مہاجرین اورغیر آباد لوگ کون ہوتے ہیں؟

میری رائے کے مطابق مہاجرین اور اجڑے ہوئے لوگوں کا مسئلہ ریاست پاکستان کے بنیادی مسائل میں سے ایک ہے، اس مسئلے کو آئین اورقانون کے مطابق سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے میں اپنے متعلق کچھ گزارش کرنا چاہوں گا۔ میں خود دیگر کشمیریوں کے ساتھ 1947ء میں مہاجر بنا تھا اورپاکستان میں پناہ لی تھی۔ کچھ عرصے کے لئے حکومت پاکستان نے ہم کشمیری مہاجرین کو مختلف جگہوں پر قائم کیمپوں میں رکھا تھا۔ حکومت ہمیں مفت راشن دیا کرتی تھی۔ ہماری زندگی میں ایک اور مقام آیا جب حکومت نے ہمارا مفت راشن بند کردیا اور ہمیں اس راشن کے بدلے متروکہ اراضیات پر آباد کرنا شروع کردیا۔ یہ سب کچھ عارضی بنیادوں پر کیا گیا تھا۔دوسرے مقام پر کشمیری اورہندوستانی مہاجرین کو ان کی کشمیر اوربھارت میں چھوڑی ہوئی جائیدادوں کے عوض پاکستان میں مستقل بنیادوں پر معاوضے ملے اور ان کو متروکہ جائیدادوں پر حقوق ملکیت دے کر آباد کیا گیا تھا۔ اس طرح پاکستان کے چپے چپے پر اجڑے ہوئے لوگوں کو ان کی متروکہ جائیدادوں کے بدلے میں اراضیات مکانات اوردکانیں دی گئیں۔ یہ سب آباد کاری کے کام قوانین کے عین مطابق کئے گئے تھے۔ آبادی کا کام مکمل ہونے پر مہاجرین سے متعلقہ تمام قوانین کو منسوخ کردیا گیاتھا۔ 1973ء کے آئین پاکستان کے مطابق پاکستان میں رہنے والے مہاجرین تمام کے تمام پاکستان کے خود بخود شہری بن چکے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اب پاکستان میں کوئی بھی مہاجرنہیں اورنہ ہی وہ قانونی طور پر مہاجر کہلا سکتے ہیں۔ میں اپنے آپ کو1947ء اور اس کے بعد مہاجر کہا کرتا تھا۔ کشمیری مہاجرین کی آباد کاری کے لئے میں نے آل جموں و کشمیر مہاجر کانفرنس بنائی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ حالات مکمل طور پر تبدیل ہو چکے ہیں۔خوشی کی بات ہے کہ ہندوستان اورکشمیر سے ہجرت کرنے والے لوگ پاکستان کی معاشیات پر چھائے ہوئے ہیں۔ کراچی،حیدرآباد،کوئٹہ، لاہور، راولپنڈی، پشاور وغیرہ تمام بڑے بڑے شہروں میں پاکستان کی بہت حد تک معاشی زندگی نئے پاکستانی بننے والے لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ہم سب کو فخر ہے کہ ہم پاکستانی ہیں۔ اس مقام پر میرے نزدیک مہاجر کہلانا ایک سنگین جرم ہے۔ بھارت سے آئے ہوئے مسٹر جسٹس اجمل میاں، مسٹر جسٹس سعید الزمان صدیقی، مسٹر جسٹس ناصر اسلم زاہد وغیرہ سپریم کورٹ آف پاکستان اورسندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں۔ میں خود سپریم کورٹ آف پاکستان کا سابق جج ہوں۔ کیا ہم اتنا کچھ حاصل کرنے کے بعدبھی اپنے آپ کو مہاجر کہہ سکتے ہیں؟ جواب سوفیصد نفی میں آئے گا۔
یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ہندوستان اورکشمیر کے مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر تحریک پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔ 19جنوری 1947ء کو سری نگر کے مقام پر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے با اتفاق رائے منظور شدہ قرار داد کے مطابق ریاست جموں و کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ کر دیا تھا۔ اسی طرح ہندوستان کے مسلمانوں نے قائد اعظم کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد ڈھاکہ کے مقام پر رکھی گئی تھی۔ گویا بر صغیر پاکستان وبھارت کے مسلمانوں کا دل یکساں دھڑکتا تھا۔ دھڑکتا ہے اور دھڑکتا رہے گا، کیونکہ بر صغیر کے مسلمانوں میں اسلام کا رشتہ ان سب کی مشترکہ میراث ہے۔ اسی وجہ سے وہ ہمیشہ ایک دوسرے کی مدد کو تیار ہوتے ہیں۔ بھارت سے کروڑوں مسلمانوں نے ہجرت کی تھی۔ میں 1947ء میں ابتدائی تعلیم مقبوضہ کشمیر کے گاؤں راجل میں حاصل کیا کرتاتھا۔ باقی تمام تعلیم میں نے پاکستان میں آکر حاصل کی تھی۔ تعلیم کی وجہ سے ہی میں نے عدل کی دنیا میں مقام حاصل کیا تھا۔ آج فخر سے میں اپنے آپ کو سپریم کورٹ آف پاکستان کا سابق جج کہتا ہوں۔ ان حالات میں کیا میں خودیا اور کوئی مجھے مہاجر کہہ کر پکار سکتا ہے؟ ایسا کرنے کی آئین اور قانون ہر گز اجازت نہیں دیتا ہے۔
ہم سب پاکستانی قوم میں شامل ہیں۔ پاکستان کا بچہ بچہ اردو زبان بولتا ہے۔ آپ گوادر، کوئٹہ سے لے کر پشاور، مظفر آباد اورآزاد کشمیر تک کا سفر کریں تو آپ کو سب لوگ اردو میں بات چیت کرتے نظر آئیں گے پاکستان کی تمام عدالتوں میں اردو زبان بولی جاتی ہے۔ گویا اردو ہماری قومی زبان ہے۔ اس زبان کو صرف بھارت سے آئے ہوئے لوگ ہی نہیں بولتے ،سارا پاکستان اور جموں وکشمیر کے لوگ بھی اردو بولتے اور لکھتے پڑھتے ہیں۔ اس زبان کو کسی خاص طبقے کے ساتھ منسلک کرنا میرے نزدیک زیادتی ہے۔ ہمیں ساری پاکستانی قوم کو اردو بولنے والی قوم کہنا ہوگا۔ اسی میں ہم سب کی بہتری ہے۔ آج جبکہ ساری دنیا کو ایک گاؤں کا نام دیا جا چکا ہے۔ سارا جہان سمٹ چکا ہے۔’’یو این او‘‘ کی شکل میں تمام دنیا ایک ہو چکی ہے۔ یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا کمال ہے کہ ہم اپنے گھروں میں بیٹھے تمام دنیا کو دیکھ اورسن رہے ہوتے ہیں۔ انسان چاند کو فتح کرنے کے بعددوسرے سیاروں پر جانے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔
میں پاکستان کے مشرق سے مغرب اورشمال سے جنوب تک رہنے والی قوم کو اردو بولنے والی پاکستانی قوم کہتا ہوں۔ مجھے فخر ہے کہ میں اردو بولنے والاپاکستانی ہوں۔ اس بات کا یہ مطلب نہ سمجھا جائے کہ ہم علاقائی زبانیں (پنجابی، سرائیکی، سندھی بلوچی، پشتو، بلتی، کشمیری اورفارسی زبانوں کو ) بھول جائیں گے ۔ ڈکشنری کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا دنیا کی ان گنت زبانوں کے لاکھوں الفاظ ہجرت کرکے اردو زبان میں شامل ہو چکے ہیں۔ لوگ بھی اسی طرح ہجرت کر کے اپنی ’’ جنم بھومی‘‘ کو چھوڑ کر دوسری اقوام کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔ ہمارے لاکھوں پاکستانی بھائی امریکہ، یورپ اور افریقہ تک کے کئی ملکوں میں آباد ہو چکے ہیں۔ ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑے بڑے جھگڑوں کو جنم نہ دیں۔ علاقائی زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو زبان سے والہانہ عشق اورپیار کرو۔ آنے والے اوقات میں مقامی تمام زبانیں اردو زبان میں مل چکی ہوں گی۔ اردو کے علاوہ پاکستان کی تمام زبانوں کو درسگا ہوں میں پڑھاؤ۔ اردو کو لشکری زبان کہا جاتا ہے۔ اس کے معنی لشکر گاہ اور لشکری کے ہوتے ہیں۔ ساری پاکستانی قوم لشکری ہے اور ہمارا ملک پاکستان لشکر گاہ ہے۔میری آخری بات کے مطابق اردو بولنے والی پاکستانی قوم کو جدید ترین تعلیم سے قلیل ترین مدت میں آراستہ کرنا ہی پڑے گا۔ جہالت کے اندھیروں کو روند ڈالو اورروشنی کی طرف تیزی سے آجاؤ۔ سائنس اورٹیکنالوجی موجودہ دور کی روشنی ہے۔ اس روشنی سے دنیا کی کوئی بھی قوم محروم رہنے کے لئے تیار نہ ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھو کہ اسی روشنی سے ہم پاکستان کو دنیا کی ایک بڑی قوم بنانے کے لائق ہو سکیں گے۔ ہر پاکستانی کے ساتھ بھر پور معاشی انصاف کرو۔ پاکستان کے نچلے طبقات سے ہمیں معاشی ترقی کی دوڑ کو شروع کرنا ہوگا۔ جہالت، غربت، بے روزگاری کو سرزمین پاکستان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کرڈالو۔