پاکستانی اوریجن کارڈ کی افادیت؟

پاکستانی اوریجن کارڈ کی افادیت؟
پاکستانی اوریجن کارڈ کی افادیت؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میں نے آج سے لگ بھگ ایک سال پہلے اپنے ایک کالم کے ذریعے سے حکام بالا اور بالخصوص وزراتِ داخلہ کی توجہ عوامی نوعیت کے ایک اہم مسلے کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی تھی اس وقت میرا کالم دنیا پاکستان ویب سائٹ پر شائع ہوا تھا لیکن ابھی تک مسئلہ وہیں کا وہیں ہے اور اس عرصہ میں کئی مزید لوگ متاثر ہوئے ہیں۔

اور ان لوگوں میں سے کچھ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں نے اپنی اس تکلیف کے بارے سوشل میڈیا پر لکھا بھی ہے جن میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان یاسر ممتاز بھی ہے جو حال ہی میں متاثر ہوا اور اس نے سوشل میڈیا پر اپیل کی ہے کہ کوئی اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرے۔

اب چونکہ میرا کالم پاکستان کے بہت بڑے اور معتبر اخبار روزنامہ پاکستان میں شائع ہوتا ہے تو میں یہ امید کرتا ہوں کہ حکام بالا اور پاک فوج تک ہماری استدعا پہنچے گی اور وہ اس مسئلے کا حل نکالیں گے۔


مسئلہ یہ ہے کہ اسلام آباد سے آزادکشمیر کے اضلاع پونچھ، سندھوتی، عباس پور اور حویلی کے لوگوں کا راستہ کہوٹہ سے ہو کر جاتا ہے اور کہوٹہ کے علاقے سے غیر ملکی نہیں گزر سکتے۔

اب آزادکشمیر کے مذکورہ بالا اضلاع سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ جو یورپ کے ان ممالک میں آباد ہیں جن کے ساتھ پاکستان کی دوہری شہریت نہیں ہے اور وہ لوگ پاکستان کی شہریت چھوڑ کر یورپی ممالک کی شہریت لے چکے ہیں انہیں حکومت پاکستان نے اوریجن کارڈ جاری کر رکھے ہیں ان کارڈز کی مدت ۷ سال ہوتی ہے اور ان کے اجراء کے وقت یہ خوشخبری سنائی گئی تھی کہ ان کارڈز کے حامل حضرات پاکستان کے شہری تصور ہوں گے اور ان کو پاکستان میں سارے حقوق حاصل ہوں گے ماسوائے ووٹ کاسٹ کرنے کے۔

(یہ الگ بات کہ اب ہم اس کارڈ پر عام جگہ سے ٹیلیفون کی سم بھی نہیں لے سکتے) اب اس کارڈ کے حامل آزادکشمیر کے شہریوں کا شمار چونکہ غیر ملکیوں میں ہوتا ہے اور وہ براستہ کہوٹہ آزادکشمیر میں داخل نہیں ہو سکتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان لوگوں کو بہت زیادہ مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے اور بیسیوں میل لمبے راستے سے ہو کر اپنے آبائی علاقے تک جانا پڑتا ہے۔


کچھ لوگوں کی نظر میں شاید بیسیوں میل زیادہ اہمیت نہ رکھتے ہوں لیکن جو لوگ ہزاروں میل کا ہوائی سفر کر کے وطن کی محبت سے سرشار اپنی دھرتی پر پہنچے ہوں اور جلد از جلد اپنے گھر پہنچ کر اپنے پیاروں سے ملنے کا ارمان لیے اسلام آباد سے گاڑی میں سفر کر رہے ہوں وہی بہتر جان سکتے ہیں کہ ایک ایک میل ان کے لیے کتنا بھاری ہوتا ہے۔

میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کل تک جو لوگ محب وطن تھے اگر آج انہوں نے باامر مجبوری کسی اور ملک کا پاسپورٹ لے لیا ہے تو وہ مشکوک کیسے ہو گئے؟ ہم لوگ تو یہ سمجھتے ہیں اور بجا سمجھتے ہیں کہ ہم پاکستان کے اندر رہنے والے پاکستانی پاسپورٹ ہولڈر سے کہیں زیادہ محب وطن ہیں اور ہماری رگ رگ میں پاکستان کی محبت رچی بسی ہے پھر ہم پر شک کیوں؟پاکستان میں سیاحت پہلے ہی نہ ہونے کے برابر ہے اور ملک میں امن و امان کی کیفیت میں کوئی بھی غیر ملکی پاکستان کا رخ نہیں کرتا تو جو پاکستانی تارک وطن اپنے ملک میں آتے ہیں ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرکے کس کا فائدہ کر رہے ہیں دنیا میں نئی اور پرانی نسل کے لاکھوں پاکستانی ہیں جو ملک کے لیے زرمبادلہ کے حصول کا ذریعہ ہیں اور ہر سال پاکستان سے کروڑوں ڈالر کی خریداری کرتے ہیں حکومت پاکستان کو ان تارک وطن پاکستانیوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنی چاہیں چہ جائیکہ ان کے لیے مشکلات پیدا کی جائیں۔


آزادکشمیر کے دیگر اضلاع بھمبر میرپور وغیرہ کے لوگ بھی اسی راستے سے پونچھ جاتے رہتے ہیں اور ضلع کوٹلی کے لوگ بھی اسلام آباد سے کہوٹہ کا راستہ لیتے ہیں۔ان میں بھی بعض کے پاس اوریجن کارڈ ہوتا ہے اور انہیں بھی اسی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

میری وزراتِ داخلہ اور دوسرے متعلقہ حکام سے درخواست ہے کہ خدارا اس مسلے کا کوئی آسان حل تلاش کیا جائے اور اس کے لیے اگر قانون میں ترمیم کرنا پڑے تو وہ بھی کرنی چاہیے۔

اس کے علاوہ جو غیر ملکی سیاح پاکستان میں سیر کے لیے آتے ہیں ان کو بھی آزادکشمیر داخلے کی اجازت نہیں دی جاتی اس کے لیے انہیں این او سی لینا پڑتا ہے جو ایک سیاح کے لئے مشکل کام ہے جس وجہ سے سیاح پاکستان کا رخ نہیں کرتے۔

میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آزادکشمیر کے علاقہ میں کونسی ایسی حساسیت ہے جو باقی پاکستان میں نہیں ہے۔ اگر کوئی ایسی بات ہے بھی تو متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عام سیاحوں اور جاسوسی کرنے والوں میں فرق سمجھیں اور سیاحت کے راستے سے رکاوٹیں دور کریں تاکہ غیر ملکی سیاح پاکستان کا رخ کریں اور پاکستان میں سیاحت کی صنعت کو فروغ حاصل ہو۔

نادرا کو بھی چایئے کہ اوریجن کارڈ کو ایک قابل قبول دستاویز یا شناخت کا حامل بنایا جائے اوریجن کارڈ کی قیمت اس وقت 52 ہزار روپے سے زیادہ ہے لیکن اس کارڈ پر فون کی سم بھی نہ لی جا سکے تو اس کا کیا فائدہ ہے۔

؟ اسی طرح تارکین وطن کے کئی مسائل ہیں جن پر توجہ کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ تارکین وطن پاکستان کا رخ کریں اور پاکستان میں سرمایہ کاری بھی کریں۔ حکومت پاکستان بیرونی ممالک سے پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے اپیلیں کرتی رہتی ہے، اگر تارکین وطن کو ترغیب دی جائے تو چھوٹے پیمانے پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔

اب چونکہ پاکستان میں سیکیورٹی کی صورتحال پہلے سے بہتر ہے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ بیرون ملک پاکستانی ہائی کمیشن اور سفارت خانوں کے ذریعے سے پاکستانیوں کو سہولیات سے آگاہ کیا جائے اور ان کی رہنمائی کی جائے تو میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ بہت زیادہ تارکین وطن پاکستان کا رخ کریں گے اور اپنا سرمایہ بھی لگائیں گے۔

بہت سارے اوورسیز پاکستانی اپنا سرمایہ افریقہ اور مڈل ایسٹ کے ممالک میں لگا رہے ہیں اگر وہی سہولتیں انہیں اپنے ملک میں ملیں تو وہ اپنے ملک کو ہمیشہ ترجیح دیں گے۔

مغربی ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں میں سے کچھ افراد نے پاکستان کی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے کہ انہیں پاکستان میں ووٹ کا حق دیا جائے ان میں ایک نام ناروے سے ہے شاہد جمیل صاحب بھی درخواست دائر کرنے والوں میں شامل ہیں اگر سپریم کورٹ اس دعوے کو تسلیم کر لیتی ہے تو یہ تارکین وطن کی بہت بڑی کامیابی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے بھی نیک شگون ہوگا کیونکہ اس سے تارکین وطن کی اپنے وطن میں دلچسپی بڑھے گی اور وہ پاکستان کی ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کریں گے۔

مزید :

رائے -کالم -