شورشِ امروز میں محو ِ سرودِ دوش رہ!

    شورشِ امروز میں محو ِ سرودِ دوش رہ!
    شورشِ امروز میں محو ِ سرودِ دوش رہ!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 اس زمانے میں ثبات ہمیشہ ایک تغیر ہی کو رہا ہے اور رہے گا۔کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا، پرنٹ میڈیا کا طوطی بولتا تھا اور خبروں کا ذریعہ صرف اخبارات تھے۔اخبار کے دفاتر میں خوش نویسوں کی ٹولیاں ہوتی تھیں اور کالم نگاروں کے جتھے ہوتے تھے۔اداریہ لکھنا ایک بڑا فن تصور کیا جاتا تھا اور اداریہ نویس کا ”ٹہکا“ پورے اخباری ماحول پر چھایا رہتا تھا۔پھر کمپیوٹر متعارف ہوا اور اس نے سب کچھ تبدیل کر کے رکھ دیا۔

خوش نویسوں کو چھٹی دے دی گئی اور ان کی جگہ کمپوزر آ گئے۔اخبارات کا سارا سٹاف گویا تہہ و بالا ہو کے رہ گیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایک اور تغیر ّ بھی رونما ہوا اور وہ مین سٹریم میڈیا اور ٹی وی کا تعارفی دور تھا جو ایک مختصر ترین عرصے میں سارے ابلاغی ماحول پر محیط ہو گیا۔تین چار عشروں تک اسی ’ماحول‘ کا ڈنکا بجتا رہا اور پھر یہ ڈنکا ایک  اور تیز تر ڈنکے میں تبدیل ہو گیا جس کو ’سوشل میڈیا‘ کا نام دیا گیا۔پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے فل بنچ کی لائیو کوریج پہلی بار ساری دنیا میں دکھائی گئی۔یہ پراسس، سوشل میڈیا ہی کا ایک تسلسل تھی۔اب سنا ہے، ہائی کورٹوں،سیشن کورٹوں اور دوسری ذیلی کورٹوں کی کارروائی بھی لائیو دکھائی جانے والی ہے:

یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین

پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

دنیا کی افواج میں بعض ڈائریکیوریٹس(مثلاً ملٹری آپریشنز ڈائریکٹوریٹ اور ملٹری انٹیلی جنس ڈائریکیوریٹ وغیرہ) بڑے ’خفیہ‘ ڈائریکیوریٹس سمجھے جاتے ہیں،لیکن مجھے یقین ہے،اب خفیہ اور آشکارا کا فرق مٹ جائے گا۔ کور کمانڈرز کانفرنس بھی لائیو دکھائی جائے گی،ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیراعظم کے کانفرنس رومز جو قبل ازیں ’باپردہ‘ تصور کئے جاتے تھے،وہ ’ننگے‘ ہو جائیں گے۔قارئین کو معلوم ہے کہ ملٹری سپیس ٹیکنالوجی نے اب تمام پوشیدگیاں ختم کر دی ہیں۔بغیر پائلٹ کے ہوائی جہازوں کو ڈرون کہا جاتا ہے،وہ ہزاروں کی تعداد میں آپ کی افواج کی بالائی ریکی کر رہے ہیں۔زمین پر کوئی ملٹری بائیک بھی اگر رینگتی ہے تو اس کی تصویر آپ کے دوست دشمن کی نگاہوں کے سامنے آ جاتی ہے۔ یوکرین۔روس کی جنگ کا مطالعہ کیجئے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ سپر پاورز کا وہ امیج جو یو2- جاسوس طیاروں وغیرہ سے عبارت تھا، کس طرح بکھر کر رہ گیا ہے۔ روس،یوکرین کی جس بلڈنگ کو جب چاہے،میزائل کا نشانہ بنا سکتا ہے اور یوکرین بھی ماسکو کی ہر گلی اور کریمیا کی معروف ترین بندرگاہ  سوستاپول میں مقیم ہر آبدوز کو نشانے پر رکھ سکتا ہے۔ یورپ کی یہ ہائی ٹیک (Hi-tech)وار آج اگر رشیا۔یوکرین تک محدود ہے تو کل کلاں دنیا کے کسی بھی حصے میں کیوں دہرائی نہیں جا سکتی؟یہ شاعر لوگ بھی اللہ کے  ولی ہوتے ہیں۔اکبر الٰہ آبادی نے ایک صدی پیشتر پیشگوئی کر دی تھی:

یہ موجودہ طریقے راہی ئ ملک ِ عدم ہوں گے

 نئی تہذیب ہو گی اور نئے ساماں بہم ہوں گے

گزشتہ عظموں کے تذکرے بھی رہ نہ جائیں گے

کتابوں ہی میں دفن، افسانہئ جاہ و حشم ہوں گے

لیکن مقطع میں یہ اعلان بھی کر دیا تھا:

تمہیں اس انقلابِ دہر کا کیا غم  ہے ا ے اکبر

بہت نزدیک ہے وہ دن کہ تم ہو گے نہ ہم ہوں گے

اور کچھ برس بعد حضرتِ اقبال نے بھی اسی حقیقت کو دہرایا تھا:

کھول کر آنکھیں مرے آئینہ گفتار میں 

آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ

یہ ’دھندلی تصویر‘ اب صاف ہو چکی ہے اور مزید آنے والے دور میں شفاف ہو جائے گی…… یعنی وہی بات کہ جو ایک اور شاعر نے ایک اور تناظر میں کہی تھی:

رشکِ آئینہ ہے اُس رشکِ قمر کا پہلو

صاف اِدھر سے نظر آتا ہے اُدھر کا پہلو

بات پرنٹ میڈیا سے چلی تھی اور رشکِ قمر تک جا پہنچی۔…… میں عرض یہ کر رہا تھا کہ’سوشل میڈیا‘ نے آج تمام ابلاغی کائنات کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔اِدھر کوئی واقعہ رونما ہوا،اُدھر جھٹ یو ٹیوب اور فیس بک نے اسے اُچک  لیا اور آپ کے سمارٹ فون کی51/2x31/2 انچ سکرین پر بھیج کر گویا میڈیا کی دوسری تمام اقسام کو موت کی نیند سلا دیا۔اس کے بعد آپ جب بھی اپنا ٹی وی آن (ON)کریں گے تو آپ کو باسی خبریں،باسی تبصرے اور باسی تجزیے دیکھنے اور پڑھنے کو ملیں گے۔ان کے تازہ ورشن سوشل میڈیا کے طفیل ہر کس و نا کس کے پاس چلے جائیں گے۔یہ ”ناکس“ کا لفظ اس لئے لکھا ہے کہ اَن پڑھ شخص بھی اگر صاحب ِ سمارٹ فون ہو تو اسے ملکی، علاقائی اور عالمی خبروں اور تبصروں سے آگاہی ایک معمول بن چکی ہے۔

آج کا صاحب ِ سمارٹ فون، ہر پانچ منٹ کے بعد اپنے فون کی سکرین دیکھنا ’پنج وقتہ نماز‘ سے بھی زیادہ ریگولر ہو کر دیکھتا، سنتا اور پڑھتا ہے۔سکولوں اور کالجوں کے طلبا اور طالبات صراطِ مستقیم بھی دیکھ رہے ہیں اور ان کے لئے گمراہی   کے راستے بھی اَن گنت ہیں۔

ابن ِ آدم اپنے اجدادِ امجد(حضرت آدم اور اماں حو ّا) کے نقش ِ قدم پر چل رہا ہے۔ خدا نے تو ان کو تاکید کی تھی کی زینہار اس درخت کے نزدیک مت جائیو ورنہ…… لیکن ہمارے جد ِ امجد نے شیطان کی بات مانی اور یزدان کی فہمائش بھلا دی۔اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ آپ کو مجھ سے زیادہ معلوم ہے۔آدم اور حو ّا دونوں عرش شے نکالے گئے اور فرش پر پھینک دیئے گئے۔خدا نے آدم و حو ّا کی بلنڈر تو معاف کر دی لیکن یہ معافی، عفو ِ کامل نہ تھی۔ اس نیم معافی نے شیطان کو ایک اور موقع دیا اور اس نے حضرت آدم کو دِلاسا دیا اور کہا:

ہیں تیرے تصرّف میں یہ بادل، یہ گھٹائیں 

یہ گنبدِ افلاک، یہ خاموش فضائیں 

یہ کوہ، یہ صحرا، یہ سمندر، یہ ہوائیں 

تھیں پیشِ نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں 

آئینہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ

اقبال نے بالِ جبرئیل کی اس نظم میں ’شیطان‘ کا ذکر نہیں کیا بلکہ کہا ہے کہ جب اس بہشتی جوڑے (آدم و حوّا) کو زمین پر پھینک دیا جاتا ہے تو روحِ ارضی اس راندہئ درگاہ اور دھتکارے ہوئے جوڑے کا استقبال کرتی ہے اور اسے جینے کے ایک نئے عزم سے سرشار کر دیتی ہے۔اس کی زیادہ تفصیل انگریزی ادب کے ایک معروف شاعر جان  ملٹن(1608ء تا 1674ء) نے اپنی ایک لافانی نظم ’فردوشِ گم گشتہ‘(Paradise Lost) میں کی ہے۔…… اس وقت کا بھٹکا ہوا انسان(آدم) آج بھی حصولِ بہشت میں مارا مارا پھر رہا ہے۔لیکن آسمانِ اول تک پہنچنے کی کوششں میں فی الحال صرف ایک نظام شمسی کے ایک سیارے(چاند) ہی تک پہنچ پایا ہے۔اس سے آگے نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو ایک’سیاہ سوراخ‘ (Block Hole) کا سامنا ہوتا ہے جس میں اِردگرد کی ساری کہکشائیں اور ستارے آ آ کر گم ہوتے جا رہے ہیں۔لیکن پھر بھی یہ ایسا ’نادان‘ ہے کہ اپنی کاوشِ تلاش و جستجو سے باز نہیں آتا اور آسمانی کتابوں اور صحیفوں میں لکھے ہوئے انجام کو پڑھنا اور جاننا نہیں چاہتا۔ اور اسی نقطے پر آ کر اس کی ’مقدورات و محدودات‘ ختم ہو جاتی ہیں …… اللہ بس، باقی ہوس!!

مغرب کا میڈیا اور کتنی ترقی کر لے گا؟…… اپنے سمارٹ فون کے سافٹ ویئر کو اور کتنا ڈویلپ کر لے گا؟…… کتنی عالمی جنگیں اور لڑ لے گا؟…… ہم ایشیاء والے (اور بالخصوص جنوبی ایشیاء والے) یورپی اور امریکی میڈیا سے اور کتنے مرعوب ہو جائیں گے؟……

ہمیں کچھ معلوم نہیں کہ ہمارا بظاہر یہ انحطاط کہاں جا کر رکے گا اور اُن کا بظاہر یہ عروج کب ڈھلنا شروع ہو گا؟…… چنانچہ ہماری مجبوری یہی ہے:

صورتِ آئینہ سب کچھ دیکھ اور خاموش رہ

شورشِ امروز میں محوِ سرودِ دوش رہ

مزید :

رائے -کالم -