فوج پر حملہ۔۔۔ملک دشمنی ہے

   فوج پر حملہ۔۔۔ملک دشمنی ہے
   فوج پر حملہ۔۔۔ملک دشمنی ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ بات مسلمہ ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کی ماں کہلاتی ہے اور ماں کے تقدس کا خیال رکھنے والے ادارے کو ماں کا محافظ کہا جاتا ہے۔صرف پاکستان نہیں دنیا کے کسی بھی ملک میں چلے جائیں، وہاں ایسے لوگوں  کو سزائے موت تک (جسے انتہائی سزا قرار دیا جاتا ہے) دے دی جاتی ہے۔پچھلے ہفتے کے دوران میں نے اخبار میں ایک خبر دیکھی کہ سعوددی عرب میں  ایک چھوٹے بچے کو  (جو شاید ابھی زمین پر چلتا بھی نہیں تھا)، عدالت نے  سر قلم کرنے کا حکم دے دیا۔مجھے یہ دیکھ کر تکلیف تو پہنچی، لیکن پھر دِل میں خیال اُبھرا کہ یقینا اس بچے یا اس کے والدین سے ریاست کی کوئی نافرمانی ہوئی ہو گی ۔صرف یہی نہیں سعودیہ سمیت تمام عرب ممالک اور امریکہ یورپ میں جہاں جہاں بھی قانون پر سختی سے عمل ہوتا ہے تو وہاں ریاست اور فوج،بلکہ حکومت کے خلاف بات کرنا جرم تصور کیا جاتا ہے۔یہی حالت ٹرانسپورٹ کی ہے، اشارہ سرخ ہوتے ہی ریڈ لائن سے ایک انچ اوپر جانے کی  کسی کو بھی جرأت نہیں اور جس سے یہ غلطی سر زد ہو جاتی ہے،اس کا لائسنس بھی کینسل اور اور گاڑی سمیت ڈرائیور بھی جیل میں بند کر دیا جاتا ہے،لیکن پاکستان کا باوا آدم ہی نرالا ہے یہاں ریاست کے خلاف جو پریس کانفرنس کرتا ہے،اس کو پاکستانی میڈیا  میں بھی حد سے زیادہ کوریج دی جاتی ہے، یہی عالم ہمارے نیوز چینل کا ہے،اس کے برعکس وطن پرستی کی بات کرنے والوں کی خبروں کو کوئی لفٹ نہیں دی جاتی۔میں نے ایک دن جی ایچ کیو کے افسر سے پوچھا کہ میں پاک فوج کے شہید ہونے والے افسروں اورجوانوں کے کارناموں پر کتاب مرتب کرنا چاہتاہوں۔ مجھے ان کی تعداد بتائی جائے۔ وہاں سے مجھے یہ اطلاع ملی کہ 1947ء سے آج تک پاک فوج کے 17 ہزارافسر اور جوان وطن عزیز کی ناموس کی حفاظت کی خاطر جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔یہ اطلاع جنرل پرویز مشرف کے دور ِحکومت کی تھی۔اس وقت سے اب تک ہر روز پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کی شہادتوں کی خبریں پے درپے مل رہی ہیں،جس خاندان کا ایک فرد بھی شہید ہو جاتا ہے،اس خاندان کے جسم پر لگنے والے زخم کبھی مندمل نہیں ہوتے۔میں لاہور کے کئی شہیدوں اور غازیوں سے مل چکا ہوں،بلکہ ملتا رہتا ہوں، لیکن مجھے اس وقت حیرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب شہید ہونے والوں کے لواحقین کی آنکھوں سے اب تک آنسو خشک نہیں ہوئے،جس طرح شہیدوں کو نہ تو غسل دیا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں کفن پہنایا جاتا ہے،وہ فوج کی جس مقدس وردی میں (یعنی ہم سب کی حفاظت کے لئے۔ تاکہ ہم پُرسکون طور پر اپنے گھر میں رہ سکیں) شہید ہوتے ہیں،اسی خون آلود وردی میں شہید کو قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے۔قرآن پاک میں لکھا ہے کہ روزِ قیامت شہید اسی حالت میں اُٹھے گا جس حالت میں وہ شہید ہوا تھا  اور ان کے زخموں سے لہو بہہ رہا ہو گا۔ لانس نائیک محمد محفوظ شہید (نشانِ حیدر)  جو 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں شہید ہوئے تھے،دوران جنگ انہیں شہید کی وردی میں امانت کے طورپرعام قبرستان میں دفن کردیا گیا،لیکن چھ ماہ بعد جب ان کے جسد ِ پاک کو نکال کر اعزاز کے ساتھ الگ جگہ پر دفن کرنے کے لئے قبر کی کھدائی کی گئی تو فوجی حکام کے علاوہ علمائے کرام اور مقامی لوگ سمیت سب حیران رہ گئے کہ قبرکھلتے ہی اتنی خوشبونے پورے ماحول کو اپنے حصار میں لے لیا کہ وہاں موجود سب کی زبان پر کلمہ طیبہ تھا۔پھر جب ان کا جسد ِ پاک قبر سے باہر نکالا گیا تو جسم سے اسی طرح خون بہہ رہاتھا جس طرح تدفین کے وقت تھا اور شہید کے چہرے پر چھ انچ  داڑھی بھی موجود تھی،حالانکہ شہادت کے وقت  وہ کلین شیو تھے۔ وہاں موجود سب کی زبان پر ایک ہی لفظ تھا ”سبحان اللہ۔ بیشک قرآن پاک کا وعدہ سچا ہے کہ شہید زندہ ہے اس کو آسمان سے رزق فراہم کیا جاتا ہے“۔بہرکیف یہ باتیں تو ہر وطن پرست کے علم میں ہوں گی،لیکن میری نظر میں عمران خان اور اس کے چاہنے والے انتہائی قابل ِ نفرت ہیں،جنہوں 9مئی اور 26نومبر کو اپنی ماں جیسی ریاست کی محافظ فوج اور فوجی اداروں،بلکہ جناح ہاؤس پر بھی اس طرح حملہ کیا جس طرح دشمن کی فوج حملہ کرتی ہے۔فوجی تنصیبات، جی ایچ کیو اور کیپٹن کرنل شیرخان شہید (نشانِ حیدر) کی یادگار کو بھی دشمنوں کی طرح تباہ کردیا گیا۔ یاد رہے کہ یہ وہ کرنل شیرخان تھے، جنہوں نے نقطہ انجماد سے بھی کم درجہ حرارت میں کئی ماہ تک وطن ِ عزیز پاکستان کی حفاظت کی اور دشمن کے کیمپ میں پہنچ کر اسے للکارا۔اگر ان کی کلاشنکوف میں گولیاں ختم نہ ہوجاتیں تو تمام بھارتی فوجی خون میں لت پت تڑپ رہے ہوتے۔مجھے افسوس ہے،ایسے لیڈر (عمران خان)  پر جس نے اپنی سیاسی جماعت کی بنیاد ہی ریاست اور اس کی محافظ فوج کی دشمنی  پررکھی۔آج تحریک انصاف کا جو  رہنماء بھی بات کرتاہے تو اس کی زبان زہر اُگلتی ہے،حالانکہ عمران خان جیل میں  بندہیں، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ ان کے بیانات کیسے اور کس کے ذریعہ جیل سے نکل کر میڈیا تک پہنچائے جاتے ہیں۔ہمیں بحیثیت پاکستانی۔ فلسطین،غزہ  لبنان  شام، لیبیا کی موجودہ حالت ِ زار ضروردیکھنی چاہئے جہاں مضبوط فوج نہیں،وہاں اسرائیل کی بری اور فضائیہ کھلے عام بمباری کرکے ہر روز تباہی مچا تی ہے۔اس کے باوجود ہم اپنی فوج کے تقدس کو مسلسل پامال کرتے ہیں۔یہ بین الاقوامی اصول ہے کہ جرم جس ملک میں، جس جگہ پر سرزد ہوتا ہے، سزا بھی وہاں کے قوانین کے مطابق دی جاتی ہے۔اگر 9مئی کے مجرموں کو فوجی عدالتوں نے سزا دی ہے تو کون سی غلط بات ہو گئی ہے۔یہ ہم سب پاکستانیوں کے لئے سبق ہونا چاہئے کہ ریاست اور فوج کے خلاف ہماری زبانیں گنگ اور خاموش ہونی ضروری ہیں۔وگرنہ جیسا اور جہاں جرم ہو گا اسی کے قوانین کے مطابق سزا بھی ہو گی۔یہ مسلمہ حقیقت ہے۔ اِس بات میں ذرا بھی شک نہیں کہ ان مجرموں کو ترغیب دینے والوں میں عمران خان اور اس کے ساتھیوں کے نام آتے ہیں جو اس اڈیالہ جیل میں تو بند ہیں، لیکن وہاں انہیں زندگی کی جو سہولتیں حاصل ہیں،ایک عام قیدی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔سچ تو یہ ہے کہ اگرہم اس ملک میں آزادی اور سہولت سے زندگی اپنی مرضی سے بسر کررہے ہیں تو اس کا سہرا پاک فوج کے ان افسروں اور جوانوں کے سر بندھتا ہے،جو مشرقی اور مغربی محاذانتہائی سرد اور برف باری کے ماحول میں  ہمارے تحفظ کے لئے سینہ تان کے کھڑے پہرہ دے رہے ہیں تاکہ کسی جانب سے کوئی دشمن ان کے ہم وطنوں کو نقصان نہ پہنچائے۔ ریاست اور فوج کے خلاف بات کرتے وقت ہم یہ بات بھول کیوں جاتے ہیں۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -