کمزور نظام تعلیم

پاکستان میں نظام تعلیم میں نقائص کی بھرمار ہے جس سے نہ تو کوالٹی ایجوکیشن مل رہی ہے اور نہ ہی ملک ترقی کر رہا ہے سرکاری سکولوں میں طلبا کی ذہنی صلاحتیوں کو اُجاگر کرنے کے لیے اقدامات نہیں کیے جاتے ہیں، پرائمری سکول ویسے کے ویسے ہیں اسی طرح مڈل اور ہائی سکولوں کا بھی یہی حال ہے جس کی وجہ سے نجی تعلیمی ادارے آگے ہیں کمزور اور ناقص نظام تعلیم کی وجہ سے ملک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل نہیں ہو سکا ایسے بے شمار ممالک ہمارے سامنے ہیں جن کے نظام تعلیم میں بہتری سے وہ ممالک ترقی پذیز سے ترقی یافتہ بن گئے ہیں پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بھی ہمارا نظام تعلیم متاثر ہوا ہے والدین زمینیں فروخت کر کے بچوں کو میڈیکل کی تعلیم دلواتے ہیں لاتعداد ڈاکٹرز بے روزگار ہیں اور وہ بیرونی ممالک کا رخ اختیار کرنے پر مجبور ہیں لاکھوں روپے خرچ کرکے وہ یورپی ممالک میں جا رہے ہیں ان کے والدین پریشان ہیں ہر سال لاکھوں افراد پاکستان سے روزگار کے سلسلہ میں غیرقانونی طریقہ سے کشتیوں کے ذریعہ جاتے ہیں کئی حادثات بھی پیش آ چکے ہیں حکومت ان غیرقانونی طریقوں کو روکنے میں ناکام رہی ہے اگر ہم میڈیکل تعلیم کی بات کریں تو آئے روز میڈیکل پالیسیوں میں تبدیلیاں سامنے آتی ہیں میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے بیرون ممالک کے میڈیکل کالجوں میں داخلہ کے خواہشمند پاکستانی طالبعلموں کیلئے ایم ڈی کیٹ امتحان میں شرکت اور کامیابی کو لازمی قرار دے دیا ہے انٹرسائنس پری میڈیکل کا امتحان پاس کرنیوالے پاکستانی طالب علم بیرون ملک میڈیکل کالجوں میں ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کے داخلوں کیلئے پاکستانی ایجنٹوں کے ذریعے داخلے لیتے ہیں،ان کالجوں میں داخلے کی کیا پالیسی ہوتی ہے اس کے بارے میں پی ایم ڈی سی کو کوئی آگاہی نہیں ہوتی اور جو پاکستانی طالب علم وہاں داخلہ حاصل کرتے ہیں ان کے بارے میں بھی کوئی اعدادوشمار موجود نہیں ہوتے،ان کالجوں کے نصاب اور سہولیات کے بارے میں بھی پی ایم ڈی سی کو آگاہی نہیں ہوتی، اسی لیے پی ایم ڈی سی نے فیصلہ کیا ہے کہ بیرون ملک کے میڈیکل کالجوں میں جو طالب علم ایم بی بی ایس یا بی ڈی ایس میں داخلے کیلئے رجوع کرے گا پہلے وہ ایم ڈی کیٹ کے امتحان میں رجسٹریشن کرائے گا اور کامیابی حاصل کرنا اس کیلئے لازمی ہوگا ان طالب علموں کے ایم ڈی کیٹ کے امتحان کیلئے پالیسی وضع کرلی گئی ہے،اس اقدام سے بیرون ملک میڈیکل کالجوں میں داخلے لینے والے طالب علموں کا نہ صرف ڈیٹا مرتب ہونا ہے بلکہ ایم ڈی کیٹ میں کامیابی کے بعد وہ جس ملک کے میڈیکل کالج میں داخلہ حاصل کریں گے انہیں ایم ڈی کیٹ کے امتحان میں کامیابی کا سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے گا۔ایسے طالب علموں کی ایم ڈی کیٹ کے امتحان کے ساتھ ساتھ پی ایم ڈی سی میں رجسٹریشن بھی کی جائے گی، اس حوالے سے جلد ایک مفصل پالیسی کا اجرا پی ایم ڈی سی کرے گی،جو طالب علم اس وقت بیرون ممالک کے میڈیکل کالجوں میں پڑھ رہے ہیں ان کے حوالے سے بھی پی ایم ڈی سی اپنی پالیسی میں اصلاحات لارہی ہے۔پی ایم ڈی سی نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ سال جوطالب علم ان چھوٹے ممالک کے کالجوں سے میڈیکل ایجوکیشن حاصل کرکے پاکستان آئے اور پی ایم ڈی کے ایکولینسی ٹیسٹ میں شرکت کی تھی ان میں سے دو فیصد سے بھی کم طالب علموں نے امتحان پاس کیا تھا۔اب بیرون ملک سے جو طالب علم میڈیکل ایجوکیشن حاصل کر کے وطن واپس آئے گا ان کے ایکولینسی ٹیسٹ NUMS لے گی اور کامیاب ہونے والوں کی کونسل میں بحیثیت ڈاکٹر رجسٹریشن کی جاسکے گی۔ کونسل نے چھوٹے چھوٹے ملکوں میں قائم میڈیکل کالجوں کی بھی انسپیکشن کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان چھوٹے ملکوں میں قائم میڈیکل کالجوں کی انسپیکشن پی ایم ڈی سی انسپکٹر کریں گے، اس وقت بیرونی ممالک میں فی طالب علم سالانہ 10ہزار ڈالر فیس وصول کی جاتی ہے جبکہ رہائش، کھانے پینے کے اخراجات فیس کے علاوہ ہوتے ہیں۔ بیرون ملک میڈیکل تعلیم حاصل کرنے پر جو قدغن لگائی جا رہی ہیں اس سے طلبا اور والدین کی مشکلات میں اضافہ ہو گا کسی دور میں انٹر کی بنیاد پر میڈیکل میں داخلہ ہوتا تھا سوال یہ پیدا ہوتا ہے طلبا میڈیکل کی تعلیم کیلئے بیرونی ممالک کا رخ کیوں اختیار کرتے ہیں اس کی وجہ پاکستان میں نجی میڈیکل کالجز میں تعلیم کا انتہائی مہنگا ہونا ہے حکومت کیوں ان نجی میڈیکل اداروں کی فیسوں کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا نہیں کرتی ملک میں تعلیم مہنگی ہونے کے دیگر بہت سے نقصانات بھی ہیں ایم ڈی کیٹ سے پہلے ہی طلبا پریشان ہیں جس سے ذہین طلبا میڈیکل داخلوں سے محروم ہو جاتے ہیں معاشرہ کی ستموں کو درست کرنا ہے تو کمزور نظام تعلیم کی طرف توجہ دینی ہو گی اور سرکاری سکولوں میں کوالٹی ایجوکیشن کو یقینی بنانے کیلئے تعلیمی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ضروری ہے پاکستان میں میڈیکل کالج کے داخلے کی انتہائی مسابقتی نوعیت، محدود نشستوں اور علاقائی کوٹے جیسے مسائل کے ساتھ،بہت سے طلباء کو بیرون ملک متبادل تلاش کرنے پر مجبور کرتی ہے، غیر ملکی ادارے اکثر زیادہ شفاف داخلہ کے عمل اور دستیاب نشستوں کی بڑی تعداد پیش کرتے ہیں، جو ان طلباء کیلئے پرکشش ہوتے ہیں جو پاکستان میں داخلہ حاصل نہیں کر پاتے۔حیرت انگیز طور پریہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بیرون ملک میڈیکل تعلیم کی لاگت پاکستانی نجی میڈیکل کالجوں کے مقابلے میں مساوی یا اس سے بھی کم ہے، کرغزستان جیسے ممالک میں سستی ٹیوشن فیس اور رہنے کے اخراجات ہیں، جو ان متوسط طبقے کے خاندانوں کیلئے ایک قابل عمل آپشن ہیں۔دوسری جانب بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے کئی فوائد کے باوجود، یہ والدین اور طلباء دونوں کے لئے اہم حفاظتی خدشات بھی پیدا کرتا ہے۔