انسانی عظمت کے تقاضے
ایک بڑے آدمی نے کہا تھا کہ بڑوں کی موت نے ہمیں بڑا بنا دیا، مگر آج بہت سے اینکرپرسن اور دوسرے حضرات یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ بہت سے سیاست دانوں کو بڑا بنانے میں انہوں نے اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ ہمارے ایک سینئر صحافی دوست نے ہمارے ایک ایسے ہی اینکر پرسن دوست سے کہا تھا کہ آپ کے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے،مگر آج کل جس سیاست دان کو بڑا بنانے کے جرم کا آپ سرعام اعتراف کر رہے ہیں یہ گناہ خاصی مشکل سے معاف ہو گا، کیونکہ بڑا بننے کے بعد انہوں نے جو ”کارنامے“ انجام دیئے ہیں اس کے بعد تو شیطان بھی ان سے ٹیوشن پڑھنے کی درخواست کر رہا ہے۔
میڈیا خاص طور پر ٹیلی ویژن کے متعلق لکھا جاتا ہے کہ اس میں عظیم آدمی پیدا کرنے کی غیر معمولی صلاحیت ہے، مگر یہ عظمت چند روزہ بھی نہیں ہوتی، کیونکہ جیسے ہی ٹی وی اسے نظر انداز کرتا ہے۔ موصوف کی عظمت غائب ہو جاتی ہے اور ان کی داستان بھی نہیں ہوتی داستانوں میں۔ ایک شخص نے کسی دیہاتی سے دریافت کیا کہ کیا آپ کے گاﺅں میں کبھی کوئی بڑا آدمی بھی پیدا ہوا ہے۔ اس پر دیہاتی نے سادگی سے کہا کہ نہیں ہمارے گاﺅں میں تو بچے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ تاہم سنا ہے کہ پڑوس کے گاﺅں میں چند بڑے لوگ نہ جانے کیسے پیدا ہو گئے ہیں۔ میر تقی میر، مرزا غالب اور علامہ اقبال جیسے مشاہیر ایسے دور میں پیدا ہوئے تھے جب ریڈیو یا ٹیلی ویژن نہیں تھا، مگر ان کے کلام کی طاقت نے انہیں زندہ و جاوید بنا دیا۔ آج بھی ان کے شعر سن کر اکثر لوگوں پر ”یہ بات تومیرے دل میں تھی“ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ جدید میڈیا بھی ان کی عظمت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہے۔
1990ءکے عشرے میں جب امریکہ میں مختلف چینلوں نے 24گھنٹے کی نشریات شروع کیں، تو صدر بش سینئر نے اسے ایک ایسے عفریت کا جنم قرار دیا تھا، جس کا مسلسل پیٹ بھرنا ضروری ہے اور ان کا خیال تھا کہ اگر اسے خبروں کی بھوک ہوگی ،تو یہ آپ کو کھا جائے گا۔ پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کو الیکٹرانک میڈیا کی آزادی اور ترقی کا کریڈٹ دیا جاتا ہے، مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ درحقیقت صدر پرویز مشرف نے ایک ایسا عفریت تخلیق کیا تھا جو اسے ہی کھا گیا۔ الیکٹرانک میڈیا پر خاصی تنقید کی جا سکتی ہے، مگر سچی بات تو یہ ہے کہ یہ بعض اوقات اصل چہروں کو اتنی تفصیل سے دکھاتا ہے کہ سچائی نظر آ ہی جاتی ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں جب یہ دریافت ہوا کہ پبلسٹی ظلم کے خلاف بڑا ہتھیار ہے، تو اسے امریکہ میں بڑے سائنسی انداز سے استعمال کیا گیا اور میڈیا کو امریکی اور عالمی رائے عامہ بنانے کے لئے استعمال کیا گیا۔
پاکستان میں میڈیا نے شعور پیدا کرنے میں بہت قابل تعریف کردار بھی ادا کیا ہے۔میڈیا نے بہت سے مظالم اور زیادتیوں کا راستہ روکا ہے۔ ہمارے ایک دوست کے مطابق اب اپنے بچوں سے زیادہ اپنے ملازموں کو ڈانٹتے ہوئے خوف ہوتا ہے، کیونکہ شنید ہے الیکٹرانک میڈیا کو ظلم کی داستانیں رپورٹ ہی نہیں، بلکہ تخلیق کرنے کی بھی عادت ہوتی ہے۔ کسی دور میں بڑا آدمی بننے کے لئے کوئی بڑا کام کرنا پڑتا تھا، لیکن اب اگر آپ نے شور مچانے اور بدتمیزی کرنے میں کوئی جعلی ڈگری بھی حاصل کر رکھی ہو، تو پھر آپ کے ”بڑا آدمی“ بننے کے امکانات خاصے روشن ہیں۔ بہت سے لوگ چینلز پر ہونے والے ٹاک شوز کو مرغوں کی لڑائی سے بھی زیادہ ذوق و شوق سے دیکھتے ہیں۔ بعض اوقات مہمان کوئی چھوٹی موٹی چیز توڑ کر گالیاں دے کر حتی کہ تھپڑ مار کر پروگرام کو ایکشن سے بھرپور بنا دیتے ہیں۔
ایک خاتون مصنفہ نے بہت سے معروف، کامیاب اور عظیم لوگوں کے انٹرویو کرکے ان کی زندگی پر کتاب لکھی۔ اس سے کسی نے دریافت کیا کہ آپ کو ذاتی طور پر ان میں سے کس نے متاثر کیا تو اس نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں، جنہوں نے زندگی میں بڑے کام کئے، دولت کمائی، شہرت حاصل کی اور اپنے شعبے میں بڑی تبدیلیاں لائے، مگر انسانی سطح پر ان میں سے اکثر خاصے کمینے اور گھٹیا انسان ہیں۔ بڑے لوگوں کے متعلق بہت سے نفسیات دانوں کا بھی یہی خیال ہے کہ انہیں اپنا نفسیاتی توازن قائم رکھنے کے لئے بھی کمینہ ہونا پڑتا ہے۔بدھ مت کے پیروکار دلائی لامہ کا غیر معمولی احترام کرتے ہیں۔ اس کے سامنے آ کر لوگ اپنی کوتاہیوں اور گناہوں کا اعتراف کرتے تھے، وہ سارا دن لوگوں کے سامنے ایسی حرکات کرتا تھا، جن سے صرف تقدس کا اظہار ہوتا ہے، مگر دوسروں کے گناہوں اور غلطیوں پر تسلی دیتے دیتے وہ خود نفسیاتی طور پر غیر متوازن ہو جاتا تھا۔ اس لئے شام کو وہ کچھ وقت ایک ایسے شخص کے ساتھ رہتا تھا جسے وہ گالیاں دیتا تھا، اس کے ساتھ بدتمیزی کرتا تھا، پورے دن کی بھڑاس نکالتا تھا اور اگلے دن کے لئے مقدس دلائی لامہ بننے کی تیاری کرتا تھا۔
ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ اگر دلائی لامہ عام انسان کی طرح اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا ایسا کوئی اہتمام نہ کرتا تو پاگل ہو جاتا۔ کچھ عرصہ قبل ایک دینی اینکر پرسن کی ایک ایسی ویڈیو یوٹیوب پر آ گئی تھی ،جس میں وہ پروگرام کے دوران وقفے میں فحش باتیں اور اشارے کرتا ہے۔ اس ویڈیو کو دیکھ کر بہت سے لوگوں کا ”اعتقاد“ بہت متاثر ہوا تھا، کیونکہ ان صاحب نے اپنی دینی لیاقت کا سکہ ایک دنیا پر بٹھا رکھا ہے۔ ان کے اکثر معتقدین کی حالت اس مرید جیسی ہو گئی تھی جو اپنے پیر کی متبرک محفل میں بیٹھے تھے کہ ایک ملازم نے آ کر پیر صاحب کو خوشخبری سنائی کہ ان کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے۔ انتہائی معتقد مرید کو یہ خبر سن کر اپنے کانوں پر یقین نہ آیا، پھر اچانک اس کے منہ سے نکلا: ”پیر صاحب یہ گناہ گاروں جیسے کام آپ بھی کرتے ہیں“؟
ماضی کے ایک دانشور کا قول ہے کہ آئیڈیا کی طاقت آپ کو عظمت بخشتی ہے، مگر آج جبکہ دولت کے ذریعے عظمت خریدی جا سکتی ہے۔کنفیوژن پھیلا کر دانشمند بننے کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا جا سکتا ہے اور خبروں میں رہنے کا فن آپ کے لئے اقتدار کے دروازے وا کر سکتا ہے، تو انسانی معاشرہ ایسے مسائل کا شکار ہو رہا ہے، جس کے حل ٹیکنالوجی سے دریافت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ٹیکنالوجی انسانی سوچ اور مسائل کو نئی پیچیدگیوں سے روشناس کرا رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں اب میر تقی میر، علامہ اقبال ؒ، غالب اور قائداعظم ؒ جیسے بڑے لوگ تو پیدا نہیں ہو رہے، لیکن ہم بہت اچھے اداکار ضرور جنم کر رہے ہیں، جو مختلف جگہوں پر اپنے اداکاری کے جوہر دکھا کر لوگوں کے لئے تفریح طبع کے سامان پیدا کر رہے ہیں۔ اور یوں بڑے لوگوں کی موت نے واقعی اداکاروں کو بڑا بنا دیا ہے۔ ٭