وزیراعظم کا یو این جنرل اسمبلی سے خطاب
وزیراعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ (یو این) کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صرف اسرائیل کی مذمت سے کام نہیں چلے گا بلکہ فلسطینیوں کی نسل کشی اور اسرائیلی خونریزی روکنا ہو گی،غزہ میں بچے زندہ جل رہے ہیں، اُن کا خون صرف اسرائیلی فوج پر ہی نہیں ہے بلکہ اِن مظالم پر اس کا ساتھ دینے اور خاموش رہنے والوں کے ہاتھوں پر بھی ہے، غزہ میں مصائب ختم کرنے کے لیے فلسطین کے دو ریاستی حل کی ضرورت ہے، وہ ریاست جس کا دارلخلافہ الشریف القدس ہو۔انہوں نے فلسطین کو فوری طور پر اقوامِ متحدہ کی مستقل رکنیت دینے کی بات بھی کی۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ اب لبنان میں بھی اسرائیلی جارحیت شروع ہو گئی ہے جس سے خطے میں بڑی جنگ کا خطرہ بڑھ گیا ہے،غزہ سمیت عالمی تنازعات سے نئے ورلڈ آرڈر کی گونج سنائی دے رہی ہے، فلسطین اور کشمیر میں قتل ِ عام، ہر روز ”نئی جہنم“ کو جنم دیتا ہے لیکن دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، اقوام متحدہ کی قراردادوں پرعملدرآمد میں ناکامی نے مشرقِ وسطیٰ کو مزید خطرات سے دوچار کر دیا ہے،اسرائیل کو اپنی جارحیت بڑھانے کی کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے، مسئلہ کشمیر بھی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے،یہ طے ہوا تھا کشمیریوں کو حق ِ خودارادیت دیا جائے گا۔اُنہوں نے مطالبہ کیا کہ کشمیریوں کو حق ِ خود ارادیت دیا جائے، فلسطین کی طرح مقبوضہ وادی کے لوگ بھی ایک عرصے سے آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں، وہاں بھارت کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں،بھارتی جبر کے باوجود کشمیری برہان وانی کے نظریئے کو آگے بڑھا رہے ہیں،انسانیت سوز بھارتی مظالم دنیا کی توجہ کے طلب گار ہیں۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ 5 اگست 2019ء کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی، وہاں باہر سے لوگوں کو لاکر آباد کیا جا رہا ہے تاکہ مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جا سکے، خطے میں اَمن کے لیے بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں یکطرفہ اقدامات ختم کرنا ہوں گے۔ شہباز شریف نے واضح کیا کہ پاکستان پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتا ہے تاہم کسی بھی بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ اُنہوں نے تحریک طالبان پاکستان اور افغان عبوری حکومت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں داعش، القاعدہ اورتحریک طالبان پاکستان (فتنہ الخوارج) اَمن کے لیے خطرہ ہیں، پاکستان کو بیرونی امداد سے ہونے والی دہشت گردی کا سامنا ہے جس کے خلاف لڑتے ہوئے پاکستانیوں نے بہت قربانیاں دی ہیں، 80 ہزار پاکستانی شہید ہو چکے ہیں،اِس نے ایک بار پھر سر اُٹھایا ہے، اِس وقت بھی فتنہ الخوارج کی دہشت گردی کا سامنا ہے تاہم دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے پاکستان پُرعزم ہے۔ اُنہوں نے دنیا کی توجہ موسمیاتی تبدیلیوں کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ یہ تبدیلی عالمی سطح پر اہم چیلنج ہے، دوسال قبل تباہ کن سیلاب سے پاکستان میں 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا،عالمی شراکت داروں کے ساتھ مل کر پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کے لیے پُرعزم ہیں تاہم 100 سے زیادہ ترقی پذیر ملک قرضوں کے چنگل میں ہیں، عالمی مالیاتی نظام میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔ قابل ِ ذکر بات یہ ہے کہ وزیراعظم کے خطاب کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنا تھا لیکن پاکستان، ایران، لبنان اور فلسطین سمیت کئی ممالک کے وفود نے ان کے خطاب کا بائیکاٹ کیا اور احتجاجاً ہال سے باہر چلے گئے۔ وزیراعظم نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ہر مسئلے پر بات کی اور پُرزور انداز میں کی،اُنہوں نے اقوام متحدہ کے سامنے فلسطین میں جاری اسرائیلی بربریت ختم کرانے کا مطالبہ کیا،اسرائیل کا ساتھ دینے والے اتحادیوں کو باور کرایا کہ وہ بھی فلسطینیوں کی نسل کشی میں شریک ِ جرم ہیں۔ اقوامِ متحدہ پر لازم ہے کہ اِن تمام تنازعات کے حل کی طرف توجہ دے، اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کرائے، بھارت کو مجبور کرے کہ وہ کشمیریوں کی منشاء کے مطابق فیصلہ کرے۔اس کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی بھی بہت بڑے مسائل میں سے ایک ہے جس کے بارے میں دنیا کو فوری طورپر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان سمیت بہت سے ترقی پذیر ممالک سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں،اُنہوں نے عالمی مالیاتی نظام پر بھی تنقید کی۔ وزیراعظم کے خطاب کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اُنہوں نے پاکستان کا موقف واضح اور دو ٹوک انداز میں اقوامِ عالم کے سامنے رکھ دیا ہے۔اُن کی کسی بھی بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا، اسرائیل فلسطین سے نکل کر اب لبنان پر بھی حملے کر رہا ہے،اِس سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ وہ جنگ میں توسیع چاہتا ہے،اِس میں یہ زعم پیدا ہو چکا ہے کہ اِس کو کوئی نہیں روک سکتا جو کہ بظاہر تو درست ہی نظر آ رہا ہے، گزشتہ روز یہ خبر گردش کر رہی تھی کہ اسرائیلی حملے میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کو شہید کر دیا گیا، جس کی پہلے تو ان کی جماعت کی طرف سے تردید ہوتی رہی لیکن پھر شام کے وقت تصدیق کر دی گئی۔ یہ انتہائی مشکل صورتحال ہے،ایسے میں عالمی دنیا کو مداخلت کرنے کی ضرورت ہے۔اقوام متحدہ کو بھی اپنے کردار پر غور کرنا چاہئے اور اس کو موثر بنانے پر زور دینا چاہئے۔مسئلہ فلسطین میں ویٹو پاور کا استعمال بھی انتہائی بھونڈے انداز میں کیا گیا، ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ جنگ بندی کے خلاف اسے استعمال کیا گیا۔اِس وقت لازم ہے کہ دنیا میں اَمن قائم کرنے کے لئے پوری عالمی برادری مل کر بیٹھے، ایسا لائحہ عمل طے کرے جس سے طاقتور ممالک کو اپنی من مانی کرنے سے روکا جا سکے، ان کو ظلم سے باز رکھے، کمزور کو تحفظ فراہم کرے۔ اگر اب بھی فوری طور پر اِس طرف توجہ نہ کی گئی تو پھر مستقبل میں اَمن کی ضمانت کوئی بھی نہیں دے سکے گا۔