جیل کرپشن

حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں اور لوٹ مار کی بڑھتی ہوئی سیاست نے پاکستانی معاشرہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اب ڈھونڈنے سے بھی کسی پارسا اور ایماندار افسر کاملنا مشکل ہو چکا ہے۔ ہر سیاستدان اور ہر شخص کو معلوم ہو چکا ہے کہ کون کون کرپٹ ہے اور کس کو کتنے پیسے دے کر کون سا کام نکلوایا جاسکتا ہے ،مگر کوئی بھی اس پر ایکشن لینے کو تیار نہیں ہے ۔
پنجاب کی جیلیں اس وقت کرپشن کا گڑھ بن چکی ہیں ۔منشیات سرعام فروخت اوراستعمال کی جاتی ہےں۔ ایک عام سے حوالاتی کو بھی معلوم ہے کہ جیل کے اندر منشیات کیسے اور کہاں سے فراہم کی جاتی ہیں؟ آئی جی اور ڈی آئی جی کی بھینسوں کو سنبھالنے والا جیل میں کیسے بدمعاشی کرتا ہے اور مشقت سے جی چرانے والے 1000 روپے سے لے کر 2000 روپے تک دے کر کیسے ٹھاٹھ سے شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں اور جیل کے اندر سے اپنا بزنس کرنے والے کروڑوں کا بزنس بھی بڑے سکون سے کررہے ہیں۔ جیل تو ان کے لئے سونے کی چڑیا بن چکی ہے۔ ہر ماہ لاکھوں روپے جیل سے کمانے والے کس کس کی جیبوں میں ان کا حصہ پہنچاتے ہیں ،ان سب باتوں کا جیل کے اندر اور باہر ہر کسی کو علم ہے ،مگر اس کے باوجود ہر طرف ہو کا عالم طاری ہے اور سب اپنا پنا حصہ وصول کر کے بارود کے ڈھیر پر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے بیٹھے ہوئے ہیں۔
جیلوں میں تعیناتیوں سے لے کر تبادلوں تک سفارش اور رشوت عام ہے، جس نے کچھ دے دیا، اس کو نوکری بھی مل گئی اور جس نے نہ دیا ،اس کی ڈیوٹی بھی سخت اور افسر کا رویہ بھی کرخت۔ جیل میں کمانے والے ہر فرد کی عزت کی جاتی ہے۔ خواہ وہ ملازم ہو یا قیدی.... پنجاب کی ہر جیل میں موبائل کا استعمال عام ہے اور لاہور کی ایک جیل ایسی بھی ہے ،جہاں پر جیلر کو معلوم ہونے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی جاسکتی ،کیونکہ اس کو پکڑنے سے اس کے اپنے پر جلتے ہیں اور ان تمام کارروائیوں کا آئی جی تک کو معلوم ہے، مگر معلوم نہیں کہ یہ سب افسران اپنا پنا حصہ لے کر خاموش ہیں یا اپنے سے اوپر والوں کے ڈر کی وجہ سے دبے ہوئے ہیں ؟اس کے ساتھ ساتھ جیلوں میں جن کی سفارش ،پیسہ یا ڈر زیادہ ہے، ان کو ہر چیز کھانے میں مینو کے مطابق دی جاتی ہے، بلکہ جیل انتظامیہ کوشش کرتی ہے کہ ان کو جیل کے معیار سے بھی بہتر کھانا پیش کیا جائے ،تاکہ ان کی نوکری اور زندگی دونوں سلامت رہ سکیں۔
ان کے مقابلے میں ایسے حوالاتی اور قیدی ،جن کے پاس نہ سفارش اور نہ رشوت ان کو ہر جگہ رول ماڈل بناکر پیش کیا جاتا ہے ،کیونکہ ایک چھوٹے سے چھوٹے کام سے لے کر بڑے سے بڑا کام بھی ان کی ذمہ داری بن جاتا ہے۔ یہ لاوارث قیدی پیسے والوں کے مشقتی کے طور پر بھی کام کرتے ہیں اور جیل کی صفائی ستھرائی بھی انہی کے ذمے ہوتی ہے۔پتا نہیں ان سب باتوں کے پیچھے کس کا کمال ہے، جو اتنی ہوشیاری سے سب کچھ دبایا جارہا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ اینٹی کرپشن پنجاب بھی کرپشن کا گڑھ بن چکا ہے، جہاں پر موجود عابد جاوید اسے سدھارنے کی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں ،مگر بعض کیسوں میں اینٹی کرپشن کے ڈی جی کے احکامات بھی ہوا میں اڑا دیئے جاتے ہیں ۔
اس وقت محکمہ اینٹی کرپشن پھر اپنی پرانی ڈگر پر گامزن ہو رہا ہے، اگر اس محکمے کی ساکھ کو بچانا ہے تو عابد جاوید اپنے ساتھ ایسی ٹیم رکھیں ،جس میں ڈی ایم جی اور پی سی ایس کا تعصب نہ ہو،ورنہ ان کی ساری محنت پر پانی پھر جائے گا اور نیک نامی کی بجائے ان کا شمار بھی حسب سابق پرانے افسران کی فہرست میں شامل ہو جائے گااور کہیں ایسا نہ ہوکہ محکمہ جیل کی کرپشن کو اینٹی کرپشن مات دے دے.... ان باتوں کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت نے پنجاب اسمبلی میں کام کرنے والے افسران کو اگلے گریڈ میں ترقی دے دی ہے۔ ترقی پانے والوں میں سیکرٹری اسمبلی ملک مقصود احمد گریڈ22میں ،سپیشل سیکرٹری رائے ممتاز اور آفتاب جوئیہ گریڈ 21میں،ایڈیشنل سیکرٹری حافظ شفیق اور پی ایس او ٹو سپیکر عارف شاہین گریڈ 20میں ،سٹاف افیسر ٹو ڈپٹی سپیکر محمد اکبر گریڈ 19میں شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سوشل ویلفیئر لاہور میں شفیق احمد کے آنے سے بھی محکمے میں بہتری کے آثار آنا شروع ہو گئے ہیںاور ان کی محنت سے لاہور کی چھوٹی بڑی انڈسٹریوں میں جو کرپشن پروان چڑھ رہی تھی، وہ بھی کچھ حد تک رک جائے گی ۔ ٭