انتہا پسندی

دو دن پہلے کسی دوست نے مجھے ایک کتاب دی، جس کا عنوان تھا، ’’قرار دادِ لاہور کس نے لکھی‘‘؟۔۔۔ اس کتاب میں مختلف لکھنے والوں کے سولہ مضمون و ابتدائیہ اور حوالہ جات کے اقتباسات ہیں۔ جیسا کہ کتاب کے نام سے ظاہر ہے ان مضامین میں 1940ء کی قرار دادِ لاہور کو زیر بحث لایا گیا ہے جو بعد ازاں قرار داد پاکستان کہلائی۔ یہ تمام مضامین جواب آں غزل کے جذبے سے لکھے گئے ہیں، جن میں ایک دو مضمون ایسے ہیں جو معروضی نقطۂ نظر کے قریب ہیں،جبکہ بقیہ جواب الحواب کے زمرے میں آتے ہیں،مگر پریشان کن امر یہ ہے کہ کتاب کا وہ مضمون اور ٹی وی انٹرویو کا حصہ جس پر یہ ساری بحث شروع ہوئی کا انحصار انتہائی بودے ریفرنس یعنی عبدالولی خان کی کتاب۔۔۔ Facts are Facts۔۔۔ پر ہے۔ یہ کتاب اور صاحب کتاب اس وجہ سے بھی متنازعہ رہے ہیں کہ صاحب کتاب کا ایک تعلق خاص مکتب فکر سے تھا، جس کے نزدیک قیام پاکستان ان کے ساتھ بہت بڑی زیادتی کی بات تھی، کیونکہ پاکستان بن جانے سے نہ صرف ان کی اپنی سیاسی وخاندانی حیثیت متاثر ہوتی،بلکہ بلوچستان ، خیبرپختونخوا اور افغانستان کے یک نسلی لوگوں کے ایک ملک میں یکجا ہونے کے امکانات بھی ختم ہوگئے۔ اس خطے کی نسلی یکجائی کی تاریخی حیثیت کیا ہے؟ یہ ایک الگ بحث ہے، مگر سوچ کا یہ انداز ان دیگر تمام مسلم زعماء سے مختلف ہے، جنہوں نے پاکستان کی مخالفت اس وجہ سے کی کہ ان کے نزدیک اس طرح مسلمانوں کی طاقت منتشر اور برصغیر میں ان کی اہمیت کم ہونے کا خدشہ تھا اور اس صورت میں ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے لئے ناقابل بیان مصائب منہ کھولے کھڑے تھے۔
عبدالولی خان نے اپنے مخصوص موقف کی تائید میں دلائل جمع کرنے کے لئے ایک ایسے خط کو بنیاد بنایا ہے جو وائسرائے ہند نے 12جون 1940ء کو وزیر امور ہند کو لکھا تھا۔ اس طرح انہوں نے یہ بیانیہ ترتیب دینے کی شعوری کوشش کی کہ ’’پاکستان انگریز کی لڑاؤ اور حکومت کرو پالیسی کا نتیجہ اور انگریز کی منشا کے مطابق وجود میں آیا۔1940ء کی قرار دادِ لاہور وائسرائے کی منظوری کے بعد 23مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ جلسہ لاہور میں پیش کی گئی۔ عبدالولی خان کے اس مبینہ الزام کی تائید کسی دیگر ذریعے سے کبھی نہیں ہوئی۔ان کے اس موقف کے حوالے سے افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ انہوں نے خط کی عبارت میں اپنے موقف کے مطابق تحریف و اضافہ کرکے بات بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس کتاب کے رد میں سب سے اہم دستاویز زاہد چودھری اور حسن جعفر زیدی کی معرکتہ الارا 12جلدوں پر مشتمل کتاب ’’پاکستان کی سیاسی تاریخ ہے‘‘۔ اس کتاب کی جلد نمبر 5میں 12جون 1940ء کا اصل خط اور اس کا ریفرنس پیش کیا گیا ہے اور تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ اصل خط اب بھی انڈیا آفس لائبریری میں موجود ہے۔
عبدالولی خان نے بغیر ریفرنس یہ خط تحریف واضافے کے بعد اپنی کتاب میں شائع کیا اور اس طرح برصغیر کے مسلمانوں کی اس ساری جدوجہد کو رد کرنے کی کوشش کی،جوانہوں نے قیام پاکستان کے لئے کی،اس طرح انہوں نے پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی شعوری کوشش میں ایک ایسا بیانیہ ترتیب دیا جو حقائق کے سراسر منافی ہے۔ یہ تحریف واضافہ شعوری تھا یا سہواً اس کا حال اللہ جانتا ہے، مگر اب تحقیق سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ انگریز سرکار نے حتیٰ الامکان کوشش کی کہ برصغیر تقسیم نہ ہو۔ اس مقصد کے لئے ہر ہتھکنڈا استعمال کیا گیا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے باوجود بیماری اور نامساعد حالات کے تمام ریاستی و غیر ریاستی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کیا اور اپنے رفقا کے ساتھ مل کر مسلمانان ہند کے لئے ایک الگ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ انگریز کی پاکستان مخالف سوچ کے پیچھے اہم ترین وجہ کمیونسٹ روس کا خوف تھا۔ انگریزوں کے نزدیک کمیونزم کے خلاف جنگ میں متحدہ ہندوستان ضروری تھا۔ ان کے مطابق پاکستان کے مجوزہ علاقے اس قابل نہیں تھے کہ وہ ایک مضبوط فوج کا خرچ اٹھا سکیں اور اس طرح اقتصادی طور پر کمزور اس ملک کے کمیونزم کی گود میں جانے کے امکانات زیادہ تھے اور ان کے نزدیک یہ ملک اقتصادی اور دفاعی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں تھا۔
مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان ابتدائی اختلافات تو معاشی و سیاسی معاملات پر ہی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مسلم لیگ کی تشکیل کے بعد کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان ہونے والے سمجھوتوں کا موضوع سیاسی و معاشی معاملات ہی ہیں، مگر جیسے جیسے مقامی لوگوں کے اختیارات میں اضافہ ہوتا گیا، ہندو کی ذہنیت بھی آشکار ہوتی گئی اور گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت ہونے والے پہلے انتخاب کے بعد بننے والی کانگریسی حکومتوں کی مسلم دشمنی نے ہندو مسلم اتحاد کے تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دی، جب مسلمانوں کو احساس ہونے لگا کہ اب اس ملک میں ان کا مذہب بھی محفوظ نہیں۔ یہی وہ پس منظر تھا جو قرار داد لاہور کا محرک بنا۔ مستند حوالوں سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ قرار دادِ لاہور کا مسودہ 21مارچ کی رات کو نواب افتخار حسین ممدوٹ کے مکان پر چار اشخاص نے تیار کیا۔ یہ چار لوگ تھے قائداعظم محمد علی جناحؒ ، نواب محمد اسماعیل خان، سرسکندر حیات خان اور ملک برکت علی۔
کیا قیام پاکستان سیاسی غلطی تھی؟ کیا ہمیں بطور مسلمان اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے؟ ان سوالات کا جواب کسی شخص کے پاس نہیں، صرف وقت کے پاس تھا اور وقت نے وہ جواب دیا بھی ہے۔ کیا آج بھی ہمیں کسی مزید جواب کی ضرورت ہے۔ بھارت کے موجودہ حالات اس ضمن میں اٹھائے گئے تمام سوالات کا واضح جواب ہیں۔ یہاں یہ کہنا بھی غلط ہوگا کہ تقسیم کے بعد مسلمان وہاں تعداد میں کم رہ گئے ہیں، اس لئے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ ہم یہ کیوں بھول گئے ہیں کہ نہرو رپورٹ اور اس کے بعد آنے والی کانگریس کی صوبائی حکومتوں کے وقت تو ہم متحدہ ہندوستان میں ہی تھے اور مرکزی حکومت بھی ہندوؤں کی نہیں، بلکہ انگریز کی تھی، پھر بھی کیوں ہم سکولوں میں بندے ماترم اور مورتی پوجا کو نہیں روک سکے تھے۔حال ہی میں سبکدوش ہونے والے بھارت کے مسلمان نائب صدر کا یہ بیان کہ ’’بھارت میں مسلمان خود کو محفوظ نہیں سمجھتے‘‘ بہت کچھ بتادیتا ہے۔ تشکیل پاکستان کے بعد ہم سے سرزد ہونے والی غلطیوں کے لئے تقسیم ہند کو غلط نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ رہی بات قرار داد پاکستان کے حوالے سے حقائق کے منافی تحریروں اور بیانات کی تو مجھے ذاتی طور پر صرف ایک بات کا دکھ ہے کہ جن لوگوں کے سیاسی عزائم اور تھے اور پاکستان ان کے راستے میں رکاوٹ بنا،چاہے وہ کوئی بھی تھے اور یقیناً کئی ایک تھے، وہ حقائق کو مسخ کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے، مگر مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ اپنی تحریروں اور خیالات کے لئے ایک عالم میں مشہور پچاسیوں کتابوں کے مصنف اور ان کے پیرکاروں کو کیا ہوا کہ ایک خلاف واقع بات کے دفاع میں اس طرح میدان میں آتے کہ تحقیق و تنقید کے مروجہ تمام ضوابط کو فراموش کردیا۔
اس مضمون کے اختتام پر صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کی تحریروں کو میرے جیسے بہت سے لوگ مستند گردانتے ہیں، لہٰذا سند کے ساتھ لکھنا ہی زیادہ مناسب ہے، ورنہ ضرورت سے زیادہ روشن خیالی بھی شاید اسی انتہا کی طرف لے جاتی ہے، جس کے خلاف آپ کی ساری زندگی جدوجہد کرتے گزرگئی۔صرف مذہبی یا لسانی انتہا پسندی کو انتہا پسندی کہنا صورتِ حال کی مکمل عکاسی نہیں کرتا۔ ان انتہاؤں کی مخالفت میں بھی اعتدال کے راستے سے ہٹنا انتہا پسندی ہی ہے۔ تحریک پاکستان کے حوالے سے صرف اتنا ہی عرض کرنا چاہوں گا کہ اس سیاسی جنگ میں مسلمانوں کا سپہ سالار وہ شخص تھا، جسے اپنے زمانے کا سب سے مہذب اور روشن خیال شخص گردانا جاتا ہے۔ یقیناایسے کچھ تو عوامل تھے، جنہوں نے اسے 1916ء کے لکھنو معاہدے سے 1940ء کی قرار دادِ لاہور تک آنے کا شعور دیا۔ حقائق یہی ہیں کہ یہ مسلمانوں کے سیاسی، معاشی اور مذہبی حقوق کی جنگ تھی،جس نے قائداعظم محمد علی جناحؒ اور ان کے رفقا کو یہ راستہ سجھایا تھا۔ رہی تشکیل پاکستان کو برطانوی منصوبہ کہنے والوں کی بات تو انہیں چاہیے کہ وہ قائداعظم محمد علی جناحؒ اور برطانوی حکمرانوں کے تعلقات پر ایک نظر ڈال لیں۔ حقیقت خود بخود واضح ہو جائے گی۔