"بس بہت ہو گیا، اب تاخیر کی گنجائش ہے نہ غلطی کی" ماحولیاتی تبدیلی کے پہلے بڑے سائنسی جائزے کی لمبی چوڑی رپورٹ کے دو جملوں نے امیر ملک اور مغربی دنیا کی تو نیندیں اُڑا کر رکھ دی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے سائنسدانوں نے وارننگ جاری کی ہے کہ گیسز کا اخراج موجودہ رفتار کے مطابق جاری رہا تو ایک دہائی میں درجہ حرارت کی حد کے تمام ریکارڈ ٹوٹ سکتے ہیں، اسی طرح اس صدی کے اختتام تک سمندر کی سطح میں دو میٹر تک اضافے کے خدشے کو ’رد نہیں کیا جا سکتا۔
اپنے علم و تجربے اور شعور کی بدولت مغربی دنیا طویل عرصے سے ماحولیاتی تبدیلی پر بحث و مباحثہ کر رہی ہے۔ کانفرنسز ہو رہی ہیں،سوشل میڈیا پر ٹرینڈز چلائے جا رہے ہیں۔ اس عالمی مسئلے کی طرف دنیا کی توجہ دلانے کے لئے ایک اہم قدم یہ اٹھایا گیا ہے کہ گلاسگو میں ہونے والی انوائرمنٹ میٹنگ COP26 میں ملکہ برطانیہ کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔ملکہ صاحبہ نے وہاں آنے کی حامی بھی بھر لی ہے۔ COP26 نے جب ملکہ برطانیہ کی شرکت کی ٹویٹ کی تو بعض لوگوں نے طرح طرح کے ایموجیز کے ذریعے حیرت کا اظہار کیا کہ اس قدر بڑھاپے میں مائی کو کیا پڑی ہے کہ کانفرنس کرتی پھرے؟ لیکن اس کا دوسرا مثبت پہلو یہ ہے کہ ملکہ برطانیہ کی شرکت سے اس میٹنگ کو مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر بے انتہا کوریج ملے گی جس کا فائدہ ماحولیاتی تبدیلی کی طرف دنیا کی توجہ دلانے میں بے انتہا مدد گار ثابت ہو گی۔
بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی،ہم بات کررہے تھے کہ آخر سائنسی رپورٹ میں غریب ملکوں کے لئےکیا کہا گیا ہے؟رپورٹ میں اگرچہ اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ کم آمدنی والے ممالک خود کو موسمیاتی تبدیلی سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن خطرناک بات یہ ہے ان ملکوں نے نقصانات روکنے کے جو منصوبے شروع کر رکھے ہیں، وہ پہلے ہی ماحولیاتی تبدیلی سے ہونے والی آفات سے متاثر ہو چکے ہیں بلکہ ان میں روز بروز شدت آتی جا رہی ہے ۔اقوام متحدہ اس بات سے بھی پریشان ہے کہ اس کے پاس بہت کم ڈیٹا موجود ہے ترقی پذیر ممالک نے جو منصوبے شروع کئے ہیں، ان سے ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات میں کمی آئی ہے یا نہیں ۔
بی بی سی نےحال میں ایک بہت ہی دردناک تصویر جاری کی ہے جس میں ایک بچے کے دونوں ہاتھوں میں مرے ہوئے حشرات الارض ہیں۔اس کی خبر یہ ہے کہ مڈغاسکر اس وقت ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیش آنے والے دنیا کے پہلے قحط کے دھانے پر پہنچ چکا ہے۔ مڈغاسکر میں گذشتہ چار برسوں سے بارشیں نہیں ہوئیں اور اس وقت بھی اس ملک کی بیشتر آبادی تباہ کن حد تک بھوک اور خوراک کی قلت کا شکار ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق گذشتہ چار دہائیوں پر محیط بدترین قحط نے ملک کے جنوب میں واقع زرعی آبادیوں کو تباہ کر دیا ہے اور وہاں کے رہائشی زندہ رہنے کے لیے کیڑے مکوڑے کھانے پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ کے حکام نےدنیابھرکو خبردار کیا ہے کہ مڈغاسکر کے لوگوں نےایسا کوئی عمل نہیں کیا کہ انہیں،ماحولیاتی آلودگی بڑھانے کاذمہ دارقرار دیا جائے، انہوں نے معدنیاتی ایندھن بھی نہیں جلایا لیکن پھر بھی انھیں ماحولیاتی تبدیلی کے بدترین مسائل کا سامنا ہے۔
آئی پی سی سی کی تازہ ترین رپورٹ کےمطابق مڈغاسکر میں خشک سالی میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور اگر ماحولیاتی تبدیلی جاری رہی تو اس میں اضافے کا امکان ہے، اگرچہ دیگر غریب یا ترقی پذیر ممالک تو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لئے کچھ خاص نہیں کر رہےلیکن یہ بات باعث اطمینان ہے کہ پاکستان اس معاملے میں پیش پیش ہے۔موسمیاتی تبدیلی کی جنگ میں ، پاکستان کا پرچم پچھلے 3 سال کے دوران دنیا کے لئے سب سے نمایاں بن کر سامنے آیا ہے۔
پاکستان نے ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے بہترین پلان تیار کیا ہے۔فیصل آباد میں وزیراعظم کے ٹین بلین ٹری منصوبہ کے تحت ضلعی انتظامیہ کے زیر اہتمام بیک وقت ایک لاکھ پودے لگاکر عالمی ریکارڈ قائم کیا گیا ہے۔ پنجاب ہارٹیکلچر اتھارٹی لاہور میں ایشیا ء کے دو سب سے بڑے میاواکی جنگلات لگا رہی ہے۔ ان میں سے ایک کا افتتاح وزیراعظم عمران خان نے کر دیا ہے۔ سگیاں پارک کی سائٹ پر 100کنال پر محیط ایشیا کا سب سے بڑا میاواکی جنگل لگا دیا گیا ہے۔ اس جنگل میں 1 لاکھ 60 ہزار سے زائد درخت لگائے جائیں گے. جو تین سے پانچ سال کے دوران تناور درخت بن جائیں گے۔
امریکا کےسب سےمعتبراخبار واشنگٹن پوسٹ نے ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان کی کوششوں کا اعتراف کیا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے عفریت کا مقابلہ کرنے کا آغاز 2015ء میں ہوا جب موجودہ وزیراعظم اور اُس وقت کے اپوزیشن لیڈر عمران خان نے " بلین ٹری سونامی" منصوبہ شروع کیا۔ اس منصوبے پر دو ہزار اٹھارہ میں کامیابی حاصل کی۔اسکی مقبولیت اور کامیابی دیکھ کر پھر2019ء میں "ٹین بلین سونامی پروجیکٹ" شروع کیا گیا جس کے تحت دس کروڑ درخت لگائے جانے تھے۔ اس پروگرام کے تحت اُ ن علاقوں پر جنگلات اگائے جا رہے ہیں جہاں تاریخی جنگلات تھے ، لیکن وقت کے ساتھ یہ درخت کاٹ دیئے گئےہیں۔
اس عظیم منصوبے کے تحت جو ایک ارب درخت لگائے جائیں گے، ان سے ملک کا درجہ حرارت کم کرنے میں مدد ملے گی اور موسمیاتی تبدیلی کے عالمی مطالبات کی تکمیل میں بھی ایک سنگ میل ثابت ہو گی ۔ اس منصوبے کے تحت مقامی آبادی کو جنگلات کی حفاظت کے لئے رقم ادا کی جاتی ہے تاکہ وہ ننھے پودوں کی حفاظت کر سکیں اور ان کو مکمل درخت بنانے میں مدد کر سکیں ۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ 2016ء اور 2018ء کے درمیان "ٹمبر مافیا" سے لڑتے ہوئے 11 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان کے علاوہ پاکستان نے کلین ایئر پروگرام،نیشنل واٹر ہائیجین واش پروگرام، پاکستان ان ہائیڈرومیٹ اینڈ لائٹ سروس پروجیکٹ، سسٹین ایبل فوریسٹ مینجمنٹ سسٹم شروع کر رکھے ہیں۔
اگرچہ دنیا اس مسئلے پر بھر پور توجہ دے رہی ہےلیکن پاکستان کے سوا کم آمدنی والے دیگر ممالک کی جانب سے اس ضمن میں زیادہ موثر اقدامات نظر نہیں آ رہے ہیں تاہم ماحولیاتی تبدیلی کے سائنسی جائزے نے امید کی کرن بھی دکھائی ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر بڑی حد تک قابو پانے سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو مستحکم کیا جا سکتا ہے۔
(زینب وحید ماحولیاتی تبدیلی کیلئے کام کرنے والی معروف سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور کیمرج کی طالبہ ہیں۔ وہ صف اول کی مقررہ،مصنفہ اورمتعدد عالمی شہرت یافتہ اداروں کی سفیربھی ہیں ۔ زینب وحید مضمون نویسی کے متعدد بین الاقوامی مقابلے بھی جیت چکی ہیں جس کے بعد انہیں اقوام متحدہ کی یوتھ سمٹ میں شامل کیا گیا۔زینب وحید کے سوشل میڈیا لنکس مندرجہ ذیل ہیں twitter.com/UswaeZainab3 facebook.com/uswaezainab.official)
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔