دادا نے100 برس سے کچھ زیادہ عمر پائی، وہ ایک بھینس کے ہتھے چڑھ گئے‘ جس نے ان سے اگلے پچھلے حساب چکتے کئے، پھر انہوں نے چارپائی کو ہی اپنا مسکن بنا لیا

 دادا نے100 برس سے کچھ زیادہ عمر پائی، وہ ایک بھینس کے ہتھے چڑھ گئے‘ جس نے ان ...
 دادا نے100 برس سے کچھ زیادہ عمر پائی، وہ ایک بھینس کے ہتھے چڑھ گئے‘ جس نے ان سے اگلے پچھلے حساب چکتے کئے، پھر انہوں نے چارپائی کو ہی اپنا مسکن بنا لیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:50
یہ ہم ہیں 
ہم لوگ جب تک گاؤں میں رہے تین بہن بھائی تھے، دو بعد میں تشریف لائے۔مجھ سے چند منٹ چھوٹی بہن پروین تھی، جوبقول میری ماں کے ہر وقت اپنا’جھاٹا کھلارے‘ دوسری ہمجولیوں کے ساتھ گلیوں میں کھیلتی پھرتی تھی اور اکثر اپنے ہم عمر بچوں کے ہاتھوں اپنی کپڑے کی گڑیا پھڑوا کر یا مار کھا کے بھیں بھیں کرتی گھر آتی اور تھوڑی دیر رو پیٹ کر کوئی دوسرا شغل اپنا لیتی۔ اس کو مر غی کی ہڈیاں چو سنے کا بڑا شوق تھا، گلہری کی طرح وہ ہمیشہ ایک آدھ ہڈی برے وقت کے لیے بچا کر جیب میں رکھتی تھی اور نیند کی حالت میں بھی اس کا ہاتھ اپنے اس قیمتی اثاثے پر ہی رہتا تھا، وہ شفیق کو بغل میں دبائے پورا تحفظ فراہم کیاکرتی تھی اور اسے بھی کبھی کبھار جیب میں رکھی ہوئی ہڈی کا چونڈا لگوا دیتی تھی۔ پڑھنے میں بس گزارا ہی تھا، لڑکیوں کا کوئی سکول بھی نہیں تھا پھر بھی تھوڑا بہت آسرا کر ہی لیا تھا۔
شفیق ہم سے چھوٹا تھا۔اس وقت تو بے ضرر سا بچہ تھا اور اپنی دنیا میں مست تھا اور اس وقت تک مست ہی رہا جب تک کہ اس کا رقیب یعنی ہمارا سب سے چھوٹا بھائی خالد منظر عام پر نہیں آ گیا۔ ابھی تو وہ ویسے بھی کمسن تھا اس لیے اس کے مشاغل قدرتی طور پر مجھ سے مختلف تھے۔آپ کو ابھی تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا جب وہ بڑا ہو گا اور پر پرزے نکالے گا لہٰذا اس وقت تک اس کو اس کے حال پر یعنی ایک کُرتے میں چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں۔
میرے دادا نے100 برس سے کچھ زیادہ عمر پائی، جیسا کہ پہلے مختصر سا ذکر ہوا ہے کہ وہ ایک بھینس کے ہتھے چڑھ گئے تھے‘ جس نے ان سے اگلے پچھلے حساب چکتے کئے، سینگوں سے اٹھا اٹھا کر پٹخا اور پٹخ پٹخ کر اٹھایا اور بعد میں کھر وں سے روند ڈالا۔ ان کو اٹھا کر گھر لایا گیا اور برآمدے میں پڑی چارپائی پر لٹا دیا گیا۔ پھر اسی گاؤں کے نام نہاد سرجن کی ہدایات پر میٹھے تیل کی مالش کی گئی اور پرانی رضائیوں سے روئی نکال کر گرم کر کے باندھی گئی۔ لیکن وہ ٹھیک ہونے تھے، نہ ہوئے، اس کے بعد انھوں نے اسی چارپائی کو اپنا مسکن بنا لیا۔صرف کچھ دیر کے لیے ڈنڈے کی مدد سے باہر نکلتے دوستوں سے ملتے یا آتی جاتی بیل گاڑی پر بیٹھ کر زمین پر آ جاتے اور وہاں حقہّ پیتے رہتے۔مرد مجاہد کی طرح وہ برآمدے میں مورچہ لگا کر ڈٹ گئے اور آخری وقت تک وہاں سے ہلے نہیں۔ ابا جان جب آتے تو ان کو دس روپے دے جاتے جس کا ذکر وہ اپنے دوستوں سے ضرور کرتے۔ کبھی وہ کسی کو کہہ کر میٹھی گولیاں منگوا لیتے اور اکثر ہم بچوں کو دکھا دکھا کر اپنے پاس بلاتے، پیار کرتے اور کہتے میرے پاس بیٹھ کر باتیں کیا کرو۔ ان کو بڑی تنہائی محسوس ہوتی ہو گی۔ لیکن ہم بھی مجبور تھے جتنا وقت ہم نے وہاں بیٹھ کر ”ضائع“ کرنا تھا اس میں اپنے یاران وطن کے ہمراہ کئی معرکے سر کرنے ہوتے تھے۔ ان کو اشارے سے بتاتا کہ میں پانی پی کر آتا ہوں اور جہاں پانی کے گھڑے رکھے ہوتے تھے اس کے ساتھ ہی باہر کا راستہ تھا، وہ دیکھتے ہی رہ جاتے تھے۔
دادا بہت رنگین مزاج تھے، موسیقی سے لگاؤ تھا، جب تک حالات زیادہ خراب نہیں ہوئے تھے تو وہ نئے گھر میں اپنی چارپائی وہاں لگواتے جہاں کھوئی سے پانی بھرتی مٹیاریں صاف نظر آتی تھیں۔ آنکھوں میں موتیا اتر آیا تھا لیکن دل اپنی جگہ قائم تھا، اس لیے پانی کھینچنے والیوں کی چوڑیوں کی چھنکار اور گھڑے بھرنے کی آواز سے ہی خوش ہو جاتے تھے۔ آگے چل کر وقت کے ساتھ جب مجھے بھی صنف نازک کی موجودگی اچھی لگنے لگی تو میں نے بھی شام ڈھلے ان کی چارپائی پر بیٹھنا اپنا مشغلہ بنا لیا۔ پانی بھرتی ہوئی لڑکیوں میں غیر معمولی دلچسپی دیکھ کر ماں کی نظر میں میرا کردار مشکوک قرار پایا اور وہ مجھے وہاں دادا جان کے ساتھ بیٹھا دیکھ کر برملا ناراضگی کا اظہار کرتیں اور ساتھ ہی ان کو بھی لپیٹ لیتیں، کہتی تھیں کہ یہ غالباً دنیا کے پہلے دادا پوتا ہیں جو ایک جگہ ایک ساتھ بیٹھ کر ایک ہی شوق کی تکمیل کرتے ہیں۔
دادا کا ذکر ہوا تو دادی کیوں پیچھے رہے۔ وہ نابینا تھیں اور مسلسل بولنے کے علاوہ ساتھ ساتھ دوسرے روز مرّہ کے کام بھی کر لیتی تھیں جن میں بلاتھکان دادا کو جلی کٹی سنانا بھی شامل تھا جس میں وہ انھیں احساس دلاتی رہتی تھیں کہ انھوں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کیوں لے لی ہے۔ہم ان کے ساتھ بھی شرارتیں کرتے تھے اور انھیں چھیڑ کر اِدھر اُدھر ہوجاتے۔ لیکن اللہ نے ان کو چھٹی حس ایسی دی تھی کہ وہ سیدھی اسی مقام پر جھپٹتی تھیں جہاں ہم چُھپے ہوئے ہوتے تھے۔کبھی فرار ہونے میں ذرا سی تاخیر ہو جاتی تو ان کے ڈنڈے کا شکار بھی ہو جاتے تھے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -