نئی حلقہ بندیوں کا اجراء

نئی حلقہ بندیوں کا اجراء

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

الیکشن کمیشن نے ڈیجیٹل مردم شماری 2023ء کے تحت ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نئی حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست جاری کر دی ہے۔ اِن کے مطابق کراچی میں قومی اسمبلی کی نشستیں 21 سے بڑھ کر 22 جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشستیں 44 سے بڑھ کر47 ہوگئی ہیں (ضلع ملیر، ضلع شرقی اور ضلع وسطی میں ایک، ایک نشست کا اضافہ ہوا ہے)۔ اِس کے برعکس سانگھڑ سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی ایک، ایک، خیرپور اور ٹھٹھہ سے صوبائی اسمبلی کی ایک، ایک جبکہ مظفر گڑھ میں قومی اسمبلی کی دو اور گوجرانوالہ سے ایک نشست کم ہو ئی ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے بعد وزیراعظم کے انتخاب کے لیے نمبر گیم بھی تبدیل ہوگئی، نئے وزیراعظم کو منتخب ہونے کے لیے 169 ووٹ درکار ہوں گے جبکہ پرانی حلقہ بندیوں کے مطابق اِنہیں 172 ارکان کی حمایت درکار ہوتی تھی۔ قومی اسمبلی کی عمومی نشستوں کی تعداد 272 سے کم ہو کر  266 ہوگئی ہے جبکہ60 مخصوص نشستیں رکھی گئی ہیں جس کے بعد قومی اسمبلی کی کل نشستوں کی تعداد 342 سے کم ہو کر 326 رہ گئی ہے۔ کمیشن کی جانب سے جاری تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں ووٹروں کی تعداد آٹھ لاکھ سے زائد رکھی گئی ہے۔ پنجاب اسمبلی کی کل جنرل نشستوں کی تعداد 297 برقرار ہے، سندھ اسمبلی کی کل جنرل نشستوں کی تعداد 130 ہے، خیبرپختونخوا اسمبلی میں کل عمومی نشستوں کی تعداد 115 جبکہ یہاں حلقوں میں ووٹروں کی تعداد تین سے پانچ لاکھ کے درمیان ہے، بلوچستان اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 51 جبکہ حلقوں میں ووٹروں کی تعداد دو سے چار لاکھ کے درمیان رکھی گئی ہے۔ابتدائی حلقہ بندیوں کی تفصیلات (نقشہ جات سمیت)  الیکشن کمیشن ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر دی گئی ہیں، اِن حلقہ بندیوں کی اشاعت کے 30 دن کے اندر یعنی 27 اکتوبر تک اعتراضات یا تجاویز جمع کرائی جا سکتی ہیں۔ الیکشن کمیشن 28 اکتوبر سے 26 نومبرتک اِن اعتراضات پر فیصلے کرے گا۔ تجاویز یا اعتراضات جمع کرانے کے لیے لازم ہے کہ اعتراض کنندہ متعلقہ حلقے کا ووٹر ہو۔یہ اعتراضات نبٹانے کے بعد 30 نومبر کو حتمی انتخابی فہرستیں جاری کی جائیں گی۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق کسی بھی صوبے کی کل نشستوں کو ووٹروں کی مجموعی تعداد کے ساتھ تقسیم کرکے ہر حلقے میں کوشش کی گئی ہے کہ مساوی ووٹرز ہوں تاہم بلوچستان میں کئی نشستیں مختلف اضلاع پر بھی مشتمل ہیں اِس لیے ووٹرز کی تعداد مختلف ہو سکتی ہے۔قومی اسمبلی کی وفاقی دارالحکومت سے تین، پنجاب سے 141، سندھ سے 61، خیبرپختونخوا 45 اور بلوچستان میں 16 نشستیں ہیں۔اسی طرح پنجاب اسمبلی کی جنرل نشستوں کی تعداد 297 جبکہ خواتین کی 66 اور غیر مسلموں کی آٹھ نشستیں ہوں گی۔ سندھ میں جنرل نشستیں 130، خواتین 29 اور غیر مسلموں کی نو نشستیں ہوں گی۔ خیبرپختونخوا کی 115 جنرل، 26 خواتین اور چار غیر مسلم جبکہ بلوچستان کی 51 جنرل، 11 خواتین اور تین نشستیں غیر مسلموں کے لیے  ہوں گی۔ قومی اسمبلی کے لیے پنجاب میں ایک نشست کے لیے آبادی کی کم سے کم تعداد نو لاکھ پانچ ہزار 595، سندھ کے لیے نو لاکھ 13 ہزار 52، خیبرپختونخوا کے لیے 9 لاکھ 7 ہزار 913، بلوچستان کے لیے نو لاکھ 30 ہزار 900 جبکہ اسلام آباد کے لیے سات لاکھ 87 ہزار 954 رکھی گئی ہے۔ اِسی طرح پنجاب اسمبلی میں جنرل نشست کے لیے ووٹرز کی تعداد لگ بھگ  چار لاکھ 29 ہزار، سندھ میں چار لاکھ 28 ہزار، خیبرپختونخوا میں تین لاکھ 55 ہزار جبکہ بلوچستان کے لیے دو لاکھ 92 ہزار  رکھی گئی ہے۔

الیکشن کمیشن نے اپنے سابقہ اعلان کے مطابق حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست شائع کر دی ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ اپنا کام طے کردہ شیڈول کے مطابق کر رہا ہے، قوی امکان ہے کہ اعلان کردہ وقت پر انتخابات بھی ہو جائیں گے۔ بعض سیاسی جماعتیں انتخابات کے ہونے نہ ہونے اور الیکشن کمیشن کی طرف سے کام نہ کرنے جیسے اعتراضات کرتی رہی ہیں، یہ شکوک شبہات اب دور ہو جانے چاہئیں۔ سیاسی جماعتوں کو اپنی تمام تر توانائیاں اعتراضات اور تجاویز الیکشن کمیشن کو جمع کرانے پر مرکوز کرنی چاہئیں کہ اِس کے بعد حلقہ بندیوں سے متعلق کسی اعتراض کی کوئی گنجائش ہو گی اور نہ ہی کوئی فائدہ۔ الیکشن کمیشن ہفتہ بھر قبل جاری کیے گئے اعلامیے میں بتا چکا ہے کہ ابتدائی اعتراضات و تجاویز نبٹانے کے بعد حلقہ بندیوں کی حتمی فہرست 30 نومبر کو شائع کی جائے گی اور اْس کے 54 دن کے الیکشن پروگرام کے بعد انتخابات جنوری 2024ء کے آخری ہفتے میں کرا دیے جائیں گے۔ نئی حلقہ بندیوں کے نتیجے میں ضلعی سطح پر اسمبلیوں میں تبدیلیاں سامنے آنے سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ نئی مردم شماری کے بعد حلقہ بندیاں ہونا ضروری تھیں وگرنہ آبادی کے حساب سے بعض اضلاع کی نمائندگی ممکن نہ ہو پاتی۔ نئی حلقہ بندیوں سے اب ہر ضلعے کو اْس کی آبادی کے تناسب سے نمائندگی میسر آئے گی، ایک شخص۔ایک ووٹ کے اصول پر عمل ہو گا۔الیکشن کمیشن اپنا کام کر رہا ہے تاہم سوال یہ ہے کہ کیا تمام سیاسی جماعتیں اپنا اپنا کام کر رہی ہیں؟اب تک جماعت اسلامی کے سوا کسی سیاسی جماعت نے اپنا انتخابی منشور عوام کے سامنے نہیں رکھا، الیکشن کمیشن یا اْس کے کام پر اعتراض کرنے کے بجائے سیاسی جماعتوں کو اپنی توجہ اب انتخابات پر مرکوز کر دینی چاہئے، عوام کے سامنے اپنا منشور رکھیں اور مستقبل کا روڈ میپ دیں جس سے پتہ چل سکے کہ درپیش مسائل کا کس سیاسی جماعت کے پاس کیا حل ہے اور وہ حل قابل ِ عمل بھی ہے یا کہ نہیں؟ محض بلند بانگ انتخابی نعروں سے اب ملک کو اْس معاشی دلدل سے نہیں نکالا جا سکتا جس میں وہ بْری طرح سے دھنسا ہوا ہے، کسی مربوط حکمت عملی کے بغیر اِس دلدل سے ملک کا نکل آنا کسی معجزے سے کم نہیں ہو گا۔ پاکستان کو اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی فوری ضرورت ہے، خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا ٹارگٹ سامنے رکھے ہوئے ہے، قرضوں کی ادائیگیوں کا بوجھ ترقی کا راستہ روکے کھڑا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا مسئلہ ہر چند ماہ بعد سر اْٹھا لیتا ہے، اِس کا مستقل سد ِباب کیسے ممکن ہو گا؟ سینکڑوں ارب روپے سالانہ کا نقصان کرتے اداروں کی نجکاری جسے گزشتہ کئی دہائیوں میں ممکن نہیں بنایا جا سکا، وہ اب کیسے ممکن ہو پائے گی؟ معاشی ہی نہیں سیاسی اور معاشرتی مسائل بھی ملک و قوم کو آگے لے جانے کے بجائے پیچھے کی طرف دھکیلتے چلے جا رہے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ سیاسی عدم استحکام ہے جو ہمیں کھوکھلا کرتا چلا جا رہا ہے، اِس کی بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے کہ یہی معاشی استحکام کی راہ کی بھی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ کیا سیاسی جماعتوں نے اِس بارے میں بھی کبھی غور کیا ہے کہ کیسے سیاسی اور معاشی استحکام کو ممکن بنایا جائے؟؟؟ تاحال دِلی دور است۔ اْمید کی ایک کرن ضرور پھوٹی ہے کہ بھاری قیمت چکا کر ہی سہی لیکن مستقل پالیسی کی ضرورت کو محسوس کر لیا گیا ہے، اِس کا برملا اظہار سبکدوش ہونے والی پی ڈی ایم حکومت نے بھی کیا تھا اورنگران حکومت بھی کرتی نظر آتی ہے، اْمید ہے کہ آئندہ منتخب ہو کر آنے والی حکومت مستقل پالیسیوں خصوصاً معاشی معاملات میں طے کردہ پالیسی میں بلا ضرورت تبدیلیوں سے احتراز برتے گی۔ سیاسی استحکام کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو صرف انتخابی مہم ہی نہیں بلکہ سیاسی کھیل کے قواعد و ضوابط یعنی ”کوڈ آف کنڈکٹ“ ترتیب دینے کی بھی اشد ضرورت ہے جسے جتنا جلد طے کر لیا جائے اْتنا ہی بہتر ہوگا

مزید :

رائے -اداریہ -