سیاسی توازن اور گڈ گورننس (دسواں حصہ ) 

 سیاسی توازن اور گڈ گورننس (دسواں حصہ ) 
 سیاسی توازن اور گڈ گورننس (دسواں حصہ ) 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایک دلچسپ بات آپ سے عرض کروں کہ طالبان کی پہلی پریس کانفرانس دنیا بھر میں لائیو دکھائی گئی۔ اگلے دن میں واک کے لیے ایک جگہ سے گزرا جہاں یہاں ناروے کے مقامی طلباء یعنی لڑکیاں اور لڑکے بلند آواز میں میوزک آن کیے ہوئے پارٹی اور غل غپاڑہ کررہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی تقریباً سب نے جن کی تعداد 20/30 سے اوپر ہوئی ہوگی، سلام کیا ، میوزک کی آواز آہستہ کردی اور غور سے مجھے دیکھا کہ مجھے انکی پارٹی پر  گویا کوئی اعتراض تو نہیں ہے؟۔ حالانکہ میرا طالبان سے کیا واسطہ؟ یا انکی پریس کانفرانس میں گویا میں بھی بیٹھا تھا؟ میں نے اپنے ایک دوست کو بتایا کہ یہ مقامی لوگ میرے لیے لفٹ کا دروازہ کھولنے لگے ہیں۔یہ مجھے طالبان کانما ئندہ سمجھتے ہیں کیا؟ دوست کہنے لگا۔ آپ شکل سے پٹھان یا افغانی لگتے ہیں اس لیے، دنیا کے ایک کونے میں ہونے والے واقعے کے اثرات دنیا بھر میں شام ہونے سے پہلے نظر آنے لگتے ہیں۔ 
میں ایک سلو ٹرین میں بیٹھا تھا جو شہر کے اندر آہستہ رفتار سے چلتی ہے۔ اسے انگریزی زبان میں ٹریم کہتے ہیں۔ پیچھے سے ایک صاحب جو شکل سے عرب لگتے تھے۔ ٹوٹی پھوٹی انگریزی زبان میں بہت بلند آواز میں امریکہ کو گالیاں دینے لگے۔ جتنی موصوف کی طاقت تھی ۔گویا چیخ رہے تھے۔ موصوف رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ ٹریم میں بیٹھے باقی لوگوں کا موڈ بہت خراب ہوچکا تھا۔ میں نے تین چار مرتبہ پیچھے مڑ کہ دیکھا اور مجھے یہ سب کچھ دلچسپ لگنے لگا۔ پھر ڈرائیور نے ٹریم روکی اور مذکورہ شخص کو کہا کہ وہ ٹریم سے اتر جاے۔

گالیاں دینے والے شخص کے منہ سے غصے سے جھاگ نکل رہی تھے۔ ٹریم میں بیٹھا کوئی شخص بھی اسے پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھ رہا تھا۔ البتہ وہ شخص بار بار معنی خیز نظروں سے مجھ پر نظر ڈالتا تھا کہ گویا یہ جاننے کی کوشش کررہا ہو کہ میں کس طرف ہوں؟ مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں نے اسے دو انگلیوں کا وکڑی نشان دکھایا تو مذکورہ شخص کی آواز بہت زیادہ بلند ہوگئی۔ البتہ اس وقت تک اسے ٹریم سے اتار دیا گیا تھا۔

جنگ اور تنازعات کے اثرات بھی پوری دنیا پر ایسے پڑتے ہیں۔ جیسے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ہر واقعے کی بازگشت اور گونج سر شام سے پہلے اپنے اثرات مرتب کردیتی ہے۔ ہمارے ہاں سیاستدان جذبات میں بہت کچھ کہہ جاتے ہیں جسے وہ قومی غیرت یا اس سے ملتی جلتی شخصی خوبیوں سے تعبیر کرتے ہیں یا پھر شاید وہ یہ سارا ڈرامہ پبلک میں مقبول ہونے کے لیے کرتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں ٹمپر لوز کرنے کو کچھ اصطلاحات سے گلوری فائی بھی کیا جاتا ہے۔ہماری ناقص سمجھ کے مطابق سیکھنا اور سمجھنا ایک سلو پراسس ہے۔ آپ ترقی یافتہ دنیا میں ٹمپر لوز کرگیے، آپ ریس سے باہر نکال دئیے جاتے ہیں ۔ کسی معاشر ے میں ٹمپر لوز کرنا طاقت کی علامت بھی ہوگا۔ ترقی یافتہ معاشرے میں سارا امتحان برداشت اور ٹمپر کا ہی ہوتا ہے۔
طالبان کی موجودہ سیاسی لاٹ چالیس پچاس سال پہلے روس کی قابض فوج کے خلاف میدان جنگ میں پیدا ہوئی تھی۔۔۔چالیس سال کا گوریلا وار فئیر کا تجربہ رکھتے ہیں۔مارنا اور مارے جانا ان لوگوں کی زندگی کا نارمل حصہ ہے۔آئیےسیاسی توازن اور گڈگورننس کےاصول کوافغانستان کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ افغانستان کے تناظر میں ترقی یافتہ دنیا بری طرح بلیک میل نظر آتی ہے۔ اگر مالی معاونت نہیں کریں گے تو انتہا پسندی ایکسپورٹ ہوگی۔یہ ترقی یافتہ دنیا کا خیال ہے،خود طالبان کی نظر میں رزق کا وعدہ اللہ کا ہے۔شریعت کا کڑا نفاذ ہوگا،اس پر کوئی کمپرومائز نہیں ہے،طالبان کے خیال میں قانون کا خوف کافی ہے،بدعنوانی اور بدامنی پھیلانے والوں کے لیے۔ 
تو طالبان کا کیا روڈ میپ ہے سیاسی توازن اور گڈ گورننس کا؟ یہ کہ ہمارے ملک کو ہمارے پاس رہنے دو۔۔۔ ہمارے وسائل کے ہم خود مالک ہیں۔ ہم اپنے زمینی وسائل ، اپنی سٹریٹجک پوزیشن کے آزادانہ طور پر مستفید ہونے کے صیح حق دار ہیں۔۔۔ آپ یعنی ترقی یافتہ دنیا جو کہ دنیا کے بیشتر حصوں کو کالونی بنائے رہے ہیں اور دنیا کا بیشتر حصہ اب بھی ترقی یافتہ دنیا کی کالونی ہے۔ فارمیٹ ذرا مختلف ہے لیکن دنیا کے جس حصے پر ہم آباد ہیں، اس کے سارے وسائل کے مالک ہم ہیں، یعنی ہم مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر کے بھی مالک ہیں اور ہم اپنے سمندروں کی دولت کے مالک بھی ہم خود ہیں، اگر ہمارے سارے وسائل ہماری دسترس میں ہوں تو ہمیں آپ کی  امداد کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
لیکن ان وسائل پر دسترس ہماری کیوں نہیں ہے؟ مثال کے طور پر ہمارے کسی ریجن میں معدنیات کے ذخائر ہیں اور ہمیں کسی ترقی یافتہ دنیا کی کمپنی کو ٹھیکے پر بھلانا پڑتا ہے جو ہماری معدنیات ہمارے لیے نکالے،معاہدے کے مطابق ہمارا حصہ ہمیں دے اور اپنی اجرت لے اور اپنا راستہ ناپے لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ آنے والی کمپنی اپنے راستے مزید نکالنے کی کوشش کرنے لگتی ہے۔مزید کنٹریکٹ، گورنمنٹ لابنگ، پولیٹیکل لابنگ، حکومتوں کو کمزور کرنے کے لیے انسانی حقوق کے کھاتے میں بلیک میل کرنا۔ پھر رفتہ رفتہ حکومت اور سیاست ان کمپنیوں کی اطاعت میں آجاتی ہیں۔ وسائل پر کنٹرول کس کا ہوا پھر؟ ان کا ہوگا جن کے اصل میں وسائل ہوتے ہی نہیں ۔
جب وسائل کو نکالنا بھی انہوں نے ہے، استعمال کا طریقہ انہوں نے بتانا ہے تو ملک والوں کے پاس کیا رہ گیا؟ انہی سے قرضے لینا جنھوں نے آپکے وسائل زیر استعمال لاکے آپکے حوالے کرنے تھے۔ انہوں نے مال و متاح بھی آپ کے وسائل سے کمایا اور پھر وہی آپ کو قرضہ دیا ۔ آپ کو ہتھیار بیچے۔ آپ کو آپس میں لڑایا۔ آپ کے ایک گروپ کو بدنام کیا ۔ دوسرے کو گلوری فائی کیا۔ دو آئیڈیالوجیز اور تہذیبوں کی جنگ چالیس سال تک لڑی گئی ۔ ایک ترقی پذیر دنیا میں اووریج عمر45 سے 50 برس بتائی جاتی ہے۔ چنانچہ افغانستان کی جنگ ایک پوری نسل نے لڑی ہے۔اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے کہ اس جنگ نے متعلقہ تنازعات حل کردئیے ہیں یا بنی نوع انسان جنگ وجدل کی ہولناک تباہ کاری سے عاجز آکر کچھ عرصے کے لیے محتاط ہوگیا ہے۔اللہ ہمارا حامی اور ناصر ہو۔

(سردارپرویزمحمودکشمیریورپیئن الائنس کےصدرہیں اورمختلف موضوعات پراپنےخیالات کااظہارکرتےرہتےہیں،آپ ان سےاس ای میل پررابطہ کرسکتے ہیں  President@kashmirea.com)

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -