نیب لاہور کا ایک اچھا کام

نیب کا ادارہ ماضی میں مثالی نہیں رہا، غیر مستند خبروں، نامعلوم خطوط کو بنیاد بنا کرنیب حکام کسی بھی شریف شہری کی پگڑی اچھالنے کے لئے پل پڑتے تھے، خاص طور پر بیوروکریسی اور انتظامی عہدیدار ان کا نشانہ ستم رہے،اگر چہ سیاستدان بھی مشق بنے مگر سیاسی دباؤ اور عدالتی ریلیف ان کے کام آتا رہا،چونکہ فائل ورک میں بیوروکریسی ہی سامنے ہوتی ہے لہٰذا زد میں اکثر یہی رہے،کسی بھی ملک کو کرپشن سے بچانے اور حکمرانوں کو قانون کے دائرے میں رکھنے کیلئے احتساب ناگزیر ہے،ماضی میں مگر احتسابی ادارہ شتر بے مہار تھا،سب کا احتساب کرتا مگر اس کا احتساب کرنے والا کوئی نہ تھا،قوم نے دیکھا کہ صبح کسی سیاستدان،سرکاری افسر،کسی تاجر، ڈویلپر کو بڑے شور شرابے سے گرفتار کیا اور رات کو وہ بد ترین مجرم مقدس گائے بن گیا،نواز شریف کے ساتھ جو ہوا ایک دنیا نے دیکھا مگر چند سال بعد وہ بے گناہ ٹھرے،آج عمران خان کیخلاف بھی وہی حربے آزمائے جارہے ہیں،قوم کی اکثریت کو یقین ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد یہ تمام کارروائی بھی لپیٹ دی جائے گی، یکطرفہ، امتیازی، جانبدارانہ احتساب کا یہ سلسلہ دراز روکنے کے لئے ہر حکومت نے نیب قوانین میں ترمیم کی مگر اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر نتیجے میں احتسابی ادارہ انتقامی ادارے میں تبدیل ہو گیا۔
ایک وقت ایسا آیا کہ بیورو کریسی نے احتسابی ادارہ کی کارروائیوں سے خوفزدہ ہو کر کام کرنا،فیصلے لینے ہی چھوڑ دئیے، تحریک انصاف حکومت نے صورتحال کا نوٹس لیا اور تب کے وزیراعظم عمران خان نے نیب قوانین میں اہم ترامیم متعارف کرائیں،پی ڈی ایم حکومت نے سیاستدانوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں روکنے کے لئے نیب سیکنڈ ترمیمی بل کی منظورکیا، جس کے تحت احتساب کرنے والے اس وفاقی ادارے کے اختیارات میں کمی کی گئی، ترامیم کے بعد نئے چئیرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل (ر)نذیر احمد اور ڈی جی نیب لاہور امجد اولکھ نے خصوصی طور پر نیب کا قبلہ درست کرنے کی کامیاب کوشش کی،نتیجے میں احتسابی عمل بھی جاری ہے اور خوف کی تنی چادر بھی لپیٹ دی گئی۔
آئینی ماہرین کا کہنا ہے ترمیم کا نقصان بھی ہوا ہے کہ کلاز ایف کے تحت فیڈرل یا صوبائی قانون کے مطابق قائم کی گئی ریگولیٹری اتھارٹی کے تمام معاملات کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال لیا گیا، یوں ریگولیٹری اتھارٹی کو نیب کے قانون سے مکمل استثنیٰ دے دیا گیا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ساری بدعنوانیاں یا غیر قانونی کام اسی ریگولیٹری اتھارٹی کے ذریعے کرائے جاتے تھے،اسی طرح بے نامی پراپرٹی کے سلسلے میں بھی جو ترمیم کی گئی ہے اس کی تعریف کو اس طرح تبدیل کیا گیا کہ نیب کے لئے اس معاملے میں بھی ہاتھ ڈالنا مشکل بنا دیا گیا ہے، ترمیم کی اچھی بات یہ کہ پہلے نیب کو اختیار تھا کہ وہ نوے روز تک ملزم کو اپنی تحویل میں رکھ سکتی تھی، اب اس مدت کو گھٹا کر 14روز کردیا گیا جیسا کہ دوسرے جرائم کے سلسلے میں ہے، اسی طرح ملک کے مروجہ کرمنل قوانین اور ان کے تحت طریقہ کار کے مطابق نیب کوکسی بھی ملزم کو چوبیس گھنٹے کے اندر عدالت کے سامنے پیش کرنا ہوگا،جس کی تائید سیاسی اور آئینی و قانونی حلقوں نے بھی کی۔
احتساب کی آڑ میں انتقامی کارروائی کا سلسلہ ایوبی دور میں شروع ہوا،پھر یحییٰ خان کے دور میں بھی جاری رہا، 1996 میں بینظیر حکومت کی برطرفی کے بعد ملک معراج خالد کی قیادت میں بننے والی نگراں حکومت نے جس کا کام انتخابات کرانا تھا اپنے اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے ایک صدارتی فرمان کے ذریعے ایک احتساب کمیشن قائم کیا، جس کے بعد انتخابات ہوئے اور اس وقت کی مسلم لیگ نواز کی حکومت نے احتساب ایکٹ 1997ء کی ترمیم کے ذریعے احتساب کمیشن کی توثیق کی، تحقیقات کے اختیارات چیف احتساب کمشنر سے لے کر ایک احتساب سیل کو دے دیئے گئے جو وزیراعظم سیکرٹریٹ میں قائم کیا گیا اور جس کے سربراہ وزیراعظم کے قریبی معتمد سینیٹر سیف الرحمان تھے، فروری 1998ء میں قانون میں ایک صدارتی آرڈیننس کے تحت مزید ترامیم کی گئیں اور اس کا نام احتساب سیل سے بدل کر احتساب بیورو کر دیا گیا، 1999ء میں یہ ادارہ قومی احتساب بیورو یا نیب بنا،اس کے بعد بھی ہر حکومت نے نیب قوانین کو مخالفین کے لئے شکنجہ اور خود اپنے نکلنے کے راستے ہموار کئے،جس کے باعث احتساب قوانین بلکہ ادارہ بھی متنازع بن کر رہ گیا۔
نیب حکام کو شکوہ ہے کہ سیاسی بنیاد پر ہمیشہ ان کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن اس کے اچھے کاموں کی کبھی توصیف نہیں کی گئی،اس صورتحال کی کچھ ذمہ داری نیب کے سابق روئیے پر بھی ہے جب نیب کو سیاسی مقدمات ہی اہم دکھتے اور ان کی ساری توجہ سیاسی مقدمات پر رہی جس کے باعث عام شہری نیب کے فیض سے یکسر محروم ہو گیا، حالانکہ نچلی سطح پر معاشرہ میں عام شہری بھی جعلساز گینگز کے ظلم کا شکار رہا ہے لیکن ایک سیاستدان کیخلاف خبر پر آسمان سر پر اٹھانے والوں نے اب عوام کو دئیے جانے والے ریلیف کو خبر ہی نہ جانا،ویسے نئے نیب سر براہ شاید درویش طبیعت کے مالک ہیں کہ ان کو میڈیا سے کوئی غرض ہے نہ خبر سے،وہ عام شہری کو ریلیف دینے کے لئے سر جھکائے کام کئے جا رہے ہیں، ٹی وی سکرین کی زینت بنتے ہیں نہ اخبارات کی سرخیوں میں آنے کے خواہشمند ہیں،امجد اولکھ کی قیادت میں نیب لاہور نے بڑا کام کیا،سالوں سے دھکے کھاتے 8ہزار سے زائد شہریوں کو ان کی جمع پونجی واپس لوٹائی،جس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں، جس نیب کو لوگ بد دعائیں دیتے تھے امجد اولکھ کی محنت اور لگن کی وجہ سے اب اسے دعائیں مل رہی ہیں۔
لاہور میں ہونے والی تقریب میں نیب سربراہ نے 8310متاثرین میں پلاٹس کے ایلوکیشن لیٹر تقسیم کئے،یہ شہری سالوں سے ادائیگی کے باوجود پلاٹ لینے کے لئے در بدر تھے، اس موقع پر جن شہریوں نے ہاؤسنگ سکیم میں پیسے جمع کرائے تھے اور ان کو پلاٹ نہیں مل رہے تھے ان کو ان کی جمع کرائی گئی رقم واپس دلائی گئی اور متاثرین میں 97 کروڑ کے چیک تقسیم کئے گئے،ملک بھر میں پلاٹس کی آڑ میں عوام سے دھوکہ دہی کا عمل عرصہ سے جاری ہے، متاثرین کے پاس حصول انصاف کے لئے کوئی راستہ نہیں مگر نیب نے یہ کیس اٹھایا اور غریب شہریوں کو انصاف دلایا،تقریب میں جن لوگوں کی اشک شوئی کی گئی انہوں نے 20سال قبل پلاٹس کی قیمت ادا کی مگر آج تک پلاٹس سے محروم تھے،نیب لاہور نے 71ارب کی سیٹلمنٹ کی جو ملکی تاریخ کی سب سے بڑی سیٹلمنٹ ہے،ان میں ایک ہاؤسنگ سوسائیٹی ایسی تھی جس نے فائلیں تو فروخت کر دیں مگر اس کے پاس ایک انچ زمین نہ تھی،یہ ہے کرنے کا اصل کام،بڑے پیمانے پر ہونے والی کرپشن سب کو دکھائی دیتی ہے اس پر شور بھی مچتا ہے اور کارروائی بھی ہوتی ہے مگر عوام کی جیب پر ڈاکہ ڈالنے والوں کے خلاف کارروائی نیب کا شاندار کارنامہ ہے،جس کی تعریف نہ کرنا انتہائی بخیلی ہو گی،اس نوعیت کے اور بھی بہت سے معاملات ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ عام شہری کو انصاف مل سکے۔