مسلم ممالک کے مسائل اور کنفیوژن پھیلانے والے دانشور

مسلم ممالک اِن دِنوں گو ناں گوں مسائل سے دو چار ہیں۔ اِن مسائل میں سیاسی، معاشی، سماجی اور دیگر مسائل شامل ہیں۔ سب سے اہم مسئلہ بڑھتی ہوئی انتہا پسندی، فرقہ واریت، عدم برداشت اور دہشت گردی ہے۔ اِن مسائل نے مسلم اُمہ کو اقوام عالم سے دہائیوں پیچھے کی طرف دکھیل دیا ہے۔ سیاسی مسائل کی بات کی جائے تو یہ المناک صورت حال سامنے آتی کہ بیشتر ممالک مستقل بنیادوں پر اپنے سیاسی نظام کی سمت متعین کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اہم اسلامی ممالک، جن میں ترکی، بنگلہ دیش، مصر، پاکستان اور انڈونیشیا شامل ہیں، ان میں جمہوریت، اسلامی نظام اور سیکولر ازم کے بارے میں مختلف رویے سامنے آتے ہیں اور یہ ممالک متفقہ طور پر کوئی سیاسی نظام وضع کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان میں نظام حکومت ایک آئین کے تحت چل رہا ہے اور جب تک آئین پاکستان اصل شکل میں موجود ہے تو سیکولرازم وغیرہ کی بحث بے مقصد ہو گئی ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی جمہوریت، اسلامی نظام اور سیکولرازم کے ماننے والوں میں کشمکش جاری ہے۔ جب بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا تو مُلک کو سیکولر قرار دیا گیا، بعد میں ضیاء الرحمن کے دورِ حکومت میں اسے اسلامی بنا دیا گیا، اب پھر موجودہ حکومت سیکولرازم کی پالیسیوں پر عمل کر ر ہی ہے۔ مصر میں بھی جمال عبدالناصر نے سیکولر پالیسیوں کا آغاز کیا۔ اخوان المسلمین نے اسلامی نظام کے لئے بھرپور جدوجہد کی اور اسلام پسند الیکشن میں بھی کامیاب ہو گئے، لیکن پھر اُن کی حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا اور فوجی حکمرانوں نے اقتدار سنبھال لیا۔ ترکی میں بھی اسلام اور سیکولر ازم کے مابین کشمکش نہ صرف پرانی ہے، بلکہ ہنوز جاری ہے۔
کمال اتاترک نے انقلاب کے بعد ترکی کو سیکولر مُلک قرار دیا اور آرمی کو سیکولرازم کا محافظ بنایا۔ سیکولرازم کی آڑ میں بہت سی انتہا پسندانہ پالیسیاں نافذ کر دی گئیں، لیکن طویل جدوجہد کے بعد موجودہ صدر طیب اردوان سیکولرازم کی انتہا پسندانہ شکل تبدیل کرنے میں خاصی حد تک کامیاب ہو گئے ہیں۔ انہوں نے سیکولرازم کا خاتمہ تو نہیں کیا، لیکن اسلامی اقدار کو بحال کرنے کی عملی کوششیں کیں، جن میں کافی حد تک وہ کامیاب نظر آتے ہیں۔ بظاہر تو ترکی مسلم اُمہ کے لئے ایک مثالی مُلک بنتا جا رہا تھا، لیکن حالیہ فوجی بغاوت نے اِس مُلک کے سیاسی نظام کی کمزوریوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ طیب اردوان نے ترکی میں ناکام بغاوت کے بعد جن انتقامی کارروائیوں کا آغاز کیا ہے، اِن کے نتیجے میں ترکی کے مستقبل کے بارے میں بے یقینی کی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ استنبول کے میئر نے فرمایا ہے کہ فوجی بغاوت کے باغیوں کے لئے علیحدہ قبرستان بنایا جائے گا اور عوام اُن پر لعنت کرتے رہیں گے۔ آپ اندازہ کریں کہ اس ترقی یافتہ دور میں کوئی سیاست دان اس طرح کی باتیں بھی کر سکتا ہے۔ اس طرح کے اقدامات ترکی کو صدیوں پیچھے کی طرف لے گئے ہیں، جب عباسی حکمرانوں نے بنو امیہ کی قبروں کو کھود کر اُن کی بے حرمتی کی تھی۔ تڑپتی لاشوں پر دستر خوان بچھائے گئے تھے۔ اتنا خون بہایا گیا تھا کہ پہلے عباسی حکمران کا نام السفاح، یعنی خون بہانے والا پڑ گیا تھا، بعد میں بھی مسلم اور غیر مسلم حکمران مخالفین کا بے دردی سے خون بہاتے رہے ہیں۔
اہلِ مغرب نے کم از کم تاریخ سے اتنا سبق ضرور سیکھا ہے کہ اب اِن ممالک میں مہذب طریقے سے قتل و غارت کے بغیر حکومتیں تبدیل ہو جاتی ہیں، جبکہ مسلم ممالک میں سانپ اور سیڑھی کا کھیل ابھی جاری ہے۔ جب ہم سیڑھی چڑھنے لگتے ہیں تو امید کی کرن پیدا ہو جاتی ہے، لیکن پھر کچھ عرصے بعد ہی سانپ کے مُنہ میں آ جاتے ہیں اور پھر کئی دہائیاں پیچھے کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔مسلم ممالک کے یہ سیاسی مسائل نئے نہیں ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ جس طرح دیگر اقوام نے اپنے سیاسی مسائل حل کر لئے ہیں یا کسی حد تک مسائل سے نکل گئے ہیں تو مسلم ممالک ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ ایسا کیوں ہے؟۔۔۔ یہ ہمارے باعلم اور دانشور حضرات کے لئے لمحہ فکر یہ بھی ہے اور ایک چیلنج بھی ہے کہ وہ مسلم اُمہ کے سیاسی انتشار کی وجوہات تلاش کریں اور نوجوان نسل اور حکومتوں کی صحیح سمت میں رہنمائی کریں۔ اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو یہ افسوسناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہمارے بیشتر صاحب الرائے اور دانشور حضرات یہ فریضہ ادا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہ دانشور اپنے تجزیوں میں ایماندارانہ سوچ کی بجائے ذاتی پسند اور ناپسند کو فوقیت دیتے ہیں۔ آئین پاکستان ہمیں نظام حکومت کا ایک فریم ورک فراہم کرتا ہے اور مہذب انداز سے حکومتوں کی تبدیلی کی بنیاد فراہم کرتا ہے، لیکن ہمارے عظیم دانشور اس آئین کے بھی در پے رہے ہیں۔
دلیل دی جاتی ہے کہ ہم قانون کو کیا کریں،ادھر تو فلاں فلاں قتل ہو رہا ہے، یعنی ان کے خیال میں اگر آئین اور قانون قاعدے نہ ہوں تو ملک میں امن و امان قائم ہو جائے۔۔۔ کیسی مضبوط دلیل ہے کچھ دانشور ایسے ہیں جو جمہوریت کو بُرا بھلا نہ کہیں تو ان کا کھانا ہضم نہیں ہوتا، لیکن اگر اُن سے پوچھا جائے بھئی یہ موجودہ گندمی، ذلیل، بدبودار جمہوریت کو ختم کر دیتے ہیں تو کیا پھر مسائل حل ہو جائیں گے تو پھر آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں۔ کچھ دانشور ایسے ہیں جو پیشن گوئیوں کی بنیاد پرخون کی ندیاں بہنے کی باتیں کرتے ہیں اور اس طرح قتل و غارت کو سندِ جواز فراہم کرتے ہیں۔ قتل و غارت کو خوش آئند قرار دینے والوں کی صف میں روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کے ایک صاحبِ علم کالم نگار بھی شامل ہو گئے ہیں۔ یہ کالم نگار اپنے علمی انداز اور مضبوط دلائل کی وجہ سے ممتاز مقام رکھتے ہیں، لیکن اپنے مورخہ26جولائی کے کالم میں انہوں نے وہی باتیں کی ہیں جو اس سے پیشتر ہمارے کئی دانشور کرتے آئے ہیں، یعنی معاشرے میں کنفیوژن پیدا کرنا، واضح لائحہ عمل نہ دینا، ناپسندیدہ اور قابلِ نفرت افعال کے لئے سندِ جواز فراہم کرنا۔ کالم نگار موصوف کا کالم مَیں نے بار بار پڑھا، لیکن یہ معلوم نہ کر سکا کہ انہوں نے اپنے کالم میں دولت اسلامیہ کی حمایت کی ہے یا مخالفت۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلم اُمہ کی کوئی آزمائش ہے یا پھر کوئی اور معاملہ ہے کہ ہمارے صاحبِ علم حضرات اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔