خودی کا سرِ نہاں !!!
وزیراعظم پاکستان عمران خان کا حالیہ دورہ امریکہ کےدوران قومی مئوقف اور 27 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے جرات مندانہ , دلیرانہ اور حقیقت پسندانہ خطاب قابل تحسین ہے اور ایک ایسی تاریخ رقم ہوئی ہے کہ جسے مورخ تاریخ کے اوراق میں سنہرے حروف سے لکھےگا۔ وزیراعظم نے دورہ امریکہ کے موقع پر مسئلہ کشمیر , افغان جہاد , اسلامو فوبیا اور بھارت میں مسلم سرمایہ کاری پر اپنا بھرپور مئوقف پیش کیا , اپنےحصےکی ذمہ داری پوری کی مگر عالم کفر کا بغض اور عربوں کی بے حسی کو واضح طورپر دیکھاجاسکتاہے۔ میں وزیراعظم عمران کے اس بیانیے کو پاکستانی عوام کی امنگوں کے عین مطابق سمجھتی ہوں اور اسے متفقہ قومی بیانیہ قرار دیتے ہوئےاس کی بھرپور تائید اور دفاع کرنا چاہوں گی مگر اس کے جذباتی پہلو کے علاوہ ہمیں اس کے ممکنہ فوائد و نقصانات کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔
ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہمارا ازلی دشمن بھارت اس پر کس قسم کا ردعمل دے سکتا ہے؟عالمی طاقتیں ہماری اس نئی خارجہ پالیسی کو کس طرح سے دیکھتی ہیں اور یہ کہ امت مسلمہ سے کیسا رویہ متوقع ہے؟ سب سے پہلے بھارت اور مودی سرکار کی بات کی جائے تو مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر نہ صرف اجاگر ہو گیا ہے بلکہ مودی سرکار کا دہشتگردانہ ہندو چہرہ بھی بے نقاب ہو گیا ہے۔ صرف یہ ہی نہیں بھارتی میڈیا کے بقول ہم نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے بھارت کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے۔ بھارتی میڈیا ہی نہیں مودی سرکار بھی بوکھلا گئی ہے۔ ہمیں یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ ابھی ہم نے صرف بھارتی مظالم کا پردہ چاک کیا ہے مگر ابھی مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوا ہے کیونکہ ابھی ہمیں طویل جدوجہد مزید کرنی پڑے گی۔ہمیں اب اگلا لائحہ عمل قدرے جارحانہ اپنانا ہوگا۔ 27 ستمبر کا سورج غروب ہوتے ہی مسئلہ کشمیر پر کسی بین الاقوامی ثالثی کی کوشش کی امید بھی دم توڑ گئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے عالمی سطح پر جس سرد مہری کا اظہار کیا , وہ اگرچہ میرے لیے غیر متوقع نہیں تھا۔ میں ایک مرتبہ پھر یہ واضح کرنا چاہتی ہوں کہ ہمیں اپنی جنگ اپنے زور بازو پر لڑنی ہی ہوگی ۔جہاں تک عالمی طاقتوں کے رویے کا تعلق ہے تو ہیوسٹن میں ٹرمپ مودی ملاقات میں ہمارے لیے واضح پیغام ہےاوروزیراعظم عمران کا بھی جوابی پیغام تھا کہ ” متعدل اسلام اور انتہاپسند اسلام جیسی کوئی چیز نہیں بلکہ اسلام صرف ایک ہے اور وہ رسول اللہ ﷺ کا دین اسلام “۔
گویا مودی اور ٹرمپ نے ہم پر زبردستی انتہا پسندیدی کا لیبل چسپا کرکے اعلان جنگ کیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار بھی کھل کرکشمیر پر پاکستانی مئوقف کی تائید نہیں کی بلکہ کشمیر میں کرفیو کے متعلق صحافی کے سوال کو ٹال دیا اور بعد ازاں امریکی امور خارجہ کے ذمہ داران نے رسمی طور بھارت کو کرفیو ہٹانے کا کہہ دیا مگر امریکی صدر کو ایسا کہنے کی ایک بار بھی توفیق نہیں ہوئی مگر اس کے باوجود موصوف ثالثی کی پیشکش کرتے رہے۔وزیراعظم عمران خان نے روس کے خلاف افغان جہاد کےلیے القاعدہ اور طالبان کی تخلیق کی غرض سے امریکی اور مغربی فنڈنگ کا ذکر کردیا اور دنیا کو بتادیا کہ ماضی کے مجاہدین کو آج کے دہشتگردقرار دینے والے ہی ان کے خالق ہیں تو پھر آپ کو سچ بولنےپر بہرحال امریکی سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بھارت بھی FAFTA سے پاکستان کو بلیک لسٹ کروانے کےلیے پاکستان میں مختلف کالعدم تنظیموں کا جھوٹا اور گمراہ کن پروپیگنڈہ عروج پر پہنچا چکاہے ۔ اس کے علاوہ بھارت گلالئی اسماعیل کو پاکستان کے خلاف زہریلے پروپیگنڈہ کےلیے استعمال کررہا ہے۔ یہاں پر ایک لمحےکو اندرونی منظرنامے پر واپس آنا پڑے گا۔میرا سوال ہے کہ ایسے کڑے وقت میں ”محسن داوڑ “ کیسے ضمانت پر رہا ہوا ؟اور گلالئی اسماعیل کیسے ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئی ؟اس کی دو وجوہات کی نشاندہی کروں گی ۔
پہلا یہ کہ آپ کا فرسودہ نظام ڈلیور کرنے میں اس قدر ناکام ہوچکا ہے کہ ایسے غدار ملت بھی عدالتوں کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں اور دوسرے اس بات کی نشاندہی کرنا چاہتی ہوں کہ گلالئی اسماعیل کے فرار ہونے سے واضح ہوگیا کہ ہماری صفوں میں غدار اور دشمن کے آلہ کار دونوں موجود ہیں۔ جیسا کہ صلاح الدین ایوبی نے کہا تھا کہ ” دشمن سے پہلے غدار کا قلعہ قمعہ کرنا ضروری ہے ”۔لہذا فوری طور پر اپنی صفحیں درست کرلیں , اس سے پہلے کہ بیرونی سمت سے دشمن ہم پر چڑھ دوڑے ۔ اس کے علاوہ ارباب اختيار کو مشورہ ہے کہ ٹھیک ہے آپ نے زبردست طریقے سے دنیا کو واضع پیغام دے دیا ہے مگر اب آگے کیا کرنا ہے ؟ اب اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ اگرچہ سلامتی کونسل کے اجلاس کے فوراََ ” ملٹری آپریشن “ پرغور کا مشورہ دیا تھااور یہ واضع کیا تھا کہ آزاد کشمیر پر حملےکی دھمکی محض ایک جنگی چال ہے اور پھر وہی ہوا جیسا کہ خدشہ تھا کہ آپ آزاد کشمیر پر حملے کا انتظار کرتے رہے اور بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں نسل کشی کےلیے کافی وقت پاچکا ہے ۔ جنرل اسمبلی میں مسئلہ اٹھانے سے یہ تنازع حل ہونے کی توقع نہیں تھی ۔ لہذا آپ پہلے ہی بہت سا قیمتی وقت ضائع کر چکے ہیں اور اب بلاتاخیر ”ملٹری آپشن “ پر غور کیا جائے۔ سب سے آخر میں ترک صدر رجب طیب ارودگان , ملائیشین وزیراعظم مہاتیر بن محمد اور ایرانی صدر حسن روحانی کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کی حوصلہ افزائی پر اظہار تشکر جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دہرے معیار پر اظہارمایوسی کرنالازم ہے۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔