سیاسی توازن اور گڈ گورننس (بارواں حصہ)
یہ ووس کا ٹاون ہیڈکوارٹر ہے۔ آج ناروے کا قومی دن ہے۔ چند لوگ ٹاون ہیڈکوارٹر کے باہر ٹاون کے مئیر کی تقریر سن رہے ہیں۔ ہم بھی ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوگیے ہیں۔ مقامی زبان اور ڈائیالیکٹ میں تقریر ہورہی ہے۔ مئیر صاحب کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت نام ہے نظام حکومت کا جہاں سیاسی طاقت لوگوں کے بھلے کے لیے استعمال کی جاے۔ آزادی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے استعمال کی جاے۔ یہ بہت چھوٹا سا جلسہ ہے۔ مسیج بہت بڑا ہے۔
ایسے تو ناروے بحراوقیانوس کے کنارے واقع ہے۔اور قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ لیکن اس جگہ جہاں ناروے کا دوسرا بڑا شہر آباد ہے۔ اس شہر والوں کا دعویٰ ہے کہ یہ شہر اپنے محل و وقوع اور خوبصورتی کے لحاظ سے دنیا کا خوبصورت ترین شہر ہے۔باوجود اس بات کہ میں دنیا کے خوبصورت ترین خطے سے تعلق رکھتا ہوں۔ اس شہر کی خوبصورتی کا اسیر سا ہوگا ہوں۔گھروں کا نوے فیصد سٹرکچر لکڑی کا بنا ہوا ہے۔ طوفانی سمندر کی ہوائیں سرد ہیں۔ دیر تک جکڑ بھی چلتے ہیں۔جو بات مختلف ہے وہ یہ کہ یہ لوگ اپنے پاوں پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ چھ سات ماہ کا خوفناک موسم سرما اور اندھیرا انکے لیے پیس آف کیک ہوتا ہے۔
ٰ ہمارے دوست ہمیں بتانے لگے کہ گھبرائیے گا نہیں۔ یہ ٹنل پچیس کلومیٹر لمبی ہے۔ ہاں جی پچیس کلومیٹر۔ ناروے کا ٹنل ٹیکنالوجی میں بڑا نام ہے۔ ہمارے دوست اس ملک کی نیشنل آئل کمپنی میں ہائی ٹیک پروفیشنل جاب کرتے ہیں۔میں سوچنے لگا دور وطن عزیز میں میرا آبائی گھر ٹاون ہیڈکوارٹر سے بتیس کلومیٹر دور ہے۔ اگر پہاڑی کے نیچے سے ٹنل کھودی جاے تو یہ فاصلہ دس سے پندرہ کلومیٹر سے زیادہ نہیں ہے۔ یوں گاڑی کے ذریعے دو تین منٹ کا فاصلہ ہے۔ لیکن یہ دنیا ترقی یافتہ ترین ہے اور میرا وطن عزیز تیسری دنیا کا پسماندہ اور غریب ترین ملک۔ میں ایک دکان میں گھسا ہوں اس دکان کا نام میک ہے۔ میں نے کاونٹر پر موجود سفید فام شخص سے پوچھا۔ یہ دکان غیر ملکی ہے یا نارویجن ہے۔ کہنے لگا نارویجن ہے۔میں نے کہا اس طرح کی دکان میں نے اوسلو میں نہیں دیکھی۔ بولا وہاں نہیں ہے۔ یہ دوسرا صوبہ اور دوسرا شہر ہے۔
ذرا دیکھیں تو اس میں کیا کچھ ملتا ہے؟ بہت دلچسپ اوزار ہیں۔ چونکہ سمندر بڑی جھیل کی شکل میں اندر تک آیا ہوا ہے۔ چنانچہ مچھلی پکڑنے اور مقامی موسم اور آب و ہوا کے مطابق زندگی گزرانے سے متعلق بہت دلچسپ اوزار اور روز مرہ کی اشیاء دستیاب ہیں۔ میں نے پوچھا اس سارے سامان میں سے کون سی اشیاء ناروے خود بناتا ہے اور کون سی اشیاء باہر سے درآمد کی جاتی ہیں۔ کاوئنٹر پر موجودسفید فام شخص کہنے لگا یہ سب کچھ ناروے خود بناتا ہے۔
ووس ناروے کی ایک مشہور ٹورسٹ سپاٹ ہے۔خوبصورتی میں ناروے میں پہلے نمبر پر ہے یا دوسرے نمبر پر۔ بریتھ ٹیکنگ بیوٹی ہے۔ حد نگاہ تک بے شمار ٹورسٹ ہٹس ہیں۔ ایک بہت بڑی جھیل نما پہاڑوں کے درمیان۔ہمارے دوست کہنے لگے اس خوبصورتی پر تبصرہ کریں۔ میں نے عرض کی کہ جس خطے سے میرا تعلق ہے وہ دنیا کا خوبصورت ترین خطہ ہے۔آئیے اس جگہ کا موازنہ وادیء کشمیر سے کرتے ہیں۔ پیر پنجال کے پہاڑی سلسلے اور ہمالیا کے پہاڑوں کے درمیان چوراسی میل لمبی اور بیس میل چوڑی وادی کشمیر ہے۔ ووس کا موسم چھ ماہ تک تاریک اور شدید سرد رہتا ہے۔ وادیء کشمیر میں پورے سال کے دوران دن کے وقت کوئی تاریکی نہیں ہوتی۔ دو ماہ تک موسم سرد ہوتا ہے۔ اگر پاک و ہند کی تقسیم کے بعد بھارت سلامتی کونسل سے جنگ بندی نہ کرواتا تو ہمارے لوگ سری نگر پہنچ رہے تھے۔ وادی کشمیر پاکستان کا حصہ ہوتی۔ اور صرف وادی کے ٹورزم سے وطن عزیز کا قرضہ چکایا جا سکتا تھا۔ نہ وہ وقت رہا اور نہ وہ موقع۔ہاں ہم سوچتے ہیں یہ ہوجاتا تو یوں ہوتا۔ کاش ہمارے ملک کا یہ حال نہ ہوتا۔اور ہاں میرے خطے کا ٹورزم پوٹنشل کسی بھی طرح سویٹزرلینڈ اور ناروے سے کم نہیں ہے۔اور کاش عوام ایسے لوگوں کو پہچانیں اور سامنے لائیں جو بگ پکچر کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور دعا کریں کہ مخالفین کی منفی تنقید اور تعصبات انکی اس صلاحیت پر حاوی نہ ہوسکیں۔
ہمارے دوست مزاقاً کہہ رہے تھے کہ اگر انگریز برصغیر میں نہ جاتے تو برصغیر افریقہ جیسا ہوتا۔ جوں جوں وطن عزیز کی معشیت پگھل رہی ہے۔ ان لوگوں کی عزت اور مقام ہمارے دل و دماغ میں بڑھ رہا ہے۔ ناکامی کا جواز کوئی سننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ ناکامی کی ذمہ داری قبول کرنا پڑتی ہے۔ سوسائٹی کی معاشی ایڈ جسٹمنٹ بے رحم حقیقت ہے۔جسے اب وقوع پذیر ہونا ہے۔ اب کہ دباوء ہے غریب طبقے پر کہ وہ اس سیارے کو غیر باد کہہ دے۔ متوسط طبقے پر دباوء ہے کہ وہ غربت کو تسلیم کرلے۔ کارپوریشن پر تنگ دستی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ یہ ہونا تھا۔ نظر آرہا تھا۔
ہم نے اپنے ایک جاننے والے سے پوچھا عوام کی کتنی پرسنٹیج دیوالیہ ہونے کا مفہوم جانتی ہے؟ بولے پتہ نہیں لیکن جب ملک کے پاس پیسے ختم ہوجائیں گے تو دیوالیہ ہونے کا یہی مطلب نہیں ہے کیا؟ہم نے عرض کی صاحب پیسے چھاپنے کی مشین ہمارے پاس ہے۔ کاغذ بھی ہے۔ جتنے مرضی نوٹ چھاپیں۔اصل میں ہمیں ایک ترقی یافتہ ملک میں چند برس گزارنے کے بعد دیوالیہ ہونے کی اصطلاح اچھی طرح سمجھ آئی تھی۔ ان صاحب سے کیسا شکوہ؟ جس کسی کے پاس پیسیے روپے نہیں ہیں۔ بینک اکاونٹ نہیں ہے۔ جاب نہیں ہے۔ اگر موصوف کو کہیں کہ آپ دیوالیہ ہیں۔ کیا پتہ لڑ ہی پڑے۔ عزت غیرت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔
حوصلہ ہے عوام کا۔ روپے پر قائد کی خوبصورت تصویر ہے۔ اس تصویر کو نیچے جاتے ہوے عوام برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔ آئیے ہم اپنی گورننس اور جمہوری پراسیس کا موازنہ کرنا شروع کردیں۔ چند ممالک کا انتخاب کرلیں کہ کن سے کرنا ہے؟ اب ایسا نہ کہیں کہ کسی ملک سے موازنہ نہیں کرنا۔
اللہ ہمارا حامی اور ناصر ہو۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔