پانی بچا مگر اربوں لٹا۔۔۔۔۔۔۔

   پانی بچا مگر اربوں لٹا۔۔۔۔۔۔۔
   پانی بچا مگر اربوں لٹا۔۔۔۔۔۔۔

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

برصغیر پاک و ہند کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمارے تمام حکمران چاہے وہ مغل تھے یا کسی اور ”خاندان حکمرانوں“ سے ان کا تعلق تھا وہ عوام کی خون پسینے سے ہتھیائی دولت، جنگوں میں مخالفین کے محلات اور شہروں سے لوٹی دولت جس بیدردی سے لٹایا کرتے تھے وہی کام آج بھی جاری ہے۔ہمارے موجودہ کیا 80 برسوں سے چلے آ رہے ”موروثی حکمران“ اپنی دولت نہیں بلکہ عوام کے ٹیکسوں سے کمائی دولت اور امیر ممالک، آئی ایم ایف، عالمی بنک کے ہاتھ اس ملک کو گروی رکھ کر قرضے پر حاصل کی گئی دولت جس برے طریقے سے لٹاتے ہیں اس کا ایک شاہکار لاہور میں زیر زمین پانی بچانے کے لئے  سیمنٹ سریہ بجری سے بنائے جانے والے ”پختہ تالاب“ ہیں، جن پر اربوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں اور یہ سب کچھ لاہور کی سڑکوں، گھروں، دکانوں کو برساتی موسم میں بارش کے پانی سے ڈوبنے سے بچانے کے  نام پر کیا جا رہا ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ ہمارے ان حکمرانوں کے ”اعلیٰ دماغ مشیروں کا اپر خانہ خالی ہے“۔لاہور میں ”بہت بڑے بڑے تالاب اور جوہڑ“ قیام پاکستان سے پہلے بھی موجود تھے جہاں بارشوں کا پانی جمع ہوتا تھا اور اردگرد کی آبادیوں کو بارش کے پانی سے محفوظ رکھتا تھا،مگر درحقیقت یہ پانی آہستہ آہستہ مٹی، جپسم، چونے  اور زمین کے نیچے مختلف تہوں سے گزر کر زیر زمین گہرائیوں میں منتقل ہو جاتا تھا۔ یہی پانی ہینڈ پمپ یا پھر موٹر پمپ کے ذریعے کھینچے گئے پانی کی صورت میں برآمد ہوتا تھا تو وہ بہترین صاف ستھرا قابل استعمال ہوا کرتا تھا، لیکن قیام پاکستان کے بعد جہاں باقی تباہی ہوئی وہاں ان تالابوں کو پاٹ دیا گیا۔ بیشتر تالاب تو میرے اور آپ کے سامنے پاٹے گئے جیسے منی مارکیٹ گلبرگ کے ساتھ واقعہ ایک وسیع ڈونگی کرکٹ گراؤنڈ آپ کو یاد ہو گی اس  کے اندر گلبرگ کے اس وسیع حصے میں ہونے والی بارش کا پانی سما جاتا تھا۔ مانتا ہوں کچھ دِنوں کے لئے کرکٹ بند ہو جاتی تھی لیکن پھر آہستہ آہستہ وہ پانی زیر زمین چلا جاتا تھا اور علاقے میں پانی کی سطح بلند رہتی تھی۔ اس پانی کو جلد نیچے پہنچانے کے لئے تین سے چار انچ کے جالی دار پائپ گرانڈ میں 100۔ 200فٹ کی گہرائی تک ڈالے جا سکتے تھے۔ لاہور میں زیر زمین پانی 700فٹ تک جا پہنچا تو حکمرانوں کے ”عقلمند مشیروں نے اس کا حل“ نکالا، جو پختہ تالابوں کی شکل میں نکالا۔

چنانچہ لاہور میں پختہ تالابوں کی تعمیر شروع ہوئی، مگر ”عقلمندوں“نے فرش کچا نہیں رکھا تاکہ پانی زیر زمین منتقل ہو سکے۔ لاہور میں بنائے جا رہے ان سیمنٹ، بجری، ریت، سرئیے کے بڑے بڑے تالابوں کا اخراجات کے معاملے میں کوئی مقابلہ نہیں اور مقابلہ تو واقعی کوئی نہیں، کیونکہ پہلا تالاب جو باغ جناح میں بنایا گیا وہ 20کروڑ میں بنا اور اس کے بعد اخراجات مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔باغ جناح میں تالاب کے اوپر دوبارہ ٹینس کورٹ بنانے کے لئے گھاس لگا دی گئی ہے۔ دوسرا تالاب شاہراہ قائداعظم پر الحمرا ہالز کے آگے برنی گارڈن میں بنایا گیا ہے کہا یہ گیا کہ کشمیر روڈ پر اکٹھا ہونے والے پانی کو یہاں محفوظ کر کے سڑک کو ڈوبنے سے بچایا جائے گا،حالانکہ اصل بات یہاں پانی جمع ہونے سے گورنر ہاس کی شان و شوکت پر حرف آتا ہے۔ تیسرا تالاب شیرانوالہ گیٹ کے باہر پارک کے اندر(بیرون شہر کے گرد جو کچھ پارک نما بچا ہے اس کے اندر بنایا گیا ہے)اس کا مقصد بھی جی ٹی روڈ کے اس ٹکڑے کو جو ڈوب جاتا تھا پانی سے بچانا تھا۔اب اس وقت ایک سب سے بڑا تالاب جو بن رہا ہے وہ قذافی سٹیڈیم میں بنایا جا رہا ہے اور اس کی گنجائش 40لاکھ گیلن ہے اور اس پر ایک ارب روپے کا خرچہ بتایا جا رہا ہے(معذرت چاہتا ہوں یہ ارب الف اردو والا ہے عین عربی والا عرب نہیں ہے)۔اس تالاب کا مقصد بھی پانی زیر زمین پہچانا نہیں ”قذافی سٹیڈیم کو پانی سے بچانا“ ہے۔ ایک اور تالاب جو اس وقت زیر تعمیر ہے  وہ ہاؤسنگ کے وزیر جناب بلال یاسین کے حلقہ انتخاب میں بنایا جا رہا ہے۔یاد رہے واسا اور ایل ڈی اے بلال یاسین کے ”ماتحت محکمے“ہیں۔لہٰذا  اس کو فوری بنانے کے لئے کام شروع کیا گیا ہے اور وہ ”کریم پارک کے پارک“ کے اندر بنایا جا رہا ہے۔ایک تالاب جس کی واقعی ضرورت ہے کہ لاہور کے چہرے کی بدنمائی دور کرے وہ ریلوے سٹیشن کے باہر وسیع پارک کے اندر بنایا جائے گا۔ اُمید ہے کہ یہ جلدی بن جائے گا۔ کہتے ہیں اس پر 50کروڑ روپے لاگت آئے گی مکمل ہونے تک یہ کتنی بڑھ جائے گی یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ ایک اور تالاب جو  تاجپورہ میں بنایا جانا ہے اس پر 90کروڑ روپے لاگت آئے گی۔ یہ تالاب ایک ایسے جوہڑ کی جگہ بنایا جا رہا ہے جو یہاں قدرتی طور پر بنا تھا اور پورے علاقے کا بارشی پانی وہاں سما جاتا تھا۔بارش کے بعد لوگوں کے گھر گلیاں بارش کے پانی سے محفوظ رہتے تھے۔بدقسمتی سے ایک ڈرائیور (پتہ نہیں اسے ڈرائیونگ بھی آتی تھی یا نہیں) کی غلطی سے سواریوں سے بھری ٹرالی اس جوہڑ میں جاگری اور قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، جس کے بعد اسے ختم کرنے کا مطالبہ شروع ہوا یہ سوچے بغیر کہ یہ جوہڑ کتنی سہولت دیتا ہے اسے ختم کر دیا گیا اور اس کے بعد پہلی بارش میں پورا تاج پورہ پانی میں ڈوب گیا۔ گھروں کے اندر کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہو گیا۔ ایک اور تالاب رسول پاک اچھرہ میں بنے گا یہ پارک اس آبادی کو فیروز پور روڈ اونچی ہو جانے کی وجہ سے منتقل ہونے والے پانی سے بچانے کے لئے بنایا جائے گا اس پر 35کروڑ روپے  لاگت آئے گی ایک اور تالاب علامہ اقبال ٹان کی فروٹ مارکیٹ کو بارش کے پانی سے بچانے کے لئے بنایا جائے گا اور اس پر 40کروڑ روپے لاگت آئے گی۔ ٹیپو بلاک گارڈن ٹاؤ ن میں  سڑکوں کو کلیئر رکھنے کے لئے 35 کروڑ کی لاگت سے پختہ تالاب بنایا جائے گا۔ جوہر ٹاؤن اے بلاک میں ٹکا چوک کے مقام پر 40کروڑ کی لاگت سے ایک وسیع زیر زمین تالاب بنایا جائے گا۔

تالاب تو اربوں روپوں کی لاگت سے بن جائیں  گے، مگر ان کی تعمیر سے زیر زمین پانی کی سطح بلند نہیں ہو گی،کیونکہ ان کے فرش پختہ ہیں ایک انتہائی چوڑا کنکریٹ کا فرش ڈالا گیا ہے البتہ واسا افسران کا یہ بتانا ہے کہ ایک سائیڈ کی دیوار میں  پائپ نکال کر فلٹر شدہ پانی پائپ کے ذریعے زمین میں بھیجا جائے گا، لیکن اس پائپ کے ذریعے آخر کتنا پانی زیر زمین جا سکے گا۔ اصل تو بات یہ تھی کہ فرش کچا ہوتا اور سارا ہی پانی زمین میں سما جاتا تاکہ آنے والی نسلوں کو پینے کا صاف پانی میسر ہوتا۔ بھارت میں زیر زمین پانی کو بلند کرنے کے لئے بہت سارے سستے طریقے اپنائے گئے ہیں، جن میں ایک طریقہ بہت ہی سستا ہے کہ آپ جگہ جگہ کنوئیں کھودیں اور ان کنوؤں کی  اینٹوں کی دیوار  میں ہر ایک اینٹ کے بعد ادھی اینٹ کی جگہ خالی ہو گی، یعنی جب کنوئیں پانی سے بھریں گے تو وہاں سے پانی ان اینٹوں کے اندر سے زمین میں جاتا رہے گا اور جب نیچے تک پانی زیر زمین منتقل ہو جائے گا تو تہہ سے مٹی نکال کے کنوئیں کو دوبارہ پرانی حالت میں لایا جائے گا۔ 

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -