اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔قسط نمبر17

Jul 30, 2018 | 04:45 PM

آغا شورش کاشمیری

۳۔۔۔۔ کا کوٹھی خانہ ہے ، خیر سے حافظ جی ہیں بظاہر محلہ شیخو پوریاں میں واشنگ فیکٹری کھول رکھی ہے ایک حرافہ جو دل سے ساتھ نہیں اس کے نرغہ میں ہے۔ یہ اس سے نصف کی پتی لیتا اور چوری چھپے الکحل بیچتا ہے۔ جب سے حکومت نے شراب بند کی ہے یہ اور ایسے کئی لوگ سپرٹ میں کیمیاوی اجزا ملا کر شراب کے نام سے فروخت کر رہے ہیں جس سے اکثر موتیں واقع ہوچکی ہیں۔ ‘‘ 
۴۔۔۔ کا کوٹھی خانہ ۔ یہ واحد عورت ہے جس نے بہت بڑے پیمانہ پر اپنا کاروبار چلا رکھاہے۔ اس کی آمدنی کئی قسم کے لوگ کھا جاتے ہیں ، اس کے ہاں مستقل لڑکیوں کے علاوہ باہر سے بھی کچھ لڑکیاں آتی ہیں۔ ‘‘ 

اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔قسط نمبر16 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہ واقعہ ہے کہ کئی لڑکیوں کے والدین انہیں رات بھر کے لئے چھوڑ جاتے ہیں اور وہ دن چڑھے کمائی لے کر واپس چلی جاتی ہیں۔ کچھ ازخود چلی آتی ہیں ایک لڑکی جو کچھ کماتی اس کا نصف مالکن لیتی ہے۔ کچھ مکان کے کرایہ میں وضع ہوجاتا ہے کچھ دلال لے جاتے ہیں اور لڑکی کے حصہ میں ایک تہائی رہ جاتا ہے ۔‘‘ 
’’ ان لڑکیوں میں سے کسی کا پتہ معلوم ہے ؟‘‘
کیوں نہیں ۔۔۔ لیکن کسی کے ماں باپ کا پتہ دینا ہمارے ہاں کا رواج نہیں ہے ۔ 
ان کے علاوہ جو چھوٹے چھوٹے کوٹھی خانے ہیں وہ کمی بیشی سے انہی لائنوں پر چل رہے ہیں۔ ایک بڑی مصیبت یہ آپڑی ہے کہ اب پڑھی لکھی لڑکیاں بھی شامل ہوتی جار ہی ہیں۔ ادھر ایک لڑکی صغریٰ رہتی ہے جو فرفر انگریزی بولتی ہے لیکن ماں باپ کی غلطی سے یہاں آ بیٹھی ہے۔ اس نے کالج میں کسی نوجوان سے دوستی پیدا کی اور اسی کے ساتھ نکل گئی۔ وہ ذلیل انسان ہفتہ عشرہ ہی میں غائب ہوگیا ۔ صغریٰ نے ماں باپ کی طرف لوٹنا چاہا کہ خاندانی عزت کا بت مزاحم ہوگیا اب بقول خود والدین کے شہر ہی میں والدین کی غیرت سے انتقام لے رہی ہے وہ کہا کرتی ہے ’’ میرا وجود ایک دعوت ہے اُن لوگوں کے لئے جو ہمیں کھلونا سمجھتے اور اپنی خواتین کوعزت کا موتی کہتے ہیں۔ میرا ماضی ایک احتجاج ہے اُس معاشرت کے خلاف جو محض رواج ہی رواج ہے ، میرا حال ایک طنز ہے اُن باپوں کے خلاف جن کی بیٹیاں چوری چھپے معاشقے کرتی ہیں ، میرا مستقبل ایک قبر ہے اور اس پر ایک ہی کتبہ ٹھیک بیٹھ سکتا ہے۔ 
دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو 
میں نے سوال کیا ۔’’ اگر تمہیں اس ملک کا وزیراعظم بنا دیا جائے تو تم کیا کرو؟‘‘
وہ مسکرائی اور کہا۔ ’’ میں سب سے پہلے تمام معاشقے بند کر ڈالوں ۔ شراب ، چرس ، بھنگ ، افیون ، چانڈو۔!‘‘ 
’’کیوں ‘‘؟
’’ اس لئے نہیں کہ شرعاً حرام ہیں ، صرف اس لئے کہ ان کے استعمال سے جوان ، جوان نہیں رہتا ۔‘‘
ہم بے اختیار ہنسے ، اُس نے کہا ’’معاف کیجئے ہمارے مکان میں ہر قوم کی عزت اس کے جوان ہوتے ہیں میں دعوے سے کہہ سکتی ہوں کہ سو میں سے ستر چہروں سے تو جوان ہیں لیکن ان کی ہمتیں بوڑھی ہوچکی ہیں۔ ‘‘ 
****
ممتاز کی زبانی 
کاش دنیا میں کسی شے کا کوئی نام نہ ہوتا ۔۔۔ شلر 
شمشاد ، امتیاز ، ممتاز اور شہناز چار بہنیں ہیں ۔ ان کا والد امرت سر میں برادری کا چودھری تھا۔ لاہور میں ان کی دو چچیری بہنیں ہیں زہرہ اور مشتری، آغا حشر والی مختار ان کی خلیری بہن ہے۔ ملک کی تقسیم سے پہلے چاروں امرت سر میں رہتی تھیں اور وہاں ان کا بڑا نام اور کام تھا۔ اب پانچ برس سے لاہور میں رہ رہی ہیں بڑی ملنسار ہیں ، ان کا وجود ایک ڈیرہ دار طوائف کے خصائص کا صحیح مظہر ہے ، ان سے ملنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ وہ طوائف جس کی سر پرستی بادشاہتیں اور پھر ریاستیں کرتی رہی ہیں اس کی خصوصیات کیا ہوتی تھیں۔ شمشاد اپنے دن بتا چکی ہے اور اب اُن کی جوانی کا دم واپسیں ہے وہ ایک سرو قامت عورت ہے ، رنگ سفید بدن اکہرا، کہاجاتا ہے جب اس کے عروج کا زمانہ تھا تو بڑے بڑے مہاراج ادھیراج اس کے مکان کا طواف کرتے وہ ’’اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خاں خلد اللہ ملکہ ، وسلطنت‘‘ کے محل میں گا چکی ہے۔ شہزادہ معظم جاہ اس کو مجرے کے لئے بلُاتا رہا اس نے لاکھوں روپے کھرے کئے ہیں ان پڑھ ہے ، لیکن بات چیت ، لب ولہجہ ، چال چلن اور نشست و برخاست اس قدر تستعلیق ہیں کہ یہاں بعض دوسرے گھروں میں یہ جامعیت بالکل نہیں ہے ، اس کی شعلہ صفت آواز میں اب بھی ایک ٹھیراؤ ہے لیکن جوانی میں بڑے بڑے مغنی لوہا مانتے تھے اُس نے زندگی بھر دیوانے پیدا کئے لیکن خود کبھی دیوانہ نہیں ہوئی ، وہ عشق کو غالب کی ہمنوائی میں دماغ کا جلل سمجھتی ہے ، اس کی مجلس میں آج بھی بڑے بڑے وارفتگان شوق چلے آتے ہیں۔ ادیب آتے ہیں وزیر آتے ہیں صحافی آتے ہیں خطیب آتے ہیں جج آتے ہیں لیڈر آتے ہیں چونکہ امرتسر کی اکثر سیاسی تحریکوں کا بڑا حصہ اس کی نظروں کے سامنے گذرا ہے اس لئے وہ بعض اہم سیاسی معرکوں پر بھی گفتگو کر لیتی ہے۔ 
امتیاز اور ممتاز جڑواں بہنیں ہیں۔امتیاز ان سب میں جسم کے اعتبار سے گاہکوں کو مرکز رہی ہے لیکن اب اس پیشے ہی سے متنفر ہے اس کا دل محبت کی ٹھوکر کھا چکا ہے کہا کرتی ہے جس شخص نے اس پیشہ کو ایجاد کیا تھا وہ آنکھوں سے اندھا ، کانوں سے بہرا ، زبان سے گونگا اور دماغ سے فاتر تھا، اس کی زبان میں مٹھاس ہے ، وہ ایک ہوشیار سیاست دان کی طرح گھمبیر ہے ، اپنے دل کا راز کسی سے نہیں کہتی ، لیکن کسی کو دھوکا دینا بھی اس کی فطرت کے خلاف ہے ، اب اس کا رنگ روپ ڈھل رہا ہے اور بدن بھی فربہ ہوچکا ہے لیکن پھر بھی محبت کی چیز ہے اس کی سب بہنیں اس سے محبت کرتی ہیں اور وہ سب بہنوں کی منشا کے خلاف کسی اور سے محبت کرتی ہیں۔ 
ممتاز چھوئی موئی ہے اس کا رنگ کھلتا ہو گندمی ہے ، وہ طوائف ہونے کے باوجود مرد سے نفرت کرتی ہے۔ اس کا محبوب مشغلہ سگریٹ کے دھوئیں کے مرغولوں میں لطائف گھڑنا ہے ، وہ رات کا دیپک ہے لیکن دن میں اس کا چہرہ ایک سپنا سا محسوس ہوتا ہے اُس کی زبان کترنی کی طرح چلتی ہے۔ ہو امیں گرا لگانا اور پانی پر لکیر کھینچنا اس کے بائیں ہاتھ کا کرتب ہے اس نے ایف اے تک تعلیم حاصل کی ہے، اپنے پیشے سے باہر کے واقعات کو بھی جانچ تول لیتی ہے بلا کی ذہن ہے ، بذلہ سنج ہے ، طناز ہے ، موقع محل سے شعر پڑھ لیتی ہے ، فقرہ باز ہے اس کو الفاظ مسخ کرنے اور ذو معنی جملے کہنے میں کمال حاصل ہے ، گاتی بھی خوب ہے ، لیکن ناچتی نہیں ، اس کا خیال ہے ناچنا ہر عورت کے بس کی چیز نہیں اور وہ بے بس ہے اُس کی رائے میں عورت محبت کرنے کی چیز ہے ، سمجھنے کی نہیں اور مرد سمجھنے کی چیز ہے محبت کرنے کی نہیں ، وہ کسی مرد کو بھی محبت کے قابل نہیں سمجھتی ، اس کا لہجہ خواندہ ہونے کے باوجود کبھی کبھار کرخت ہوجاتا ہے لیکن جب وہ چٹکی لیتی ہے تو ایک دفعہ رونی سے رونی صورت بھی مسکرا اُٹھتی ہے۔ (جاری ہے )

اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔قسط نمبر18 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں