جب ان کہی باتیں زبان پر آنے سے پہلے ہی دلوں میں اتر جائیں تو انسان وقت کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے

مصنف:یاسمین پرویز
قسط:20
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
شاہراہ زیست پر قدم بڑھاتے ہوئے بعض مرتبہ ہماری کسی ایسے اجنبی چہرے سے ملاقات ہو جاتی ہے جو پل بھر میں اجنبیت کی ساری دیواریں گرا کر شناسائی و قربت کا ایسا رشتہ قائم کرنے کا موجب بن جاتا ہے جو لگتا ہے صدیوں پر محیط ہو۔
ماہ ستمبر کی ایک سہانی صبح جب میں کوئین میری کالج لاہور کے سٹاف روم میں داخل ہوئی تو جس ہستی نے سب سے پہلے آگے بڑھ کر بڑے تپاک اور والہانہ پن سے میرا استقبال کیا، وہ آج بھی میرے دل پہ نقش ہے۔ من موہنی مسکراہٹ کی مالک اور پرکشش شخصیت کی حامل، یہ شمع محمود تھی۔ جس کی دلآویز ہستی کے سحر نے مجھے پل بھر میں اپنے حصار میں لے لیا۔ سچ تو یہ ہے کہ آج تک میں اس حصار سے نکل نہیں پائی۔
شمع کی قربت میں وقت گویا پر لگا کر اڑ جاتا۔ اس کا تعلق میرے ہی شعبے سے تھا اور وہ میری ہم منصب بھی تھی۔ یہ علیٰحدہ بات ہے کہ مسند دل پہ وہ بہت اونچے مقام پہ فائز تھی۔ دن کا بیشتر حصہ تو درس و تدریس میں گزر جاتا اور جو وقت باقی بچ جاتا وہ ہمارے لیے ناکافی ٹھہرتا۔ مگر اس حقیقت سے بھی مفر نہیں کہ جب ان کہی باتیں زبان پر آنے سے پہلے ہی دلوں میں اتر جائیں تو ایسے میں انسان وقت کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آج بھی فضاؤں میں ہماری سرگوشیاں بکھری پڑی ہوں۔ ہوائیں جب جلترنگ بجاتی میرے قریب سے گزرتی ہیں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئین میری کالج کے احاطے میں 2دوستوں کی دوستی اور محبت کی انمٹ داستان سنا رہی ہوں۔ لبوں پہ مسکراہٹ بکھیرتی یہ فضائیں میری پلکیں نم کر دیتی ہیں اور میں کتاب ماضی کے اوراق پلٹنے لگتی ہوں۔
عہد جوانی کے ساتھ جذبہ و ولولہ ہی نہیں امنگ اور خواب بھی منسلک ہوتے ہیں۔ ہماری پلکوں پہ سجے یہ خواب ہمیں اپنے سحر میں یوں جکڑتے ہیں کہ ساز دل پہ ابھرنے والا ہر نغمہ، پلکوں کی چلمن میں سجا ہر خواب، ہر ان کہی بات، محرم راز کی آرزو میں سرگرداں رہتی ہے اور پھر جب یہ تلاش اپنی منزل پا لیتی ہے تو پھر یہ طمانیت وجود کو نہال کر دیتی ہے۔
ماہ و سال کی گرد ہماری دوستی کے تابناک چہرے کو کبھی دھندلا نہ سکی۔ وقت کے بہتے دھارے نے البتہ ہمیں زندگی کے اس دوراہے پہ لا کھڑا کیا جہاں سے ایک نئے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ اب اس کی شناخت شمع شوکت تھی اور اس نئے بندھن میں بندھنے کے بعد وہ تو اسی شہر لاہور میں رہی مگر مجھے یہ شہر چھوڑنا پڑا۔ فاصلے اگرچہ دلوں کی قربت میں حائل نہ ہو پائے مگر حالات کے تقاضے بدل گئے۔ فسانہئ دل سنانے کو اب طویل انتظار سے گزرنا پڑتا۔ شہروں کے فاصلے ملاقات کی راہ میں حائل ہو گئے اور پھر ایک دن اس اندوہناک خبر نے میرا وجود کرچی کرچی کر دیا کہ وہ اس سفر پہ روانہ ہو گئی ہے جس پہ اگرچہ ہم سب نے جانا ہے، مگر یوں پل بھر میں وہ ابدی جدائی سے ہمکنار کر دے گی، یہ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔(جاری ہے)
نوٹ:نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)