماہِ مبارکہ میں اپنے لئے اپنے عزیز واقارب کیلئے اور وطن عزیز پاکستان کیلئے پورے عالم اسلام کیلئے دعائیں مانگنی ہیں کہ اللہ تعالی ہم سب کو ایمان صحت تندرستی سلامتی وعافیت عطا فرمائیں ۔ آمین یا رب العلمین۔
.
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔