توہینِ عوام کا بھی کوئی تصور ہے
ہمارے ملک میں ”نعروں“ کی ہمیشہ ایک خاص حیثیت رہی ہے، ”پاکستان کا مطلب کیا“ سے یہ سلسلہ شروع ہوا اور اب تک جاری ہے، بس مختلف ادوار کے معروضی حالات کے پیش نظر یہ مختلف شکلیں اختیار کر لیتا ہے۔ کبھی انتخابات کے بعد جْھرلو پِھرنے کا نعرہ تو کبھی شخصیات کی پروموشن، ہم نے ملت کا محبوب کا نعرہ لگایا، نوکر شاہی مردہ باد کی گونج سُنی۔ سوشلزم، ایشیاء سرخ ہے، روٹی، کپڑا اور مکان، جیئے بنگلا جیسے نعرے عام ہوئے، مولوی ہلچل، اسلامی نظام، طاقت کا سر چشمہ عوام، گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو کی آوازیں بھی سنائی دیں۔ فخرِ ایشیاء، قائدِ عوام، نظام ِمصطفٰی ٰ، بھٹو زندہ ہے، مرد ِمومن مرد ِحق، جاگ پنجابی جاگ، بے نظیر بے قصور، بھٹو دے نعرے وجن گے، میاں دے نعرے وجن گے، سب سے پہلے پاکستان، ظالمو قاضی آ رہا ہے، دیکھو دیکھو کون آیاشیر آیا، شیر آیا، ایک زارداری سب پر بھاری، عدلیہ کی آزادی، پاکستان کھپے، جمہوریت بہترین انتقام، بھٹو کی بیٹی آئی ہے، اگلی باری پھر زرداری، نیا پاکستان، روشن پاکستان، پرانا پاکستان، امپورٹڈ وزیراعظم، توہین عدالت، ففتھ جنریشن اور ہائبرڈ وار فیئر اور سیاست نہیں ریاست بھی زبان زد عام رہے۔ دیکھا جائے تو ہر نعرے میں ایک دور بسا ہے، وقت بدلتا ہے، نعرے بدلتے ہیں، اِن سے ملک میں وقوع پزیر ہونے والے مختلف واقعات اور ادوار کا بخوبی احاطہ کیا جا سکتا ہے اور لوگوں کے جذبات کو جانچا بھی جا سکتا ہے۔ حال ہی میں دو نئے نعرے منظر عام پر آئے ہیں، پہلا ”ہمارا پاکستان“ اور دوسرا ”توہینِ پارلیمنٹ“ جو کافی مشہور بھی ہو رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے اِس دور میں یہ نعرے ٹرینڈ کی صورت اختیار کر کے دنیا بھر میں پھیل جاتے ہیں۔
ویسے تو ہر نعرے میں ایک کہانی چھپی ہے لیکن جو نعرہ سیاسی قائدین کے لئے سب سے خطرناک ہے وہ ”توہین عدالت ”ہے۔ اِس کی بازگشت ہمیشہ سے ہی سْنی جاتی رہی ہے، دنیا کے بہت سے ممالک میں توہین عدالت کا تصور ختم ہو چکا ہے لیکن پاکستان میں یہ اصطلاح نہ صرف رائج ہے بلکہ اِس کا ہتھوڑا منتخب وزیراعظموں کو بھی گھر بھجوا چکا ہے۔ حال ہی میں آزاد کشمیر کے پاکستان تحریک انصاف کے وزیراعظم کو توہین عدالت میں گھر بھجوایا گیا، اِس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی کو بھی اِسی جرم کی پاداش میں سزا سنائی گئی جس کی وجہ سے وہ سیاست کے ایوان سے باہر ہو گئے۔ بات دراصل یہ ہے کہ عدالت کو ہر کوئی مقدم جانتا ہے اور اْس کی عزت بھی کرنا چاہتا ہے، اُس کی تکریم پر حرف بھی نہیں آنے دینا چاہتا لیکن کبھی کبھی دل بھر ہی آتا ہے ایسے میں اگر کچھ منہ سے نکل جائے اور لگ بھی جائے تو پھر خاصی مشکل ہو سکتی ہے۔ نہال ہاشمی اور طلال چوہدری کی سزائیں تو سب کو یاد ہی ہوں گی تاہم اِس کے برعکس کئی کیسوں میں اِسی ڈر کی وجہ سے عدالت کے کہے پر عملدرآمد بھی ہوا۔
لیکن آجکل عجیب صورتحال پیدا ہو چکی ہے، پارلیمنٹ پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کرانے کے عدالتی فیصلے کو مانتی نظر نہیں آتی، فیصلے پر تین، دو اور چار، تین کی بحث جاری ہے۔ اسی لئے آج کل ”توہین پارلیمنٹ ”کا نعرہ بج رہا ہے، بلاول بھٹو زرداری نے انتخابات کے لیے فنڈز جاری کرنے سے متعلق عدالتی فیصلے کو ”توہین پارلیمنٹ“ قرار دے دیا۔اب بال توہین عدالت اور توہین پارلیمنٹ کے بیچ ٹھوکریں کھا رہی ہے۔ عام رائے یہی ہے کہ توہین عدالت سے بچنے کے لیے وزیراعظم صاحب نے قومی اسمبلی کے اراکین اسمبلی کو کھانے کی چھ ”مین اور تین سویٹ ڈِشوں“ پر مشتمل پر تکلف ظہرانہ دینے کے بعد اعتماد کا ووٹ بھی لے لیا،180 اراکین قومی اسمبلی نے اْن پر اعتماد کا اظہار کیا تاہم اصل معاملہ یہ ہے کہ وزیراعظم کو آئینی اور قانونی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا کیونکہ پنجاب میں انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے جاری کیے جانے سے متعلق قائمہ کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیش کی تھی جسے کثرت رائے سے مسترد کر دیا گیا تھا۔ اخراجات کی تحریک (فنانس بِل) مسترد ہو جائے تو وزیراعظم کی آئینی اور قانونی پوزیشن پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے اور انتخابات سے متعلق کیس تو پہلے ہی عدالت میں زیر بحث ہے، عدالت کے روبرو اِس پہلو پر بحث چھڑ جاتی ہے تو وزیراعظم کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ حکومت پر عدالتی حکم نہ ماننے پر توہین عدالت لگوانے سے متعلق تحریک انصاف کے خواجہ طارق رحیم اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے درمیان قانونی نکات پر گفتگو کی آیڈیو بھی منظر عام پر آ چکی ہے جبکہ چیف جسٹس کی ساس صاحبہ کی آڈیو پر تو عید کے دنوں میں خوب بحث ہوئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قومی اسمبلی کے فلور پر بھی اِس کی بازگشت سنی گئی جب ایک معزز رکن اسمبلی نے سوؤ موٹو کو ”ساسو موٹو“ کا نیا نام دے دیا گیا۔ اْمید ہے توہین پارلیمنٹ کے داعیوں کی گفتگو سے کسی اور کی توہین نہیں ہوئی ہو گی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنی اپنی ”توہین“ کے داعی دوسروں کے لئے نازیبا الفاظ استعمال کرنے سے باز نہیں آتے، نہ جانے اُس وقت اخلاقیات کہا ں جا کر سو جاتی ہے۔ اب پارلیمنٹ کی توہین کا راگ الاپنے والے خود اسمبلی فلور پر ٹریکٹر ٹرالی اور چور،چور سے بھی بدتر الفاظ اور القابات استعمال کرتے ہیں، اب ایسے لوگ یہ توقع رکھیں کہ کوئی دوسرا اْن کی عزت کرے گا تو دل میں یہی خیال آتا ہے ”دیکھ میری سادگی میں کیا چاہتا ہوں“۔ جو خود اپنی عزت نہ کرتے ہوں، کسی ممبر کا مان نہ رکھ پائیں، ہر ممکن طریقے سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ہی مقصد حیات سمجھیں، دشمنی ایسی کہ ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا تو درکنار کلام بھی نہ کریں، ایک دوسرے کے گھربھی محفوظ نہ رہنے دیں، اپنے ہی ووٹر کے ساتھ اں صاف نہ کرتے ہوں، عوام حقوق کا تحفظ اْن کی آخری ترجیح ہو، اپنا مسئلہ ہو تو دن رات اجلاس چلتے رہیں اور چند گھنٹوں میں قوانین پاس ہوں لیکن عوام کے معاملات مہینوں اور سالوں زیر بحث نہ آ سکیں، کارکردگی صرف مخالفین پر مقدمات بنانا رہ جائے تو پھر کیسی عزت اور کیسی توہین؟ وزیراعظم صاحب نے اعتماد کا ووٹ لے کر دھواں دھار تقریر کی، مخالفوں کو خوب لتاڑا، 2018ء کے انتخابات سے پہلے اور بعد سے اب تک کے حالات پر اپنا تفصیلی موقف بیان کیا لیکن مجال ہے کہ عوام کا مستقبل سنوارنے سے متعلق حکمت عملی کا ایک لفظ غلطی سے بھی ادا ہوا ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک دوسرے سے کلام تک نہ کرنے والوں نے مذاکرات شروع کر دیے ہیں، ایک فریق کی خواہش ہے کہ جلد از جلد انتخابات ہوں جائیں تاکہ اْس کی جیت یقینی بن جائے جبکہ دوسرا تاخیر چاہتا ہے کہ یہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے اْس کے جیتنے کے امکانات میں پھر سے جان پڑ سکتی ہے، اقتدار کے لیے اب دونوں فریق اکٹھے بیٹھنے کو بھی تیار ہو گئے۔ عام آدمی سوچتا تو ضرور ہو گا کہ اْس کے مسائل کے حل کے لیے کب سیاسی جماعتیں مذاکرات کریں گی؟ کیا کہیں ”توہین عوام“ کا بھی کوئی تصور ہے، جس کے سر پر حکمران قائم و دائم ہیں، جس کے دم سے جمہوریت کا حسن ہے اْس کی کسی کو پرواہ ہی نہیں ہے۔ اب عوام کو بھی سمجھ لینا چاہئے، اپنی پسندیدہ شخصیات کی اندھی تقلید چھوڑ کر صرف اور صرف کارکردگی کی بنیاد پراپنے نمائندے منتخب کریں، کام جوئے شیر لانے کے مترادف تو ہے لیکن ہمت مرداں۔۔۔مدد خدا!!!