پاکستان بہتری کی طرف قدم بڑھا رہا ہے

میرا خیا ل ہے کہ پاکستان کے آفاق پر چھائے مایوسی کے سیاہ بادل کسی حد تک چھٹنا شروع ہو گئے ہیں اور ماضی کے کسی بھی دور سے زیادہ امید کا سورج روشن دکھائی دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غلطیاں کرنے کی بے مثال صلاحیت کے باوجود پاکستان ان انتخابات کی طرف درست انداز میں قدم رکھ رہا ہے۔ الحمدﷲ، قنوطی افراد متحیر و پریشان ہیں، خلاف ِ توقع سازشی عناصرہاتھ پر ہاتھ دھرے بے کار بیٹھے ہیں اور ہر چیز، بشمول موسم، بہتر ی کی طرف جارہی ہے۔ مجھے نہیں یاد کہ مَیں نے اتنا خوشگوار اورپُرسکون مارچ کبھی دیکھا ہو، جبکہ اٹھکھیلیاں کرتی ہوائیں اور روشن سورج گندم کی بہت زیادہ فصل کے امکانات بڑھا رہا ہے ۔اسی دوران پی پی پی کی حکومت یاد رفتہ کا حصہ بن چکی ہے سید یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف اور بہت سے دیگر اب کہاں ہیں ؟ بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں شنید ہے کہ پارٹی کے معاملات پر ناراض ہو کر دوبئی کے راستے لندن جا چکے ہیں۔ اگر اس معاملے میں سامنے آنے والی خبریں درست ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ نوجوان میں زندگی کی کچھ رمق موجود ہے اور یہ اس پارٹی کے لئے اچھی خبر ہے، کیونکہ اگر پی پی پی نے مستقبل میںقد م رکھنا ہے، ایک ایسے مستقبل میں جو اس کے ”حالیہ “ ماضی سے بہر کیف بہتر ہوتو ضروری ہے کہ اس پر آصف علی زرداری کا برگد نما سایہ نہ ہو ۔ اس سائے تلے کچھ بھی پروان نہیں چڑھ سکتا ہے، اگر گزشتہ پانچ سال پر نظر جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ” پاکستان اور زرداری“ ایک ڈراﺅنے سپنے کا نام تھا جو اب ختم ہونے کو ہے۔
درست ہے کہ ابھی زمینی حقائق نہیں بدلے اور نہ ہی بہت سے پیران ِ تسمہ پاسے ہماری گردنیں آزاد ہوئی ہیں افغانستان کا مسئلہ اپنی جگہ پر ہے، طالبان اپنے مقبوضہ علاقوں میں اپنی ریاست قائم کئے ہوئے ہیں، کراچی ایک رستا ہوا ناسور بن چکا ہے، بلوچستان میں شدید کشیدگی ہے، معیشت دیوالیہ پن کے کنارے پہنچ چکی ہے، افغانستان دھمکیاںدے رہا ہے، جبکہ ہمارا روپیہ بھی ”افغانی “ بن چکا ہے۔ ان تمام مسائل کے باوجود، صورت ِ حال حوصلہ افزا نظر آرہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اسلامی جمہوریہ درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔ ہر نئی چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والوں کو یہ دیکھ کر مایوسی کا سامنا ہے کہ ابھی آسمان ٹوٹنے میں خاصی تاخیر معلوم ہوتی ہے۔
پاکستان کو معجزانہ تبدیلیوں کی بجائے معمول کا راستہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ بہت دیر سے اس کے معمولات غیر یقینی صورت ِ حال کا شکار رہے ہیں، چنانچہ ضروری ہے کہ ہم تبدیلی کے لئے طے شدہ راستہ اختیار کریں ۔ اگرچہ اس کائنات میں تغیر کو ہی ثبات حاصل ہے، لیکن یہ تغیر فطری عوامل سے طے پاتا ہے ، شورش اور شر پسندی کے گھوڑوں پر سوار نہیں رہتا۔ اب یہ بات کسی کو اچھی لگے یا بری، سب سے بھاری ذمہ داری اب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کندھوں پر آن پڑی ہے، کیونکہ حالات نے اس کے لئے بہت سے ہما تخلیق کر لئے ہیں جو اس کے سر پر سایہ فگن ہونے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ اگر ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی طرف دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ ”تندیءِ باد مخالف “ کے باوجود (یا شاید کی وجہ سے ؟) یہ جماعت اپنے مخالفین سے بہت بلندی پر ہے۔ یہ مخالف ہوائیں کیا تھیں ؟پی پی پی کی نااہل حکومت یا ”یقینی “ بوکھلاہٹ کے شکار عمران خان، جو کسی ”غنچہ ¿ ناشگفتہ “ کے آسرے پر اپنے لئے بہار کی آمد کی نوید خود کو سنا سنا کر فتح سے سرشا ر ہیں۔ چنانچہ اپنے مخالفین کی ٹھوس نااہلی اور نرگسی سرشاری کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا میں پی ایم ایل (ن) کو قدم جمانے کا موقع مل گیا، تاہم انتخابات میں کامیابی سفر کا اختتام نہیںہوتی، یہ تو اس سمت میں بڑھنے کا نکتہ ِ آغاز ہے۔ فی الحال ان میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے مسلم لیگ (ن) کو اسی طرح جیت کے جذبے کو قائم رکھنا ہے ۔
اب سیاست دانوں کو داﺅ پیچ سیکھنے کے لئے کسی شاطر کے اشاروں پرناچنے کی ضرورت نہیںہے اور آج کل یہ ” سہولت “ میسر بھی نہیںہے۔ ہمارے مسائل، جیسا کہ معاشی بحران، دہشت گردی اور انتہا پسندی پر قابو پانا ضروری ہے، لیکن اس کے لئے صاحب ِ اختیار ہونے کی ضرورت ہے۔ محض نیک تمنائیں رکھنے سے معاملات نہیں سدھریںگے، اس کے لئے مربوط کوشش اور فعال منصوبہ بنا کر ہوم ورک کرنے کی ضرورت ہے، جیسا کہ لینن نے نومبر1917 میں ، ”بولشوکس “( Bolsheviks)....جو روس کی مارکسی نظریات کی حامل سوشل ڈیموکریٹ لیبر پارٹی تھی، کی فتح کے بعد کہا تھا ”اب ہم اشتراکی نظام کی طرف پیش رفت کریںگے “۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو بھی انتخابات میں کامیابی کے بعد، جب جوشیلے جذبات بیٹھ جائیں تو ٹھنڈے دل سے غور کرنے کے بعد کہنا چاہیے کہ اب ہم پاکستان کی تعمیر کا آغاز کریںگے۔ اس کے لئے ہمیںکسی انقلابی معرکے کی ضرورت نہیںہے اور نہ ہی ہم نے کوئی نیا جہان تخلیق کرنا ہے۔ ہم نے اس وطن کی تعمیر کی طرف بڑھناہے اور ہمیں اس ” انقلابی “ ذہنیت سے جان چھڑانے کی ضرورت ہے کہ ہر مرتبہ گاڑی بنانے سے پہلے ایک نیا پہیہ ضرور ایجاد کیا جانا چاہیے، اب ماضی وقت کی دھول میں گم ہو چکا ہے، جبکہ مستقبل کی روشنی واضح امکانات کے ساتھ ہمیں بلارہی ہے۔ اب ہمیں پوری ثابت قدمی ، حوصلے اور استقامت کے ساتھ آگے بڑھنا ہے تاکہ ہم دوسری دنیا کے ہمقدم ہو سکیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ماضی کی زنجیروں کو توڑنے کی ہمت کون کرے گا؟کون ایسا کرنے کی پوزیشن میں ہے؟کون نعرئہ مستانہ لگاکر خرد کو غلامی سے آزاد کرانے کی سعی کرے گا؟ان انتخابات میں اسی بات کا فیصلہ ہونا ہے۔
امریکہ اور چین کے درمیان مفاہمت رچرڈ نکسن ، جن کی اشتراکی نظام کی مخالفت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی، کے دور میں ہوئی۔ جب وہ چین سے مفاہمت کے لئے قدم بڑھا رہے تھے تو رپبلکن پارٹی کے کسی رہنما نے اُن پر اعتراض نہ کیا۔ آج ہمارے ہاں اس پالیسی کو کون آگے بڑھائے گا؟کیا ہمارے ہاںانتہا پسندی کی قوتوں، جنہوںنے ملک کے سماجی خدوخال کو دھندلا دیا ہے، کے خلاف کمر بستہ ہونے والوں پر دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کی طرف سے اسلام مخالف یا پاکستان مخالف ہونے کا فتوی تو نہیں لگایا جائے گا؟اس بات پر غور کیجیے۔
اس ماحول میں جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے تو اُ ن کی سوچ کا دھارا یک سمت سادہ سا بہاﺅ لئے ہوئے ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ بدعنوانی کے خلاف بولتے ہیں اور یہ ہمارے ملک میں سب کا من پسند مشغلہ ہے، کوئی بھی ایسا کرسکتا ہے، تاہم پاکستان کے مسائل کہیں زیادہ گھمبیر اور پیچیدہ ہیں، جیسا کہ تنگ نظری اور کج فہمی،جس کی وجہ سے ہم غلط فیصلے کر جاتے ہیں۔ ان فیصلوں کے نتائج ہمارے ہر طرف آویزاں ہیں۔ میاں نواز شریف اب تک کافی سیاسی دانائی حاصل کر تے ہوئے نئی منزل کی جانب قدم بڑھا چکے ہیں ، جبکہ عمران خان ابھی ”قیدِ مقام “ سے بھی نہیں گزرے ہیں....(کیا میرے دوست شفقت محمود، عمران خان کو مطالعہ کے لیے کچھ کتابیں تجویز کرنا چاہیں گے تاکہ وہ ذہنی بلوغت حاصل کر سکیں)....اس وقت فکری رہنمائی کے لئے پارٹی کو محترمہ شیریں مزاری کی بھی ضرورت ہے۔ بہرحال پاکستان تحریک ِ انصاف کچھ معاملات میں دیگر جماعتوںسے بہتر ہے ، چنانچہ میں گاہے بگاہے ا س کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہوں۔ آنے والے چند ہفتے بہت ہنگامہ خیز ہوںگے۔ اس مرتبہ انتخابی میدان2008 ءکے انتخابات سے زیادہ تنوع رکھتا ہے۔ بہت سی جماعتیں، جو انتخابی اکھاڑے میںکود پڑی ہیں، کے درمیان پی پی پی کو اپنی گزشتہ پانچ سالہ کارکردگی کا بوجھ اٹھا کر میدان میں آنا ہے اور یہ یقینا کوئی خوشگوار تجربہ نہیںہے۔ دوسری طرف اس کی انتخابی حریف پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لئے سازگار ہوا چل رہی ہے۔ یہاں، اس ماحول میں ساٹھ سالہ عمران خان ”طفل ِ مکتب “ دکھائی دیتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ بلوچ قوم پرست جماعتیں بھی انتخابی میدان میں قدم رکھتے ہوئے وفاق کے دھارے میں شامل ہورہی ہیں۔ پاکستان کو اور کیا چاہیے! جہاں تک طالبان کا تعلق ہے تو وہ تباہی اور بربادی کی دھمکیاںدے رہے ہیں۔
گزشتہ انتخابات میں تحفظ کی ذمہ داری فوج پر تھی۔ موجودہ انتخابات میں بھی سیکیورٹی کے لئے دفاعی اداروںکی خدمات حاصل ہوں گی، لیکن نفسیاتی تحفظ بنیادی طور پر سپریم کورٹ اور بااختیار الیکشن کمیشن کی طرف سے ہے۔ یہ ان انتخابات میں ہونے والی ایک نئی چیز ہے، کیونکہ عوام کو ان اداروں اور ان کے سربراہان پر اعتماد ہے۔ کیا اس سے یہ محسوس نہیںہوتا ہے کہ ہماری تیرہ بختی ختم ہونے کو ہے اور ہمارے قلب و نظر پر لگا زنگ اترنے کو ہے؟ کون کہتا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم ایک ضعیف شخص ہیں؟میرا خیال ہے کہ اُن کی تاب و تواں بہت سے نوجوانوںسے بہتر ہے۔ جتنی دیر تک وہ کام کرتے ہیں، ہم میںسے بہت سے اتنا عرصہ نہیں کر سکتے۔ اسی طرح نگران وزیر ِ اعظم میرہزار خان کھوسو بھی زندہ دل شخص ہیں، چنانچہ بڑھاپے سے کوسوں دور ہیں۔ جس پُرسکون طریقے سے وہ آرمی چیف سے بات کررہے تھے،وہ مجھے بہت اچھا لگا۔ یونان کے سا بقہ وزیر اعظم اندریس پیپن دریاس (Andreas Papandreous)نے چھیاسی سال کی عمر میں ایک نہایت نوجوان ائیر ہوسٹس سے شادی کرلی اور یہ ”تجربہ “ اُن کے لئے بہت طمانیت بخش ثابت ہوا۔ انٹر نیشنل اولمپک کمیٹی کے سابقہ صدر مسٹر ایوری برانڈیج نے پچاسی سال کی عمر میں ایک چھتیس سالہ پُرکشش لڑکی سے شادی کی۔ آسٹریلوی نژاد امریکی میڈیا گرو ، روپرٹ مڈروچ نے دوسری شادی کافی تاخیر سے کی۔ ہمارے ہر دل عزیز مرحوم پیر پگاروبھی طویل عمری کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ ان روشن مثالوں میں بہت سوں کے لئے ”راہ ِ ہدایت “ ہے، چنانچہ فخرو بھائی پر اعتراض نہ کریں۔
حرف ِ آخر : اب جبکہ ہم ماضی کو خیرباد کہہ چکے ہیں، کیا نگران وزیر ِ اعظم یو ٹیوب پر لگی پابندی کھولنے کی طرف قدم بڑھائیں گے، کیونکہ اس پابندی نے ہمیں ایک احمق قوم کے طور پر مشہو رکر دیا ہے۔ ذرا سوچیں، جب کوئی انتخابی مہم سے واپس آئے اور لیپ ٹاپ سے چھیڑخانی کرتے ہوئے دل بہلانے کی کوشش کرے تو یوٹیوب ندارد۔ میرے دوست رحمان ملک نے بار ہا یقین دلایا کہ ” جانے “ سے پہلے وہ اسے کھول دیںگے ، لیکن پی پی پی حکومت اس کی ہمت نہیں کر سکی، تاہم نگران سیٹ اپ سے ہمیں بہتر توقعات ہیں۔ آخر میں، مسٹر نجم سیٹھی! مبارک ہو سیاسی جماعتوںنے بہت عمدہ انتخاب کیا ہے۔ یقینا ذہین افراد کی خدمات سے استفادہ کیا جانا چاہیے۔ شفقت محمود صاحب، کچھ اچھی سی کتابوں کی فہرست خان صاحب کے حوالے کردیں، ان کے مطالعہ کے دن قریب آرہے ہیں۔
مصنف، معروف کالم نگار اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔
نوٹ ! اس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں ری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے۔ ٭