میری اماں مر گئی
بھائی جان یقین کریں سب مال لال ہے، لالو لال ہے یعنی ”جنوبھنو اوہی لال ہے“میں تو ابھی مریم اورنگزیب کے دوہزار کی خوشی برداشت نہیں کر پا رہا تھا کہ عصر حاضر کے ارسطو اول احسن اقبال کی جانب سے بچت کے نئے عظیم نسخے نے میرا ”تراہ ای کڈ دیا“۔مرشد نے 'ارمانی' کا سوٹ 'بروکس برادر' کی ٹائی اور 'بیکٹ سیمی نان' کے برانڈڈ جوتے پہنے بلیک کافی کا سپ لگاتے ہوئے نسخہ کیمیا قوم کے ہتھ پکڑا دیا۔ فرمایا قوم معاشی بحران سے نکلنے کے لئے ایک کپ چائے کم کر دے۔ ہم ٹہرے عاشق مزاج ہمیشہ اپنے قائدین کے حکم ”جھوٹی موٹی کے ککھ "کواکھ میں ڈال کر جان کے ”اکھیاں میچ“ لینے کے عادی۔ ارسطو حاضر کے فرمان پر ہم نے اپنے گھر نیانوں اور ہم سے زیادہ سیانوں کو اکٹھا کیا۔ انہیں بتایا کہ ہم نے معاشی بحران پر قابو پانا ہے اور ایک کپ چائے کم کرنا ہے۔ ہماری نکی صاحبزادی اچانک اٹھ کے باہر گئیں اور ہم سب نے ٹھاہ کی آواز پر اپنے اپنے خوشحال خوابوں سے باہر چھال مار دی۔بیٹی آئی تو ہم چونکہ بیگم کی موجودگی میں ایسے ہی خاموش رہتے ہیں جیسے امریکی صدور کے سامنے ہمارے غیور وزرائے اعظم،بیگم نے ایک نظریہ ضرورت کی انتہائی ماہر جج کی طرح پوچھا یہ کچن میں کیاشْرلی، پٹاخے چل رہے تھے؟ بیٹی بولی میں نے احسن اقبال انکل کے حکم پر ایک چائے کا کپ کم کر دیا ہے۔ میرے دل سے ”او تینوں لوے مولا“ نکلتے نکلتے رہ گیا میں نے کہا بیٹا ”ایسے کم نہیں کرنا تھاچائے پینا چھوڑنی تھی۔ بیٹا بولا لو جی میں نے تو انکل احسن کے حکم سے متاثر ہو کر گھر کے تمام پکھوں سے دو دو پر اتا لئے ہیں۔ایک پر والا پکھا کم بجلی کھائے گااور زیادہ گرمی لگی بھی تو ہم ایک دوسرے کو ”پھلاں نال دھرتی سجا کے پکھیاں جھل“سکتے ہیں۔واہ احسن صاحب آپ نے تو آئی ایم ایف، ورلڈ بنک کے کاروبار کے پھٹے چک دیئے۔ مجھے یاد ہے ماضی میں جب بابا رحمتے نے پانی کی کمی کے حوالے سے بلبلے بلند کئے تھے۔میں نے واش روم میں دو کے بجائے ایک لوٹے سے کام چلانا شروع کر دیا تھا۔ بچت تو پھر بچت ہے نا بابو۔ بادشاہ سنتا سنگھ نے آئی ایم ایف سے ڈیل کی خوشی میں تمام قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا، رہا ہوتے قیدیوں میں اس کی نظر ایک بزرگ پر پڑی، سنتا بولا،بزرگوں آپ کدوں سے جیل میں ہو، بزرگ بولے بادشاہ سنتا میں آپ کے والد شہنشاہ بنتا سنگھ کے دور سے قید ہوں،سنتا سنگھ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور حکم دیا کہ ”بابے نوں ڈک لواے ساڈے ابا حضور دی نشانی اے۔ موجودہ حکومت ہمارا احترام ایویں نئیں کرتی۔ہم ان کے بڑے بھیا کی نشانی ہیں۔لہذٰا شیر ایک واری چھڈ کے سو واری فیر بھی آئے تو ہم نے رہنا قید ہی ہے۔
ماضی میں بکرا عید آتی تھی تو ہمیں ٹینشن شروع ہو جاتی تھی، بچے بکرے پر نہیں مانتے تھے اور ہمیں بیل خریدنا پڑتا تھا۔ پھرقصائی صاحب کی اجرت اور پھر خرچے تے خرچا۔شکریہ مریم اورنگزیب صاحبہ آپ کی وجہ سے عید کھلی ڈلی گذرے گی پانچ بیل خریدوں گا، (5) اونٹ اور لاتعداد بکرے چھ ڈیپ فریزرلئے ہیں اور ان کی بجلی کی مسلسل سپلائی کے لئے جنریٹر ز بھی لے لئے ہیں۔ اگر آپ دو ہزار روپے نہ دیتیں تو اس بار بکرا عید پہ میں اپنی قربانی دینے کا سوچ رہا تھا۔ خیر سے مہنگائی نے پہلے ہی ہمیں باں باں سکھا دی ہے،ٹیکسز نے صفائی کے ساتھ کھا ل ادھیڑ ڈالی ہے۔یعنی ”توبہ توبہ کرا دتی توں ظالماں“۔آپ کے دو ہزار نے تو میری قسمت بدل دی۔ میں ان پیسوں سے ایک طیارہ چارٹرکراؤں گا تا کہ قربانی کا گوشت ملک کے مختلف حصوں میں پہنچا سکوں، لیکن سوچتا ہوں کہ اگوں وہاں بھی آپکے دو ہزار نے لہراں بہران کرا دی ہوئیں تو ہمارے حاتم طائی اپروچ کے بوتھے پر خوشحالی کی چپیڑیں نا پڑ جائیں۔ یہ بات غلط ہے آپی مریم اورنگ زیب ہم نے توسنا تھا انہاں ریوڑیاں ونڈتا ہیتو پہلے اپنوں کے کھیسے بھرتا ہے یہ کیا بات ہوئی پوری قوم تو دوہزار کے جھولے لے اور مزے میں کہے ”پھائی پھائی زور دی“اور ہمارے مصدق ملک بھیا کے پاس زہر کھانے کو بھی پیسے نہ ہوں۔ خدارا ان کی معصوم خواہش کو پوری کرنے میں انکی مدد فرمائیں۔ بنتا سنگھ نے اپنی ریہڑی سے تازہ تازہ جلیبیاں نکال کر اپنے چینی دوست کو دیں تو وہ کھانے کی بجائے رونے لگا، بنتا نے انتہائی مہنگے گھی سے تر اپنے پرنے سے اس کے آنسو صاف پونجتے رونے کی وجہ پوچھی وہ بولا یہ جلیبیاں نئیں چینی میں لکھا ہے آپ کی اماں فوت ہو گئی ہیں۔ہن دسو اگر ہمیں ہر بات میں فوتگی نظر آتی ہے تو اس میں سنتا سنگھ کی جلیبی کا کیا قصور۔ مرنے والے تو گڑ کھا کر مر جاتے ہیں۔خیر غیرت مند شرم سے بھی مرجاتے ہیں۔
جہاز کریش ہو گیا ایئر ہوسٹس بولیں آپ پیرا شوٹس باندہ کر چھال لگا دیں نیچے اتریں گے تو ایمبولینسز کھڑی ہو ں گی تا کہ آپ کو فورا امداد دی جا سکے سنتا سنگھ،بنتا سنگھ نے چھلانگ لگائی سنتا نے پیرا شوٹ کھولا تو وہ نہ کھل سکا،وہ غصہ سے بنتا سنگھ سے بولا پھائیا ایہہ پیرا شوٹ نئیں کھل رہا تے توں ویکھ لئیں تھلے ایمبولینس وی نئیں ہونی۔ہم کتنے خوش ہوئے تھے جب وزیر اعظم نے قوم کو بتایا تھا کہ انڈونیشیا سے کھانے کے تیل کے بحری جہاز پاکستان پہنچ رہے ہیں لیکن یہ شپس امریکی بحری بیڑے کی طرح ابھی تک نہ پہنچ سکیں۔ اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ چین کے دو ارب ڈالر بھی ابھی بنکوں میں نہیں آئے۔میرا یار سنتا بولا بھائی جان ویکھ لینا حکومت مک جائے گی افغانستان سے کوئلہ بھی نہیں آنا،بہر حال کج آوے نہ آوے اگر مرد آہن چپ چپیتے آسکتا ہے تو ہمارا ببر شیر اسحاق ڈار بھی ضرور آئے گا۔لیکن ہماری ایک بنتی عرف درخواست ہے کہ تہتر کے آئین کے تناظر ،قانون کی سالمیت اور انصاف کی عصمت کی تحفظ کے لئے خدارا وہ وزیر اعظم کے جس کے طیارے میں اسحاق ڈار ملک سے باہر گئے تھے واپسی بھی اسی میں ہونی چاہئے۔آخر یہ ملک طاقتوروں،وڈیروں کا ہے جنگل ہے اور جنگل کے اصول کی پامالی نہیں ہونی چاہئے۔