پر یہ اعزاز کہ ہم ساتھ رہے    (2)

      پر یہ اعزاز کہ ہم ساتھ رہے    (2)
       پر یہ اعزاز کہ ہم ساتھ رہے    (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 ہماری نو عمری تک حقیقی زندگی کی کہانیوں میں بجلی کی سہولت سے محروم اُس محنتی طالب علم کا ذکر کثرت سے ہوا کرتا جس نے امتحان کی تیاری اسٹریٹ لائٹ کے نیچے بیٹھ کر کی تھی۔ ہمارے ساتھ یہ تو نہ ہوا۔ پھر بھی سیاہی کی ہر گزرگاہ پر کئی نیم روشن پناہ گاہیں وقتی راحت کا وسیلہ بنتی رہیں۔ گرم لاہوری دو پہر کے چٹیل بازار میں برفیلے پھلوں کی رہڑی، کسی دوست کے دوست کا بے نام سا کاروباری دفتر یا، صحافی خالد حسن کے بقول، تھوڑے پیسوں میں بہت سی چائے پلا دینے والا کوئی غریب پرور ٹی اسٹال۔ انیس سو ستر کی دہائی کے اواخر میں میرا وائی ایم سی اے والا رہائشی کمرہ، گورنمنٹ کالج کا پروفیسرز روم نمبر چھبیس اور مال روڈ پر حاجی حمید کا چائنیز لنچ ہوم ہماری ایسی ہی مسافر نواز ’ٹھاہریں‘ تھیں۔ اب اِن میں جی سی (یو) کا نیو ہاسٹل بھی شامل ہو گیا جہاں قیصر ذوالفقار بھٹی  اور طاہر یوسف بخاری ڈٹے ہوئے تھے۔

 ٹائم ٹیبل کے مطابق، مَیں صبح سڑک پار فزکس ڈپارٹمنٹ میں پہلے ایف ایس سی اور پھر گورنمنٹ کالج کی مَین بلڈنگ میں آرٹس کو انگریزی پڑھایا کرتا۔ بی ایس سی کی آخری کلاس تک تین گھنٹے کا وقفہ تھا جس میں سے آدھ پون گھنٹہ کینٹین میں طلبہ کے ساتھ گپ لڑانے یا صدر شعبہ پروفیسر رفیق محمود کے دفتر میں سینئر اساتذہ کی چہلیں سُننے میں گزرتا۔ باقی وقت ڈاکٹر عبدالحمید خیال کا چھبیس نمبر جس سے ڈاکٹر صاحب پہلے ہی روز ایک تیز تیز جملہ بول کر دست بردار ہو گئے تھے۔ فرمایا ”تم ابھی لڑکے ہو، تمہیں ملنے تمہارے دوست بھی آئیں گے، رشتہ دار بھی آئیں گے اور شاگرد بھی۔لہذا تم اکیلے ہی چھبیس نمبر دبا لو مَیں نے اپنے لیے ایک اور کمرہ دبا رکھا ہے۔“ مزید بیس بائیس سال گزرنے پر ایسوسی ایٹ پروفیسر طاہر بخاری نے خوشی سے بتایا تھا کہ ملک صاحب، آپ والا کمرہ اب مجھے مِل گیا ہے۔

 گورنمنٹ کالج لاہور (یا جی سی یو) کا نیو ہاسٹل ابھی تک اِس لیے نیو ہے کہ اِس کے افتتاح کو سو سال سے  اوپر ہو چکے ہیں۔ زمانہء طالب علمی میں ڈور میٹری کی افراطِ آبادی سے گھبرا کر گورڈن کالج راولپنڈی بھاگ جانے والے نیم راوین طالب علم کے لیے اِس تاریخی عمارت کے دریچے دوبارہ کب وا ہوئے او ر کیسے؟ دراصل اُس دن مشترک دوست قیصر ذوالفقار بھٹی کہِیں جانے کے لیے میری موٹرسائیکل لے گئے تھے۔ اب غیر موجودگی میں واپس آ کر کچھ دیر تو انہوں نے انتظار کیا۔ پھر کلاس روم کی جالی دار کھڑکی سے جھانک کر اندازہ لگا لیا کہ آج شاہد ملک کا جوشِ خطابت ٹائم ٹیبل کی حدود کو پار کر نے والا ہے۔ چنانچہ چھبیس نمبر میں ایک تحریری پیغام چھوڑ کر ہاسٹل چلے گئے۔ اِسی کے پیشِ نظر کلاس ختم ہونے پر مَیں نے مسجد کا نواحی گیٹ عبور کیا اور بھٹی کے کیوبیکل میں جا پہنچا۔ زور کا خیرمقدمی نعرہ لگا جس میں بخاری کی قہقہہ بار آواز زیادہ نمایاں تھی۔ اُن کا اپنا کمرہ خوش گوار طور پر خنک پرانے کوریڈور کا چونتیس نمبر تھا مگر لتا منگیشکر اور رفیع کے سپر ہِٹ دوگانوں کی طرح بھٹی اور بخاری پائے ہمیشہ ایک ہی جگہ جاتے۔ اب اِس میں تیسرے کا اضافہ ہو رہا تھا۔

 بھٹی صاحب کے ساتھ قدرِ مشترک یہ بھی نکلی کہ قانون کی ایوننگ کلاس میں وہ میرے ساتھ والے سیکشن میں تھے۔ کلاس سے فارغ ہوتے ہی ہم بلاوجہ نیو ہاسٹل آ کر شمشاد بیگم اور سہیلیوں کی طرح کوئی نہ کوئی خود ساختہ مزاحیہ گیت کورس کی شکل میں گانے لگتے۔ سُر ملانے والوں میں قیصر بھٹی، طاہر یوسف بخاری، خالد منظور بسرا اور گل نواز لغاری جیسے مقامی گلوکاروں کے علاوہ اوکاڑہ والے اسلم طاہر القادری اور عارف چوہدری بھی شامل تھے۔ شام کی سیر کو روانہ ہوتے ہی شرکا کی تعداد قدم بہ قدم بڑھنے لگتی۔ پرویز مجید، تفویض قریشی، شرجیل انظر تو روز کے ہم سفر تھے ہی، اولڈ کیمپس سے تازہ غزلوں کے ساتھ زاہد مسعود، راشد متین اور فواد حسن فواد بھی بارہا ہمارے موبائیل مشاعرے میں شریک ہوئے۔ پھر چھوٹے بھائی دانش کے کنگ ایڈورڈ میں داخلے اور وائی ایم سی اے میں اضافی کمرے کی ہمارا حلقہء اثر مستقبل کے ڈاکٹروں تک پھیل گیا۔

 ایک روز تو اخیر ہو گئی۔ یہ عید میلاد اؐلنبی کی شب تھی اور ہم درجن بھر دوست فُل ترنگ میں تھے۔ پہلے تو بخاری صاحب کے ’پھُوک‘ دینے پر مَیں نے ایک جلسہء سیرت میں فارسی نعت پنجابی ترنم کے ساتھ پڑھ کر سنائی۔ مراد ہے اُس نوعیت کا ترنم جس پر صاحبِ طرز مزاحیہ شاعر نذیر شیخ نے سید ضمیر جعفری کو طعنہ دیا تھا کہ ’سُر ملاتے ہیں مگر بے تال ہیں میجر ضمیر‘۔ نعت خوان کی کارکردگی جیسی بھی تھی، عقیدت مندوں نے کچھ نوٹ نچھاور کر دیے جو گِنے تو اُس زمانے میں پینسٹھ روپے بنے۔ اجتماعی کون آئس کریم کے لیے اِتنی ہی رقم درکار تھی۔ کون چبانے کے بعد لوہاری دروازے کے باہر دھمال میں رضاکارانہ شرکت کی اور جب اچانک انٹرمیڈیٹ کے دو حیرت زدہ شاگردوں نے پہچان لیا تو منہ سے نکلا ”یار، اِس بات کو عام نہ کرنا۔“ اِس بِیچ یہ خیال کبھی نہ آیا کہ مَیں مدرس ہوں اور خود طاہر یوسف بخاری میرے ہی ڈپارٹمنٹ میں تاحال ایم اے کے طالب علم ہی تو ہیں۔

 یہ بھی نہیں کہ نیو ہاسٹل کی محفلیں تدریسی سرگرمیوں سے سراسر عاری رہیں۔ ایل ایل بی کے کئی پرچوں کی تیاری شاہد ملک اور قیصرذولفقار بھٹی نے گل نواز لغاری کے ساتھ مِل کر کی جو اُس وقت تک طاہر بخاری کے لیے صرف ’گُلّا بلوچ‘ تھے۔ اِسی اثنا میں ایک روز بخاری صاحب نے سعادت حسن منٹو پر اپنے تھیسس کی بات چھیڑ دی۔ باضابطہ نگران پروفیسر عبدالعزیز بٹ تھے جن کی ادب پر گرفت اور طلبہ سے حسنِ سلوک کا ایک زمانہ قائل ہے۔ سو، تحقیق کے متن سے چھیڑ خوانی میرا منصب تھی نہ میرے بس کی بات۔ یہ پیشکش البتہ کردی کہ چلیے مقالہ ٹائپ کرنے اور تھوڑی سی پھول پتی کی ذمہ داری مَیں سنبھال لیتا ہوں۔ وقت بچانے کے لیے یہ کام ’وار فوٹنگ‘ پر ہوا۔ منظر یہ کہ آپ کے بھائی نے ٹی شرٹ اور نیکر پہن رکھی ہے اور ہاسٹل کے برآمدے میں کچہری کے ٹائپسٹوں کی طرح مینوئل مشین پر لوہا کُوٹ رہے ہیں۔ انگریزی روزمرہ میں یہ کاوشِ محبت تھی مگر جوئے شیر کھودنے کے اِس عمل کے دوران شیکسپیرین اصطلاح میں کومک ریلیف کے وقفے بھی آئے۔

 دن کے اوقات میں میری جی سی کی کلاسیں بھی چل رہی تھیں، اِس لیے ایک دوپہر ٹائپنگ سے نڈھال ہو کر ذرا دیر کو ہم لوگ قیصر بھٹی کے کمرے میں قالین پر لیٹ گئے۔ پنکھے کے نیچے ابھی آنکھ لگی ہی تھی کہ ایک آواز سنائی دی، مگر یوں جیسے کوئی ہنسی ضبط کرنے کی کوشش میں ہو: ”اوئے، یہ کیا فحاشی پھیلا رہے ہو!“ اشارہ تینوں کے لباسِ فاخرہ کی طرف تھا۔ دروازے کی طرف دیکھا تو مجھ سے کوئی دس سال بڑا ایک معزز آدمی وکیلانہ لباس میں۔ بخاری نے سرگوشی کی ”بھٹی کے خالو ہیں۔“ مَیں نے اِس قسم کا خالو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ پتہ چلا کہ عمومی زمرہ بندی کے لحاظ سے جو رشتہ بتایا گیا وہ فنی طور پر سو فیصد درست ہے۔ لیکن ایڈووکیٹ صاحب سب سے چھوٹی خالہ، باجی ارشاد کے شوہر ہونے کے ناتے سے بھائی اسلم کہلاتے ہیں اور تعلق بھی بھائی بندی کا ہے۔ اسلم ملک کی بدولت، جو اکثر اپنے ٹریڈ مارک ویسپا سکوٹر پر مسکراتے ہوئے آتے، ہم تینوں کے لیے پاکستان سوشلسٹ پارٹی کے سی آر اسلم اور عابد منٹو سے میل ملاقات کا راستہ بھی کھُل گیا۔     (جاری ہے)

مزید :

رائے -کالم -