مولانا محمد عبداللہ درخواستی

مولانا محمد عبداللہ درخواستی
 مولانا محمد عبداللہ درخواستی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دین پو ر کی مٹی نے جن عظیم شخصیات کو اپنے دامن رحمت میں جگہ دے رکھی ہے، ان میں ایک انتہائی نیک نام مولانا محمد عبدا للہ درخواستی کا بھی ہے۔ جن کا علمی او رروحانی فیض جاری ہے او ر رہے گا۔ آپ حضرت درخواستی کے نام سے اہل علم اور اہل تقویٰ میں معروف ہیں۔ درخواستی آپ کے نام کا حصہ نہیں ،بلکہ جگہ کی نسبت سے لاحقہ ہے،ضلع رحیم یار خاں کی تحصیل خان پور ہے۔ خان پور کا علاقہ تاریخی اعتبار سے بہت مشہور ہے۔ اس کی شہرت تحریک ریشمی رومال کے حوالے سے نہ صرف برصغیر پاک و ہند میں مقام رکھتی ہے بلکہ اس کا تذکرہ برطانوی سامراج کی لائبریریوں میں بھی محفوظ ہے اور محفوظ رہے گا۔ ریشمی رومال کے نام سے انگریز حکومت بیسویں صدی کے اوائل میں لرزہ براندام ہوئی او رخان پور کا علاقہ ان کے لئے انتہائی پریشان کن رہا۔ اسی خان پور کے قریب ایک چھوٹی سی بستی درخواست کے نام سے موجود ہے۔ یہی جگہ حافظ الحدیث مولانا محمد عبد اللہ درخواستی کا مولد و مسکن رہا۔ اس بستی میں آپ کی ولادت ماہ محرم 1313ھ میں ہوئی۔ آپ کے والد محترم کا نام حافظ محمود الدین تھا، جو اپنے علاقے کے انتہائی نیک ،صالح ، صاحب تقویٰ افراد میں سے تھے۔ مولانا محمد عبداللہ درخواستی کی پیدائش جمعہ کے رو ز ہوئی، اس طرح آپ کی پیدائش کا مہینہ بھی محترم اور پیدائش کا دن بھی محترم، یعنی سید الایام جمعہ کے روز ہوئی۔

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد کے زیر سایہ ہی حاصل کی۔ بستی درخواست کے قریب ہی ایک آبادی دین پور ہے جو بھر چونڈی شریف ضلع سکھر میں واقع ہے۔ یہا ں حافظ الملت صدیق کا مسکن او ردرگاہ تھی۔ اس درگاہ کا شہرہ پورے سندھ میں خوب تھا۔ حافظ محمد صدیق ٓ سلسلہ قادریہ کے صوفی بزرگ تھے۔ ان کے خلیفہ مولانا غلام محمد دین پور میں مقیم تھے۔ مولانا درخواستی ابتدائی تعلیم حاصل کر چکنے کے بعد مولانا غلا م محم آ کی خدمت میں آ گئے اور ان کے سامنے زانوئے تلمذ طے کئے،ان سے معقولات منقولات کے علوم حاصل کرنے کے بعد تصوف ،سلوک و معرفت کی تعلیم بھی حاصل کی۔ مولانا محمد عبدا للہ درخواستی کو علم حدیث کے ساتھ بہت زیادہ محبت او رشغف تھا۔ فرامین رسول اللہ ٓ کو حفظ کر کے یاد رکھنے کا بہت شوق تھا۔ آپ جب بھی اپنے استاد مرشد مولانا غلام محمد کی خدمت میں حاضر ہوتے تو کوئی نہ کوئی نئی یاد کردہ حدیث استاد کو سناتے۔ استاد کو بھی سماعت حدیث سے لذت حاصل ہوتی۔ ایک مرتبہ آپ مسجد نبویؐ میں پہنچے احادیث پڑھ رہے تھے۔ ایک عرب پاس بیٹھا سن رہا تھا اور محظوظ ہو رہا تھا ،اس نے آپ سے اتنی احادیث زبانی سنیں تو بولا جس نے حضرت ابو ہریرہ ٓ کو نہ دیکھا ہو وہ محمد عبداللہ کو دیکھ لے۔


مولانا محمد عبدا للہ درخواستی کو تقریباً ایک لاکھ سے زائد احادیث زبانی یاد تھیں۔آپ نے بیشتر دینی علوم کی تحصیل اپنے وطن ہی میں کر لی تھی، تاہم آپ کی دلی خواہش تھی کہ آپ مرکز علم و عرفان دارالعلوم دیوبند جائیں اور وہاں کے چشمہ صافی سے فیض یاب ہوں۔ علوم بھی حاصل کریں اور سلوک و معرفت کی منازل بھی طے کریں۔ انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار اپنے مرشد مولانا غلام محمد سے کیا تو ان کے مرشد نے کہا۔ تم دین پور ہی میں رہو دارالعلوم دیوبند کی معروف شخصیات کی زیارت تمہیں دین پور ہی میں ہو گی۔ اللہ والے کے منہ سے نکلی بات تھی پوری ہوئی۔ کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ حکیم الامت مولانا اشر ف علی تھانوی کے ہمراہ مولانا عبید اللہ سندھی دین پور تشریف لائے۔ اس کے بعد تو یکے بعد دیگرے بے شمار اکابر دین پور کی درگاہ میں تشریف لاتے رہے جن میں مولانا حسین احمد مدنی ٓاو رمولانا سید محمد انور شاہ کشمیریٓ جیسے اکابر شامل تھے۔ مولانا محمد عبدا للہ درخواستی کو ان تمام اکابر کی زیارت کے مواقع ملے۔


یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہٓ 1932ء میں سید انور شاہ کشمیری ایک مقدمے کی وکالت کے سلسلے میں بہاول پور تشریف لائے تھے۔ یہ مقدمہ ایک عورت نے اپنے شوہر کے خلاف دائر کیا تھا کہ اس نے مرزائیت اختیار کر لی تھی۔ عورت نے موقف اختیار کیا کہ شوہر مرزائی ہونے کے ناتے غیر مسلم ہے اور ایک مسلمان عورت کانکاح غیر مسلم کے ساتھ نہیں ہو سکتا، لہٰذا مجھے میرے شوہر سے طلاق دلائی جائے۔ مولانا انور شاہ کشمیری ٓ نے بھر پور دلائل دئیے، عدالت قائل ہو گئی اور عورت کو مرزائی شوہر سے نجات مل گئی۔ اس سفر کے دوران مولانا محمد عبداللہ درخواستی ،مولانا انور شاہ کشمیری ٓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے حفظ حدیث کے حوالے سے جب درخواستی صاحب سے احادیث سنیں تو ان کو حافظ الحدیث کے لقب سے نواز ا جو ان کے لئے بہت بڑا اعزاز ہے۔ آپ کا مزاج سیاسی نہیں تھا،لیکن علماء کے اصرار پر آپ نے اس میدان میں بھی حصہ لیا اور جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے امیر بھی رہے۔ٓ 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں آپ پر جذب کا غلبہ ہوا اور آپ پاکستا ن کے سیاسی حالات اور معاشرے پر بے دینی کے اثرات کا غلبہ دیکھ کر بد دل ہو گئے،پھر پاکستان سے ہجرت کر کے حجاز سعودی عرب چلے گئے اور فیصلہ کیا کہ زندگی کے بقیہ ایام مدینہ منورہ ہی میں بسر کریں گے۔



ایک روز مدینہ منورہ میں آپ کو خواب میں جناب رسالت، مآبؐ کی زیارت ہوئی۔ رسالت مآبؐ نے فرمایا تم پاکستان سے بددل ہو کر یہا ں آ گئے۔ پاکستان میں ختم نبوت کی حفاظت میں تحریک چل رہی ہے۔ تحریک کے سربراہ میرے فرزند سید عطاء اللہ شاہ بخاری ٓ کو میرا سلام دو اور اس کے ساتھ مل کر نظریہ ختم نبوت کی حفاظت کے لئے کام کرو۔ اس خواب کے بعد مولانا درخواستی پاکستا ن لوٹ آئے۔ اور وفات تک لادینی قوتوں سے نبرد آزما رہے۔ اللہ کے ہاں ہر شخص کا وقت مقرر ہے۔ موت اٹل ہے، 1994ء میں وہ وقت آ گیا اور آپ نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔ آپ کو دین پور کے قبرستان میں حافظ محمد صدیق ؒ کے خلیفہ اول مولانا غلام محمد دین پوری کی پائنتی میں دفن کر دیا گیا۔ آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے۔بحمد اللہ مولانا محمد عبداللہ درخواستی سے سماعت حدیث کی سعادت راقم کو بھی حاصل ہے۔

مزید :

کالم -