ڈی چوک اور پیرنی

  ڈی چوک اور پیرنی
  ڈی چوک اور پیرنی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پانچ دن حکومت اور اپوزیشن کی کشمکش کی وجہ سے پورا ملک نقصان میں ڈوبا رہا، سڑکیں،کاروبار، بازار اور مزدوری تک بند رہی۔ایک اندازے کے مطابق ملک کو ایک ہزار ارب کا نقصان ہوا۔سٹاک مارکیٹ جو اوپر ہی اوپر جا رہی تھی منگل کی شام اچانک چار ہزار پوائنٹ نیچے گر پڑی۔متعدد سرکاری ملازمین اور مظاہرین جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ حکومت اور اپوزیشن اپنی اپنی ضد پر اڑی رہیں۔ حکومت نے مذاکرات کئے نہ ہی ان کاکوئی مطالبہ تسلیم کیا۔اپوزیشن اس چیز کو اپنی بڑی کامیابی سمجھتی رہی کہ وہ ڈی چوک تک پہنچ گئے ہیں لیکن پھر ڈی چوک میں جیسی سختی آئی اسے مظاہرین بالکل بھی نہ جھیل سکے، افراتفری پھیل گئی اور سب کچھ تتر بتر ہو گیا۔ ایک محاورہ ہے کہ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔

یہ بات بہت ضروری ہے کہ مظاہرین میں شامل افراد کا جائزہ لیا جائے، قافلے میں کے پی کے کے ارکان اسمبلی موجود نہیں تھے۔پنجاب کے ارکان اسمبلی بھی جیسے پوری صورت حال سے لاتعلق رہے، پارٹی کا چیئرمین اور جنرل سیکرٹری بھی کہیں چھپے رہے، صرف کے پی کے کارکن تھے جنہیں اس خوفناک لڑائی میں جھونک دیا گیا۔ ان میں مبینہ طور پر بعض کی جانیں گئیں، سینکڑوں پر مقدمے اور سینکڑوں ہی گرفتار ہوئے۔ اب وہ مقدمے بھگتیں گے، جیلوں میں سڑیں گے اور لیڈر سوشل میڈیا  پر بیان بازی کریں گے۔ کوئی بھی ایسا احتجاج جس میں لیڈر ہی موجود نہ ہوں نتیجہ خیز کیسے ہو سکتا ہے۔

اب تھوڑا پاکستان میں احتجاج کی سیاست میں عورتوں کے کردار کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔ بھٹو کی گرفتاری پر نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو نے احتجاجی مظاہروں کی قیادت کی، بینظیر بھٹو ایک جلسے میں دھماکے میں بال بال بچیں لیکن چند روز بعد ایک جلسے کے بعد شہید کر دی گئیں۔نواز شریف گرفتار ہوئے تو بیگم کلثوم نواز نے بڑے بڑے مظاہروں کی قیادت کی، موقع آیا تو مریم نواز بھی کارکنوں کو لے کر سڑکوں پرآ گئیں۔ اپوزیشن کے حالیہ مظاہرے کا جائزہ لیں تو بشریٰ بی بی کا کردار ہی تھا جس کی وجہ سے مظاہرین ڈی چوک تک پہنچ گئے۔ لگتا یوں ہے کہ اگر بشریٰ بی بی مظاہرے کی قیادت نہ کر رہی ہوتیں تو شاید مظاہرین اٹک پل پر ہی تتر بتر ہو جاتے۔ بشریٰ بی بی کوئی نتیجہ تو حاصل نہ کر سکیں لیکن انہوں نے اپنے آپ کو ایک لیڈر کے طور پر تسلیم کرا لیا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن کا اگلا مرحلہ کیا ہو گا۔اگر انہوں نے پھر احتجاج کی کال دی تو چاہے اس کا بھی نتیجہ کچھ نہ نکلے لیکن سڑکیں اور کاروبار دوبارہ بند ہو سکتے ہیں جس سے ملک کی ڈوبتی معیشت کو ایک اور بڑا دھچکا لگ سکتا ہے جس کا ملک شاید اِس وقت متحمل نہیں ہو سکتا۔ قارئین آپ جانتے ہیں کہ جب ہزاروں لوگ سڑکوں پر آ جائیں تو وہ ایک بے قابو ہجوم بن جاتے ہیں پھر اس میں ملک دشمن شرپسند عناصر بھی شامل ہو جاتے ہیں جن کا مقصد ہی حالات خراب کرنا ہوتا ہے ایسے ہی شرپسند عناصر نے تشدد کا راستہ اختیارکر کے حکومت کو انتہائی اقدام پر مجبور کر دیا۔ پچھلے پانچ دن کی صورت حال نے یہ بات ضرور سمجھا دی ہے کہ راستے بند کر کے نقصان بہت زیادہ ہوتا ہے اور پورا ملک بند کرنے کا جو مقصد اپوزیشن لے کر باہر نکلتی ہے وہ خود حکومت پورا کر دیتی ہے جس کا پورا دباؤ بھی حکومت کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔اسی دباؤ کا نتیجہ تھاکہ ملکی سلامتی کے اداروں کو بھی سیاسی لڑائی میں جھونک دیا گیا اور انہیں حکم ملا کہ شر پسندوں کو دیکھتے ہی گولی مار دی جائے۔جب صورت حال اتنی بگڑ گئی تھی تو حکومت کو چاہئے تھا کہ مذاکرات کا راستہ نکالتی۔کہتے ہیں دنیا کی بڑی سے بڑی لڑائی کا نتیجہ مذاکرات کی میز پر ہی نکلتا ہے۔

منگل کی رات جو کچھ ہوا وہ نہیں ہونا چاہئے تھا حکومت خود بھی جانتی ہے کہ تمام مسائل کا حل صرف بات چیت سے ہی نکل سکتا ہے تو پھر اسے بھی عوام کو مزید اشتعال دِلانے والے کام نہیں کرنا چاہئیں۔حکومت کو وہ لوگ بھی تلاش کرنا چاہئیں جو ملکی سلامتی کے در پے ہیں اور دونوں طرف غلط کام کرنے کے مشورے دیتے ہیں اگر حکومت مظاہرے اور دھرنے کی جگہ بدلنے کا کہہ رہی تھی تو اپوزیشن بھی نرم رویہ اختیار کر لیتی،ریڈ زون سے دور رہتی اور آرام سے دھرنا دیتی اور مذاکرات کا دروازہ کھولتی، کیونکہ کوئی بھی حل مذاکرات سے ہی نکل سکتا ہے، ریاست سے لڑا نہیں جا سکتا جو ریاست سے لڑائی جیسی صورت حال پیدا کرتے ہیں وہ سب کے لئے مسائل پیدا کرتے ہیں۔

آخری بات یہ کہ قومی سلامتی کے ادارے کبھی یہ پسند نہیں کرتے کہ وہ سیاسی مسائل میں دخل دیں لیکن اگر ریاست انہیں بلائے تو پھر انہیں دخل دینا پڑتا ہے۔ خدارا قومی سلامتی کے اداروں کو مجبوری میں بھی عوام کے سامنے نہ لائیں۔اپوزیشن سے بات چیت کر کے صورتحال کو کنٹرول کریں اپوزیشن بھی اسلام آباد پر چڑھائی کے ارادے ترک کر دے احتجاج کرنا ہے تو اپنے اپنے علاقوں میں دھرنے دے کر کر لیں۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -