آئندہ برس قطر کا جہاز ایل این جی لیکر پاکستانی بندر گاہ پر لنگر انداز ہو گا، کامران مائیکل

آئندہ برس قطر کا جہاز ایل این جی لیکر پاکستانی بندر گاہ پر لنگر انداز ہو گا، ...
آئندہ برس قطر کا جہاز ایل این جی لیکر پاکستانی بندر گاہ پر لنگر انداز ہو گا، کامران مائیکل
کیپشن: pic

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور(انٹرویو: صبغت اللہ چودھری) وفاقی وزیر برائے پورٹس اینڈ شپنگ کامران مائیکل نے کہا ہے کہ آئندہ برس قطر کا جہاز ایل این جی لیکر پاکستانی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوگا، پورٹ قاسم پرکوئلے سے چلنے والا 660 میگاواٹ کا پاور پلانٹ لگایا جائیگا،یورپی یونین نے 7 برسوں سے مچھلی کی برآمدات پر پابندی عائد کر رکھی تھی جسے 7 ماہ میں ختم کروایا،42 سال بعد ملک میں ’’حج کروز‘‘ کے نام سے حاجیوں کیلئے خصوصی بحری جہاز چلائے جا رہے ہیں،24 گھنٹوں میں پھل اور سبزیاں خلیجی ریاستوں میں پہنچانے کیلئے ’’سپیڈی بوٹس‘‘چلائی جائینگی،کراچی پورٹ ٹرسٹ کی 8 سو ایکڑ قیمتی اراضی پر لینڈ مافیا نے قبضہ کر رکھا ہے،سنگا پورپورٹ اتھارٹی نے انہی شرائط پر گوادر پورٹ کے حقوق2012 ء میں چین کو فروخت کر دیئے،’’گھوسٹ ملازمین ‘‘کی حاضری کو بائیو میٹرک سسٹم کے ذریعے یقینی بنایا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ’’بزنس پاکستان‘‘ کیلئے خصوصی انٹرویو کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے سابقہ حکومتوں نے معیشت کی بحالی کیلئے ضروری اقدامات نہیں کئے جس کے نتیجے میں ملکی صنعت تباہی کے دھانے پر پہنچ گئی اور نہ صرف بیرونی سرمایہ کاری ختم ہوئی بلکہ مقامی سرمایہ دار بھی اپنا پیسہ نکال کر دوسرے ملکوں میں منتقل ہو گئے ،انڈسٹری کی بربادی کی سب سے بڑی وجہ توانائی کا بحران تھا جس پر قابو پانے کیلئے موجودہ حکومت جنگی بنیادوں پر کام کر رہی ہے۔وزیر اعظم نواز شریف کے ویژن کے مطابق پورٹ قاسم پرکوئلے سے چلنے والے 660 میگاواٹ کا پاور پلانٹ لگایا جا رہا ہے جس کے ذریعے پورٹس کے تاجروں کو وافر بجلی ملے گی اور برآمدات بڑھائی جا سکیں گے اس منصوبے کیلئے کراچی پورٹ قاسم پر ’’کول ٹرمینل‘‘ بھی تعمیر کیا جا رہا ہے۔وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت جہاں صنعتی ترقی کیلئے توانائی بحران کا خاتمہ کر نے میں مصروف ہے وہیں گھریلو صارفین کی ضرورت پوری کرنے کیلئے بھی کام ہو رہا ہے اس سلسلے میں ایل این جی کی درآمد کیلئے قطر کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ ہو گیا ہے جس پر دونوں طرف کی مجاز اتھارٹیز کے سائن ہو چکے ہیں وزیر اعظم پاکستان اسی سال منصوبے کا افتتاح کرینگے اور ایک سال بعد قطر سے پہلا جہاز ایل این جی لیکر پاکستان کی بندگاہ پر لنگر انداز ہوگا۔وزارت پورٹس اینڈ شپنگ میں درپیش بڑے مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 8 ماہ قبل وزارت کا قلمندان سنبھالا تھا اور اس مختصر عرصے میں بہت سے مسائل کا نوٹس لیا گیا ہے، وزارت میں گھوسٹ ملازمین بہت تھے جو گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں اس مسئلے پر قابو پانے کیلئے ملازمین کی حاضری کو بائیو میٹرک سسٹم کے ذریعے یقینی بنایاتا کہ صرف اسی ملازم کی حاضر لگے جو وہاں فزیکلی موجود ہو۔گوادر پورٹ سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بندر گاہوں اور جہاز رانی کے وفاقی وزیر نے بتایا کہ 2007 ء میں سنگا پورپورٹ اتھارٹی کے ساتھ گوادر کے حوالے معاہدہ ہوا تھا جس نے انہی شرائط پر اپنے حقوق چین کو فروخت کر دیا اور سال 2012 ء سے وہ چین کے زیر انتظام ہے، چین گوادر پورٹ پر انڈسٹریل زون ، ویئر ہاؤسز ، ریفائنریز اور ٹیکسٹائل سٹی بنائے گا،وہاں ہسپتال ، ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ، ہوائی اڈہ، ڈیوٹی فری شاپ، آباد کاری ، روڈ انفراسٹرکچر، ٹورازم ڈویلپمنٹ کے منصوبے اور گودیا ں بنیں گی،چین پاکستان اکنامک کوری ڈور کی مد میں چین ایک ارب 20 کروڑ ڈالر لگائے گا جس سے معاشی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی اور مقامی لوگوں کیلئے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونگے، پاکستان گوادر پورٹ کو ڈویلپ نہیں کر سکتا تھا ہم نے چین کو زمین دی وہ اسے مکمل ڈویلپ کر یگا، جبکہ معاہدے کی رو سے 40 سال بعد پورٹ حکومت پاکستان کا ہو جائیگا۔متوسط طبقے کے لوگوں کیلئے بڑی خوشخبری یہ ہے کہ 42 سال بعد اس ملک میں دوبارہ سے ’’حج کروز‘‘ کے نام سے حاجیوں کیلئے خصوصی بحری جہاز چلائے جا رہے ہیں،1972 ء میں ہوائی سفر شروع ہونے کے بعد سمندری سفر ختم ہو گیا تھا اب اس کی بحالی سے کم آمدن والے افراد کو بھی حجج کی سعادت حاصل کرنے کا موقع ملے گا ، بحری سفر کا کرایہ 25 سے 40 ہزار روپے ہوگا جبکہ ہوائی جہاز ایک لاکھ سے سوا لاکھ روپے تک ہوتا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ اس کیلئے ہوم ورک کر لیا گیا ہے، تمام ضروری اقدامات ہو چکے ہیں اور وزارت مذہبی امور کے ساتھ با چیت بھی کر لی گئی ہے جنہوں نے بحری سفر کو آئندہ آنیوالے حج کیلئے موزوں قرار دے دیا ہے، اس کیلئے الگ سے کوٹہ مختص کر دیا جائے گا اس کے اعلان سے متوسط طبقے میں خوشی کی لہر دوڑ جائیگی۔خلیجی ریاستوں میں محدود پیمانے پر پھل، سبزیاں، گوشت اور مچھلی جیسی ’’پیرش ایبل آئٹمز‘‘ برآمد کرنے والے درمیانے درجے کے کاروباری افراد کیلئے بھی اچھی خبر یہ ہے کہ 24 گھنٹوں میں ان کا مال یو اے ای اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں پہنچانے کیلئے ’’سپیڈی بوٹس‘‘چلائی جائینگی۔یہ تیز رفتار مال بردار کشتیاں خصوصی طور پر ڈیزائن کی گئی ہیں جو 70 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنا سفر طے کرتے ہوئے 24 سے 25 گھنٹوں میں سامان لیکر گلف پہنچیں گی۔ قبل ازیں لاکھوں کلو گرام کی مقدار میں گوشت ، پھل اور سبزیوں وغیرہ کی برآمد پر 150 روپے فی کلو تک لاگت آ رہی تھی تاہم سپیڈی بوٹس کے ذریعے ان کی برآمدی لاگت صرف 40 روپے فی کلو رہ جائے گی جس سے چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والا ایکسپورٹر بھی مستفید ہوگا،کستانی برآمدکنندگان کیلئے ایک اور بڑی خبر یہ ہے کہ گزشتہ 7 برسوں سے یورپی یونین نے پاکستان سے مچھلی کی برآمدات پر پابندی لگائی ہوئی تھی جس سے ہماری بیرونی منڈیوں تک رسائی نہیں تھی ہم نے گزشتہ 7 ماہ مسلسل کوشش کر کے یہ پابندی ختم کروا لی ہے اب مچھلی کو پراسیسنگ کے عالمی معیارات کے مطابق اور ایکسپورٹ کو جدید طرز پر استوار کر کے ہم مچھلی کی برآمدات کر سکیں گے، ہماری لاکھوں ٹن مچھلی عالمی منڈیوں میں ایکسپورٹ ہوگی جس سے قیمتی زر مبادلہ حاصل ہوگا، ملک میں ڈالر آئیں گے تو پاکستان کی معاشی صورتحال بہتر ہوگی۔

مزید :

بزنس -