اشٹام پیپرزکا آئن لائن اجراء ۔۔۔۔۔ایک انقلاب آفریں کارنامہ

اشٹام پیپرزکا آئن لائن اجراء ۔۔۔۔۔ایک انقلاب آفریں کارنامہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جدت اور انقلابی تبدیلیوں کا جتنا فائدہ پنجاب نے اٹھایا ہے شائد کسی دوسرے صوبے کے حصے میں آیا ہو۔ بالخصوص پنجاب حکومت نے سرکاری امور کی انجام دہی میں موجود فرسودہ طریقوں کو آئی ٹی کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے جس طرح تبدیل کیا وہ ایک بڑا معرکہ ہے، قیام پاکستان سے آج تک چلے آنے والے تھانہ کلچر یا پٹوار سسٹم میں جس جدت کا سہارہ لیا گیا اس سے جہاں کام کی رفتار میں تیزی آئی وہاں شہریوں کو سرکاری اہلکاروں کی روائیتی ہٹ دھرمی، سست روی اور بلیک میلنگ سے بھی نجات مل گئی، یوں تو پنجاب حکومت نے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کئی منصوبے متعارف کروائے ۔درجنوں پایہ تکمیل کو پہنچ گئے اور سینکڑوں ایسے ہیں جو زیر تکمیل ہیں، تعلیم، صحت، ثقافت،ٹیکنالوجی، ٹرانسپورٹ، ما حو لیات،پولیس،ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، لائیو سٹاک، خزانہ، سرمایہ کاری، غرضیکہ کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں ہے کہ جس میں پنجاب حکومت نے ایڑھی چوٹی کازور لگاکر اپنا لوہا نہ منوایا ہو،کئی شعبے ایسے ہیں جہاں پنجاب حکومت نے دوسری صوبائی حکومتوں کیلئے گائیڈ لائن کا کام کیا ہے اور دیگر صوبوں میں بھی پنجاب جیسے منصوبے شروع کرنا پڑے، صوبائی حکومت کی گڈ گورننس اور ترقیاتی کاموں کی تعداد و برق رفتاری کا اعتراف ناصرف دوسرے صوبوں اور ان کی عوام نے کیاہے بلکہ عالمگیر سطح پر بھی انہیں سراہا گیا ایک شعبہ تو ایسا ہے جس سے کم وبیش ہر شہری کا واسطہ روزپڑتاہے جس کے بارے میں صدیوں سے یہ مثل چلی آرہی ہے کہ اوپر باری نیچے پٹواری، اس محکمے کو محکمہ مال یا محکمہ ریونیو کا نام دیا جاتا ہے اسے عرف عا م میں پٹوار بھی کہتے ہیں جوایک طرف عوام سے اور دوسری طرف حکومت سے جڑا ہوا ہے،صوبے کا سربراہ اتنا طاقتور اور مضبوط نہیں ہوتا جتنا عام سرکل کا پٹواری گردانا جاتا ہے،اختیارات کے حساب سے اس کا کوئی مقابلہ نہیں ہے،اربوں کی جائیداد کے مالک کو ایک مختصر سی تحریر سے ککھ پتی کر سکتا ہے اور کئی ککھ پتی پٹواری کے ہاتھو ں کروڑوں کی جائیداد کے مالک بنتے دیکھے ہیں پاکستان میں اس پٹواری نامی شخص کی اہمیت اتنی ہی سمجھی گئی ہے جتنی ملک کے صدر، وزیراعظم، وزیراعلیٰ یا کوئی اور طاقتور بیوروکریٹس کی ہوتی ہے اس حوالے سے کئی ضرب المثل بھی زبان ذد عام ہیں جیسے اوپر باری نیچے پٹواری۔ طاقت کا سرچشمہ اور اختیارات کا منبع بن جانے والے پٹواریوں سے شہری بالعموم اور دیہاتی بالخصوص تنگ آچکے تھے اس سے جان چھڑانے کی کوئی سبیل دیکھائی نہیں دے رہی تھی اور عوام اس حد تک تنگ آچکے تھے کہ پٹواری اور پٹوار کلچر کو بددعائیں اور کوسنے دینا معمول بنتا جا رہا تھا ایسے میں پنجا ب کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے ا یک نئی تاریخ رقم کی اور انگریز دور سے چلنے والی روایات، کہاوتوں کو بھی پاش پاش کر دیا، صوبے بھر میں کمپیوٹرائزیشن سسٹم کے نفاذ اور آن لائن سسٹم میں ریونیو ریکارڈ کی فیڈنگ کے بعد ناصرف پنجاب بلکہ پاکستان بھر کی عوام، بیوروکریسی، دانش وراور سیاست دانوں کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ واقعی یہ شہباز شریف ہی ہے جس نے تاریخ اپنے نام کی ہے نہ نہ کرنے والی زبا نیں گنگ رہ گئیں، ناممکن ناممکن کہنے والے بھی دنگ رہ گئے اور خود کو ملک کا سب سے طاقتور سمجھنے والا مافیا بھی اختیار ات چھن جانے پر ٹوٹ گیا، ہزاروں، لاکھوں کی دیہاڑیاں ختم ہوئیں اور150روپے کے عوض انتقال، فرد کی کاپی کی دستیابی اب ممکن ہو چکی ہے،اشٹام پیپرز کی آن لائن دستیابی کو یقینی بنا کر عوام کو ایک گراں قدر تحفہ دیا گیا، پہلے مرحلے میں پنجاب کے تین شہروں گوجرانوالہ، فیصل آبا د اور لاہو رمیں 20اگست 2016سے ایک ہزار روپے سے زائد کے اشٹام پیپر آن لائن ملنا شروع ہو گئے ہیں، طریقہ کار یہ ہے کہ پنجاب بینک کی کسی بھی شاخ سے مطلوبہ رقم کی ادائیگی کے بعد اشٹام حاصل کرنے والا شخص اپنے قومی شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی دے کرمقررہ سرکاری فیس کا اشٹام پیپر خرید سکتا ہے جس کا ایک فائد ہ تو یہ ہو گاکہ سٹیمپ وینڈرکی دستبرد سے شہری کی جان چھوٹ جائے گی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جعل سازی کے ذریعے اشٹام پیپر کی تیاری کا قصہ ہی تمام ہو جائے گا، جائیداد کی خریدو فروخت میں ایک اہم مسئلہ اصل مارکیٹ ویلیو اور رجسٹری پر کم قیمت کا اندراج ہوا کرتا تھا حکومت نے کمپیوٹرائزیشن سسٹم کا سہارہ لیتے ہوئے عوام کی اس سے بھی جان چھڑوا دی اور ہر علاقے میں اراضی کی قیمت کا مستقل تعین کر دیا گیا ہے اور تمام ریٹس آن لائن دیکھے جاسکتے ہیں، اس سے کم یا زیادہ کی رجسٹری پاس کروانا بھی ناممکن ہو گیا ہے، آن لائن اشٹام کی فراہمی نے جہاں جعلی رجسٹریوں، اقرار ناموں، بیعہ ناموں،انتقالات، فرادات کے اجراء،جعلی معاہدوں کا راستہ روک دیا ہے وہاں ون ونڈو سسٹم بھی شہریوں کے لئے بڑا سود مند ہے۔
اس عظیم الشان منصوبے کو کامیاب کرنے میں جس ٹیم کا نام آتا ہے ان میں سر فہرست سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب جواد رفیق ملک ہے جن کی دن رات کی کاوش اور انتھک محنت سے اس منصوبے کا پہلا مرحلہ پایہ تکمیل تک پہنچ چکا ہے، لینڈ ریکارڈ انفارمیشن سسٹم کی کامیابی کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب کے ویژن میں شامل ایک او ر منصوبہ کی بنیاد رکھی گئی، اور اس پروجیکٹ کی کامیابی کے لئے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب جواد رفیق ملک،چیئرمین پی آئی ٹی بی پنجاب ڈاکٹر عمر سیف، ممبر ٹیکسز پنجاب اور ای سٹپمنگ کے ڈی جی اسد اسلم مانی اور ڈائریکٹر جنرل پی آئی ٹی بی ساجد لطیف کا انتخاب کیا گیا، جائیدادوں کی منتقلی اور وراثت کیلئے پٹواری جس کاغذ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں اسے اشٹام پیپر کہا جاتاہے انگریز دور کے اشٹام پیپر ز آج بھی کسی کو ہیرو اور کسی کو زیرو بنانے کیلئے استعمال کئے جارہے ہیں،جعلی اشٹام پیپروں کا استعمال اپنی جگہ لیکن انہیں استعمال میں لاکر جو مقاصد حاصل کئے جاتے ہیں وہ نہائت اہمیت کے حامل ہیں، قیام پاکستان سے آج تک اربوں بلکہ کھربوں کی تعداد میں اشٹام پیپرز استعمال کئے گئے ہونگے،اقرار نامہ سے رجسٹری تک اور بیان حلفی سے بڑے بڑے معاہدوں تک، اشٹام پیپرز کا استعما ل لازمی قرار دیاگیا ہے، ایک آنے سے لیکر 25000ہزار تک کے اشٹام پیپرز مارکیٹ میں لائے جاتے رہے جو کہ حکومت پاکستان کی سرپرستی میں تیار کئے جاتے ہیں محکمہ خزانہ کی طرف سے جاری کردہ ان اشٹام پیپروں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی پاکستان کی، معاہدوں میں ہیراپھیری اور جائیدادوں میں دھوکہ دہی کیلئے اشٹام پیپروں کا آزادانہ استعمال بھی سالہا سال سے چلا آرہا ہے، عدالتوں میں اصلی کے ساتھ جعلی اور بوگس اشٹام پیپروں کے استعمال کی کہانیاں بھی منظر عام پر آتی رہی ہیں، مختلف ادوار میں بارہا اس قسم کی جعلسازی کو روکنے کیلئے اقدامات کئے، کبھی اشٹام کا رنگ تبدیل کیا گیا تو کبھی مہر، کبھی سیل کا استعما ل کیا گیا تو کبھی بار کوڈ لگادیا گیا،غرضیکہ اس کے استعمال میں کہیں لینڈمافیا کی بڑی قیادت اور کثیر تعداد نے اپنے مقاصد پورے کئے تو کہیں خود محکمہ ریونیو کے ملازمین نے اس کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا اور اربوں روپے کے اثاثے بنا لئے، اشٹام پیپرز کی کی تاریخ کو جعلسازوں نے موجودہ حالات میں اتنا مسخ کر دیا کہ اب اس کی شناخت کیلئے ہر طرح کی تسلی اور قانونی تقاضے بھی کم پڑ گئے ہیں، پنجاب حکومت کے بڑے بڑے بیوروکریٹس اور پنجاب پر حکمرانی کرنے والے بڑے سیاستدانوں کی تما م تر کوششوں دعووں اور اقدامات کے باوجود اشٹام پیپر ز کے استعمال میں ہونے والی جعلسازی کو ختم نہیں کیا جا سکا،تاہم موجودہ حالات میں پنجاب کی کمان سنبھالنے والے وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے اس جعلسازی کے خاتمہ کا عزم کیا اور موجودہ حالات میں عوامی مفادات اور جدید دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تیز ترین سروس مہیا کرنے کیلئے (ای سٹیمپنگ ) پروجیکٹ کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیاہے۔ اس پروجیکٹ کی ذمہ داری ممبر ٹیکسز پنجاب اسد اسلم مانی کے سپرد کی گئی ہے،ای سٹمپنگ پروجیکٹ سے صوبے کی عوام کو کیا فوائد حاصل ہوں گے،آن لائن سسٹم متعارف کروانے کا سلسلہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ موجودہ حکومت اس حوالے سے کچھ نہ کچھ کرنے کی خواہاں ہے اب تک کیا ہوا،کس نے کیا کیا،منصوبے کیا ہیں، ان کے نتائج کیسے او ر کب برآمد ہوں گے اور عام شہری تک اس کے ثمرات کس انداز میں پہنچیں گے یہ سب کچھ جاننے کیلئے ہم نے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب جواد رفیق ملک،چیئرمین پی آئی ٹی بی پنجاب ڈاکٹر عمر سیف، ممبر ٹیکسز پنجاب، ای سٹپمنگ کے ڈی جی اسد اسلم مانی اور ڈائریکٹر جنرل پی آئی ٹی بی ساجد لطیف کے ساتھ مختلف نشتیں کیں اس دوران سامنے آنے والی تفصیلات نذر قارئین ہیں۔
سوال۔اس پروجیکٹ کا مقصد کیا ہے اور عوام و الناس کو اس کے کیا فوائد حاصل ہوں گے۔
جواب ۔وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف کے ویژن کے مطا بق پہلی بار صوبہ پنجاب میں ای سٹمپنگ منصوبے کا آغاز کیا جارہا ہے جس سے پنجاب کے تما م اضلاع میں موجود مالک اراضی سیلر،پرچیزر کو اس منصوبے سے بہت ریلیف حاصل ہو گا، یہ پراجیکٹ عوامی اور حکومتی خزانے میں بے پناہ آمدن کا سبب بنے گا اور اس پراجیکٹ کے ذریعے نا صرف جعلی اشٹام پیپرز کی روک تھام کی جاسکے گی بلکہ عوام الناس کو درپیش کئی کئی دن کے انتظار کا معاملہ بھی مکمل طور پر ختم ہو جائے گا، دنوں کا کام منٹوں میں ہو گا،قبل ازیں اشٹام پیپرز کی پر نٹنگ کاکام کراچی میں ہو رہا تھا جہاں سے اشٹام پیپرز کی تیاری کے بعد اس کو خزانہ برانچ لاہور میں شفٹ کیا جاتا،اس طریقہ کار سے اشٹام پیپرز کی چوری اور سیفٹی کے حوالے سے بے پناہ خدشات موجود تھے تاہم جدید دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے 26مئی 2016سے آن لائن سسٹم کے ذریعے خرید و فروخت آن لائن کردی گئی ہے،10000,5000,1000,500,200,100سے لے کر 25ہزار روپے مالیت تک کے اشٹام پیپرز آن لائن سسٹم میں محفوظ کئے گئے ہیں۔ اس ضمن میں اسٹیٹ بینک سے باہمی کامیاب مذکرات کے بعد پنجاب کے تمام پنجاب بینکس میں اشٹام پیپرز کی ترسیل کے لئے الگ سے کاؤنٹر بھی بنادیئے گئے ہیں جہاں شہری مہیا کیا گیا چالان فارم پر کرنے کے بعد اپنی ڈیمانڈ کے مطابق اسی وقت اشٹام پیپرز حاصل کر سکیں گے، پنجاب بینک کی تما م شاخوں میں جائیداد کی خریدو فروخت، بیع نامہ جات، ایگریمنٹ ٹو سیل، وصیت، وقف، مختار نامہ، اقرار نامہ، کرایہ داری،دستبرداری،نامہ سمیت 500سے زائد تحریری معاہدہ جات کے پیٹرن پر مشتمل تحریریں محفوظ ہیں جو شہری کی خواہش کے مطابق تحریر بھی کی جاسکیں گی،دوسرا بڑا فائدہ وہ خواری کی روک تھام ہے جو شہریوں اور اشٹام سیلرز کو کچہریوں میں اٹھانا پڑتی تھی اب ہمہ وقت اور فوری اشٹام پیپرز مہیا کیا جارہا ہے اشٹام پیپرز پر تحریر کوڈ ایس ایم ایس بھی فوری شہری کے موبائل پر آجائے گاجس کی تصدیق سیلراور پرچیزر دونوں کو ہو جائے گی، ایئر کنڈیشنڈ اور آراستہ ماحول میں شہریوں کو سہولیات مہیا کی جارہی ہیں ۔
سوال ۔یہ پروجیکٹ کتنی مالیت کا ہے اور اس پر چیک اینڈ بیلنس کا کیا طریقہ کار ہے۔
جواب۔جی ابتدائی طور پر حکومت پنجاب کی جانب سے منظور کردہ 34کروڑ روپے مختص کیا گیا ہے اور اس ضمن میں حکومت کی جانب سے ادائیگی بھی کر دی گئی ہے
اس پروجیکٹ میں ا یک فیصد بھی کرپشن نہیں ہو گی اس کی مانیٹرنگ کا سسٹم انتہائی فعال ہے اس حوالے سے تما م حکمت عملی مرتب کر لی گئی ہے جس پر پوری تندہی سے عمل درآمد کیا جارہا ہے۔
سوال۔ اس پروجیکٹ کیلئے کون سا سوفٹ وئیر استعمال کیا جارہا ہے اور اس کے سیکیورٹی فیچرز کیا ہیں کہ وہ ہیک نہیں ہو گا۔
جواب۔ای سٹمپنگ پروجیکٹ کی ویب سائٹ اور اس میں استعمال ہونے والا سوفٹ ویئر پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ نے تیار کیا ہے اس کے علاوہ اس سوفٹ ویئر کی تیاری کے ساتھ سیکیورٹی سوفٹ ویئر بھی تیار کیا گیا جس سے ا س میں کسی قسم کی گڑ بڑکرنے کی کوشش کرنے والے شخص کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے گی، اس ویب سائٹ او ر ا س میں استعمال ہونے والے سوفٹ ویئر کے کی سیکورٹی کے لئے انٹرنیشنل سطح پر ٹیسٹنگ اور کلیئر نس کے بعد اس کو استعما ل کیا جارہا ہے جیسا کہ دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ہورہاہے۔اس کے علاوہ ریکارڈ کو سینٹرلائزڈ بھی کیاگیا ہے اور اس کا بیک اب بھی رکھا گیا ہے جس کے لئے بورڈ آف ریونیو دفاتر اور پی آئی ٹی بی کے دفاتر میں سنٹر بھی قائم کئے جا چکے ہیں ۔
سوال۔آن لائن اشٹام پیپرز کے حصول کیلئے کیا چیزیں درکار ہونگی۔
جواب۔آن لائن اشٹام پیپرز کے حصول کا طریقہ نہائت آسان ہے، عام شہری اپنے قومی شناختی کارڈ کے ساتھ پنجاب بینک کی قریبی برانچ میں جاکر آن لائن سسٹم پر اپنے کوائف مہیا کرے گا جس کے شناختی کارڈ کی تصدیق بھی آن لائن سسٹم کے ذریعے ہو گی اور فیس کی سلپ اسی وقت بینک میں جمع کروانے کے بعد شہری کو کوڈ پن کے ذریعے اشٹام پیپرز جاری کر دیا جائے گا جس میں 30منٹ سے زیادہ ٹائم درکار نہیں ہوگا،یہاں پہ میں ایک بات کا اضافہ کردوں کہ آ ن لائن اشٹام پیپرز کے حصول کے دوران جو طریقہ کار رائج کیا گیا اس سے کوئی شخص جعلی شناختی کارڈ کا استعمال بھی نہیں کر پائے گا جس کی قبل ازیں بے پناہ شکایات بھی تھی اور مالک اراضی کا جعلی شناختی کارڈ بنا کر جعل ساز فراڈ کرنے میں مگن تھے، مکمل طور پر سیلر اور پرچیزر کی خریدو فروخت کے تمام تر منتقلی ثبوت آن لائن ہونگے، تھمب آپریشن سے لے کر قومی شناختی کارڈ تک تمام تر طریقہ کار انتہائی صاف اور شفاف طریقہ سے طے ہو گا جس میں جعل سازی،دھوکہ دہی اور فراڈ کی ایک فیصد بھی گنجائش نہ رہے گی یہ ایک ایسا معمہ تھا جس کی شکایات، اطلاعات اور نقصانات کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری تھا جس کو اب جڑ سے ہی ختم کر دیا گیا ہے۔
سوال۔ ایک عام آدمی جس کی انٹر نیٹ تک رسائی نہیں ہے یا وہ غیر تعلیم یافتہ ہے وہ اس سسٹم سے کیسے فائدہ حاصل کرسکتا ہے،کیا اس کیلئے پھر کسی (مڈل مین)کی ضرورت ہو گی۔
جواب۔ایک عام آدمی جو کہ غیر تعلیم یافتہ ہے اور اس کی انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہے وہ حکومت کے منتخب کردہ کسی بھی بینک میں جاکر اپنے کوائف اور قومی شناختی کارڈ کی تصدیق کے بعد اشٹام پیپرز حاصل کر سکتاہے یہ نہائت سہل طریقہ ہے جس میں کسی قسم کا ابہام اور مشکل نہیں ہے، سابقہ طریقہ کار کی طرح آن لائن سسٹم میں کسی مڈل مین کی قطعی ضرورت نہ ہے، بینک کا ویل ٹرینڈ سٹاف ہمہ وقت اس حوالے سے ہر قسم کی مدد مہیا کرے گا اور ایک غیر تعلیم یافتہ اور عام شہری بھی کسی بھی مڈل مین کے بغیر اشٹام پیپر حاصل کر سکے گا۔
سوال۔اس پروجیکٹ کیلئے کتنا سٹاف بھرتی کیا جارہا ہے اور کون سی انتطامی سیٹیں ہو نگی۔
جواب۔ ابتدائی طور پر اس پرا جیکٹ کیلئے بینک میں تعینات کردہ ٹرینڈ سٹا ف ہی کافی ہے جو کہ صوبہ پنجا ب کی حدود میں آنے والے بینکوں میں تعینات ہو گا اس کے لئے بینک میں الگ کاؤنٹر سسٹم قائم ہو گا او ر ای سٹمپنگ کے حوالے سے ٹرینڈ بینک سٹاف ہی پبلک ڈیلنگ کے فرائض سر انجام دے گا ۔ تاہم اس پراجیکٹ میں بورڈ آف ریونیو کی سٹیمپ برانچ کا سٹاف بھی شامل ہے جو کہ اس حوالے سے اپنے آڈٹ کے فرائض سرانجام دے گا اور تمام بینکوں میں کی جانے والی ریکوری اور ٹارگٹ کے مطابق صاف شفاف آڈٹ رپورٹ مرتب کرے گا، اس کے علاوہ مانیٹرنگ اور انتظامی عہدے پر پی ایم ایس اور سی ایس پی افسران کو تعینات کیا جائے گا جس کے لئے سروس سٹرکچر کی تیاریاں مکمل کی جارہی ہیں جس کو آئیندہ چند روز کے لئے منظوری کے لئے وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھجوا دیا جائے گا ۔
سوال ۔اس پروجیکٹ میں کون سے سرکار ی محکمہ جات آ پ کے پارٹنر ہیں
جواب۔ای سٹمپنگ پروجیکٹ پنجا ب انفارمیشن بورڈ کی پارٹنر شپ سے اس منصوبے کاآغاز کیا گیا ہے اور انشاء اللہ باہمی اشتراک سے بھرپور اور بہترین نتائج عوام الناس کیلئے انتہائی فائد مند ہوں گے، اس کے علاوہ تما م سرکاری و غیر سرکاری محکمہ جات کا تعاون بھی ہمارے ساتھ جاری و ساری رہے گا جہاں پر آن لائن اشٹام پیپر ز کا استعمال کیا جاتا ہے، جن میں ایل ڈی اے،کوآپریٹو سوسائٹیز، ہاؤسنگ سکیمز،ٹاؤنزاور پرائیویٹ سیکٹر سمیت دیگر ملٹی نیشنل ادارے شامل ہو ں گے۔
سوال۔اس منصوبے کی بنیاد سال 2014-15میں رکھی گئی اور اس کا باقاعدہ آغاز مئی 2016کو ہوا، آپ کے خیال میں اس کا آغاز پہلے نہیں ہو جانا چاہئے تھا۔
جواب۔اس حوالے سے میں یہ جانتا ہوں کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے دور حکومت میں صاف پانی سے لے کر تعلیم، صحت اور روزگار کی سکیموں کے ساتھ ساتھ عوام کے سروں پر چھت اور ان کو ایک محفوظ مقام دینے کیلئے آشیانہ ہاؤسنگ سکیموں جیسے بڑے بڑے منصوبے بھی شروع کئے گئے، صوبہ پنجاب کی ترقی و کمی میں بھی کوئی کسر نہ رہی اس کے علاو ہ صوبے بھر میں لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن جیسے بڑے منصوبے کو جامع طریقہ سے مکمل کیا گیا جس کی مثا ل اب پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی دی جارہی ہے یہ کریڈٹ وزیراعلی پنجاب کو ہی ہے جن کے ویژن کے مطابق ای سٹیمپنگ منصوبے کی تخلیق کی گئی اور اس کو انتہائی مختصر سے عرصہ میں مکمل کرتے ہوئے باقاعدہ اس کا آغاز بھی کر دیا گیا جس کیا پنجاب بھر کی عوام کو براہ راست فائدہ ہوگا۔
سوال۔اس منصوبے سے کیا حکومت کو بھی کوئی فوائد حاصل ہونگے۔
جواب۔جی ہاں اس سے پہلے کراچی میں اشٹام پیپرز کی پرنٹنگ کا سالانہ خرچہ 60کروڑ روپے آرہا تھا جبکہ اب آن لائن سسٹم کے ذریعے اشٹام پیپرز کے اجراء کے عمل کے بعد اشٹام پیپرز کی پرنٹنگ پر آنے والے 60کروڑروپے بچت کی شکل میں ریونیو حکومتی خزانے میں جائے گا اس کے علاوہ جعلی اشٹام پیپرز کی ترسیل سے ہونے والے اربوں روپے کے ہونے والے نقصانات سے بھی حکومت بچ جائے گی اور اشٹام پیپر کی مد میں حکومت کے ریونیو میں3گنا زیادہ اضافہ بھی ظاہر ہو جائے گا ۔جبکہ انڈر ویلیو کے طور پر ہونے والی رجسٹریوں کا بھی خاتمہ ہو جائے گا جس سے حکومت کو اربوں روپے کا سالانہ فائدہ حاصل ہو گا، اب اس کا طریقہ کار تبدیل کر دیا گیا ہے آن لائن سسٹم سے خسرہ جات کے مطابق شیڈول ریٹ وصول کیا جائے گا اور اس ضمن میں کمرشل، سکنی،اور ذرعی خسرہ جات کی تفصیل بھی آن لائن سسٹم میں محفوظ کی جاچکی ہے اب کوئی کمی فیس کا کیس نہیں بنے گا ۔
سوال۔آن لائن اشٹام پیپرز کی تصدیق کہاں سے اور کیسے ہو گی۔
جواب۔ہر اشٹام پیپرز پر ایک مخصوص کوڈ ہو گا جو کہ پورے پنجاب میں کہیں سے بھی جہاں پر انٹرنیٹ موجود ہو گا وہاں پر ای سٹمپنگ سوفٹ وئیرکے ذریعے سے تصدیق ہو سکے گا، اس کے علاوہ سب رجسٹرار آفس اور تمام کوآپریٹو سوسائٹیوں میں بھی یہ سوفٹ ویئر مہیا کر دیا گیا ہے جہاں پر ایک منٹ سے بھی کم عرصہ میں اس مخصوص کوڈ کے ذریعے اشٹام پیپرز کے اصلی یا جعلی ہونے کی تصدیق ہو سکے گی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہم نے 26مئی کو گوجرانوالہ، نارووال اور منڈی بہاؤالدین کے اضلاع میں دفاتر قائم کئے اس طرح 22جولائی کو حافظ آباد، 25جولائی کو گجرات، 26جولائی کو سیالکوٹ، ڈسٹرکٹ کا مکمل آن لائن ای سٹپمنگ سیٹ اپ مکمل کر دیا گیا ہے اس وقت ہم نے پنجاب کی نو میں سے تین ڈویژن جن میں گوجرانوالہ، فیصل آباد اور لاہور ڈویژن شامل ہیں کے 14 اضلاع میں ای سٹپمنگ آن لائن اشٹام پیپرز سہولیات میسر کر دی ہیں جبک عید سے قبل ہم نے راولپنڈی ڈویژن کو بھی مکمل طور پر آن لائن سسٹم کے ساتھ منسوب کرکے آغاز کر دیا۔ اور ستمبر 2017تک اس ٹائی ٹینک منصوبے سے پنجاب کی عوام مکمل طور پر سہولیات مکمل طور پر سہولیات حاصل کرتی ہوئی دیکھائی دے گی۔
سوال۔اب تک ای سٹپمنگ منصوبے کے تحت کتنا ریونیو اکٹھا کیا جاسکا ہے اور کتنے اشٹام پیپر فروخت ہوئے ہیں ۔
جواب۔جی مئی 2016سے لے کر اب تک ہم نے ایک ارب روپے کا ریونیو اشٹام پیپرز کی فروخت کی مد میں اکٹھا کیا ہے جبکہ 55ہزار سے زائد اشٹام پیپرز فروخت کئے ہیں جن میں سے کسی کی مالیت زیادہ تو کسی کی کم بھی تھی ۔
سوال ۔پنجاب بینک برانچز میں 1000روپے سے لے کر 25ہزار تک کے اشٹام پیپرز مہیا کئے گئے ہیں، باقی، 50,100 ,200 اور 500 والے کہاں سے لئے جائیں گے اور اس کا طریقہ کار کیا ہو گا۔
جواب۔پہلے مرحلے کے مطابق رجسٹری ہذہ کی تکمیل کے لئے اشٹام پیپر مہیا کر دیئے ہیں دوسرے میں نان جوڈیشل پیپرز اور تیسرے مرحلے میں جوڈیشل پیپرز بھی مہیا کر دیئے جائیں گے، جس کے لئے ہم نے فائنل ٹائم فریم ستمبر 2017رکھا ہوا ہے جس کے بعد آپ کو ہر طرح کے اشٹام پیپرز پنجاب بینک سے آسانی سے دستیاب ہوں گے ۔
سوال۔ای سٹیمپ منصوبے کا آغاز کب ہوا اور اس کو کب تک مکمل کر لیا جائے گا ۔
جواب۔اس منصوبے کی بنیاد سال 2014-15کو رکھی گئی تھی جبکہ اس ضمن کا باقاعدہ آغاز مئی 2016کو گوجرانوالہ کے پائلٹ پراجیکٹ سے کیا گیا ۔
سوال۔اس منصوبے کی تکمیل کیلئے کتنا ٹائم فریم رکھا گیا ہے۔
جوا ب۔یکم جنوری 2015سے آن لائن اشٹام پیپرز کا اجراء شروع ہو گیا ہے، یہ منصوبہ ایک سال میں مکمل کر لیا جائے گااگلے سال تک پنجاب کے تما م اضلاع میں آن لائن سسٹم کے ذریعے اشٹام پیپرز کی ترسیل کی جائے گی۔
سوال۔اس پروجیکٹ کا ہیڈ آفس کہاں ہو گا اس کے دفاتر کہاں پر قائم کئے جائیں گے۔
جواب۔ای سٹمپنگ ادارہ کا ہیڈ آفس ارفع کریم بلڈنگ میں قائم کیا گیا ہے جہاں پر اس کے پروجیکٹ ڈائریکٹر سمیت پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے دیگر افسران بیٹھیں گے، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے ویژن کے مطابق عوام دوست پالیسیز مرتب کی گئی ہیں، مانیٹرینگ کا انتہائی فعال سسٹم قائم کیا گیا ہے پنجاب بھر میں اگلے سال تک شکایات سیل بھی قائم کئے جاچکے ہیں، تاکہ اس پروجیکٹ میں کسی قسم کی پریشانی یا تاخیر کی صورت میں فوری سدباب کیا جاسکے، انشاء اللہ 2016کے آخر میں ای سٹمپنگ پروجیکٹ کوپورے پنجاب میں میں مکمل کر لیا جائے گا۔*

مزید :

ایڈیشن 1 -