گاڑیوں کی صوبائی رجسٹریشن کا ایشو

   گاڑیوں کی صوبائی رجسٹریشن کا ایشو
   گاڑیوں کی صوبائی رجسٹریشن کا ایشو

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اس زمینی حقیقت اور ضرورت سے انکار ممکن نہیں کہ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق ملک یا صوبے کے قوانین میں تبدیلیاں ناگزیر ہو جاتی ہیں لیکن مشاہدے میں آتا ہے کہ بعض اوقات ایسے  فیصلے کیے جاتے ہیں اور ان فیصلوں کے نتیجے میں ایسے اقدامات عمل میں لائے جاتے ہیں کہ معاملات سمٹنے کی بجائے بکھرتے ہوئے محسوس ہونے لگتے ہیں‘ اتحاد اور اجتماع کے بجائے تقسیم اور انتشار کا شائبہ پیدا ہونے لگتا ہے۔

حال ہی میں پنجاب حکومت کی جانب سے کیے گئے ایک فیصلے سے بھی ایسا ہی شائبہ پیدا ہوتا محسوس ہوا تو چاہا کہ اپنے قارئین سے اس بارے میں بات کر لوں۔ معاملہ یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے صوبے کے رہائشیوں پر صوبے سے باہر اپنی گاڑی کی رجسٹریشن کرانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ پنجاب گورنمنٹ نے کہا ہے کہ جن کے شناختی کارڈ پنجاب کے ہیں ان کی گاڑیاں صرف پنجاب ہی میں رجسٹرڈ ہوں گی۔ اگر کوئی دوسرے صوبے سے گاڑی پنجاب لے کر آئے گا تو اس کو لاہور کا نمبر یا پنجاب کا نمبر لینا پڑے گا۔ اس پابندی کی منظوری صوبائی کابینہ نے دی ہے۔ اب کوئی بھی شخص جس کا شناختی کارڈ پنجاب کا ہے وہ اسلام آباد، کراچی پشاور یا کوئٹہ جا کر اپنی گاڑی رجسٹرڈ نہیں کروا سکے گا۔ اگر پنجاب کے کسی رہائشی کے پاس کسی دوسرے صوبے کی رجسٹرڈ گاڑی پائی گئی تو ضبط کی جا سکتی ہے۔ محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب کے مطابق صوبے کے سرکاری خزانے کو اسلام آباد میں رجسٹریشن کی وجہ سے ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے اور یہ کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کا معاملہ ہے۔ کچھ عرصہ پہلے محکمے نے اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ پنجاب کو ایک طویل بریفنگ دی اور سارے اعداد و شمار ان کے سامنے رکھے گئے جس کے بعد اس پابندی کا فیصلہ ہوا۔ یاد رہے کہ موٹر وہیکل ایکٹ کے سیکشن 130 میں ترمیم کے تحت کسی دوسرے صوبے کی کوئی بھی گاڑی پنجاب میں 120 دن سے زیادہ نہیں چل سکے گی۔ اگر اس گاڑی کو صوبے میں مزید چلانا ہو تو پنجاب میں دوبارہ رجسٹریشن کرانا ضروری ہو گا۔

سیکرٹری ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کا کہنا ہے کہ اس ترمیم کو قانون کی شکل دینے کے لیے صوبائی اسمبلی کی منظوری درکار ہے جس میں کچھ وقت لگ سکتا ہے‘ قانون کی شکل اختیار کر لینے کے بعد اس قانون پر عوامی آگاہی کے ذریعے عمل درآمد کرایا جائے گا اور ابتدا میں نہ تو کوئی جرمانہ ہو گا اور نہ ہی کسی کریک ڈاؤن کی تجویز زیر غور ہو گی۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ نئے قانون کا اطلاق ماضی میں دیگر صوبوں اور اسلام آباد میں رجسٹر شدہ گاڑیوں پر نہیں ہو گا۔ مجوزہ ترمیم میں مزید کہا گیا ہے کہ پنجاب میں گاڑیوں کے مالکان آئندہ پنجاب کے کسی بھی ضلع میں اپنی گاڑیاں رجسٹر کروا سکیں گے‘ یعنی گاڑیوں کے مالکان پر اپنے ہی ضلع میں گاڑی رجسٹرڈ کرانے کی جو پابندی اب تک عائد تھی وہ ختم کر دی گئی ہے۔ محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی جانب سے اس حوالے سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ مجوزہ ترمیم کے تحت گاڑیوں کی بین الصوبائی نقل و حرکت پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا رہی‘ یعنی پنجاب کی گاڑیاں دوسرے صوبوں میں آ جا سکیں گی اور دوسرے صوبوں کی گاڑیوں کے پنجاب میں داخلے پر کوئی پابندی عائد نہیں ہو گی۔ اس پریس ریلیز میں مزید کہا گیا ہے کہ موٹر وہیکل آرڈیننس 1965ء ایک صوبائی قانون ہے جس کے تحت ہر صوبے کا رہائشی صرف اپنے ہی صوبے میں گاڑی رجسٹر کروانے کا مجاز ہے۔ 

عام خیال یہ ہے کہ اسلام آباد میں رجسٹرڈ شدہ گاڑی پنجاب یا پاکستان کے دیگر صوبوں میں رجسٹرڈ شدہ گاڑی کے مقابلے میں مہنگے داموں فروخت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اسلام آباد اور پاکستان کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں پنجاب میں موٹر رجسٹریشن کی فیس زیادہ ہے جس کی وجہ سے لوگ یہاں کے بجائے دوسرے صوبوں میں گاڑیاں رجسٹرڈ کرواتے ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ جو گاڑی کراچی میں 24 یا 25 ہزار میں رجسٹرڈ ہوتی ہے اور اسلام آباد میں 32 ہزار میں ہوتی ہے وہی گاڑی پنجاب میں 40 ہزار تک میں رجسٹرڈ ہوتی ہے۔ اب یہ کان الٹا پکڑنے والی بات ہی ہے کہ رجسٹریشن فیس میں کمی نہیں لائی گئی لیکن دوسرے صوبوں میں رجسٹریشن پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اگر پنجاب کا ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ دیگر صوبوں اور اسلام آباد کی طرح رجسٹریشن ٹیکس میں کمی کرے اور سہولیات فراہم کرے تو لوگ یہیں اپنی گاڑیاں رجسٹر کروائیں گے۔

پیسوں کا ریونیو کا معاملہ اپنی جگہ لیکن میرے خیال میں ایسے فیصلوں سے صوبائیت کو فروغ ملتا ہے اور تیرے میرے کی دوڑ شروع ہو جاتی ہے۔ سوچنا پڑتا ہے کہ یار یہ ہم کس طرف چل پڑے ہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 15جون 1948ء کو اپنے ایک خطاب میں کہا تھا: ”ہم سب پاکستانی ہیں اور ہم میں سے کوئی بھی سندھی، بلوچی، بنگالی، پٹھان یا پنجابی نہیں ہے۔ ہمیں صرف اور صرف اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہونا چاہیے۔“ پہلے مشرقی اور مغربی کی پہچان کے باوجود ایک پاکستان تھا۔ ون یونٹ فارمولے کے تحت اس کو دو یونٹوں میں تقسیم کیا گیا تو ملک ہی تقسیم ہو گیا۔ اب اگر گاڑیوں کی رجسٹریشن کے حوالے سے ایک بار پھر صوبائیت کی بات کی گئی تو ظاہر ہے اس سے مسائل پیدا ہوں گے۔ عجیب بات ہے کہ گاڑیوں کی رجسٹریشن پر بھی صوبے کی بات کی جا رہی ہے۔ اگر سارا پاکستان میرا اور باقی سب کا ہے تو پھر گاڑیوں کی رجسٹریشن کے حوالے سے صوبائی تخصیص کیوں؟ جس کا پاکستان کا شناختی کارڈ ہے پورے پاکستان میں اس کا حق ہے کہ ہر جگہ جو مرضی خریدے جو مرضی کرے۔ لوگ دبئی میں جا کے پراپرٹی اور دوسری چیزیں لیتے ہیں‘ یہاں پر ان کو منع کیا جا رہا ہے۔ صوبائیت اور لسانیت پیدا نہیں کی جانی چاہیے۔ اگر پنجاب حکومت یہ چاہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اپنی گاڑیاں یہاں  رجسٹرڈ کرائیں تو اپنے محکموں کو ٹھیک کریں۔ رجسٹریشن ریٹ پورے پاکستان میں ایک جیسے کریں تاکہ کسی کو دوسرے صوبے یا اسلام آباد اپنی گاڑی رجسٹرڈ کرانے کا خیال بھی نہ آئے۔ اسلام آباد لوگ اس لیے بھاگتے ہیں کہ وہاں رجسٹریشن کرانا سستا تھا اور یہاں پر ٹیکسز بہت زیادہ تھے۔  ان کو اس معاملے میں کمپٹیشن پیدا کرنا چاہیے نہ کہ عوام کو کہیں گے جی آپ لاہور مطلب پنجاب کے ہیں اور آپ دوسرے صوبوں سے ہیں۔ پورا پاکستان ہمارا ہے۔ پورے پاکستان کو سارے پاکستانیوں کا رہنے دیں۔ 

مزید :

رائے -کالم -