سیاسی توازن اور گڈ گورننس (بیسواں حصہ )

سیاسی توازن اور گڈ گورننس (بیسواں حصہ )
سیاسی توازن اور گڈ گورننس (بیسواں حصہ )

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 غزہ میں اسرائیلی بمباری نے بین الاقوامی سیاست اور رائے عامہ کو اپنی طرف متوجہ کیا ہوا ہے۔ایک سویلین آبادی پر جدید ترین ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی فوج کے حملے کی تفصیل بہت بھیانک ہے۔ یہ بات بھی دلچسپی کی ہے کہ دنیا بھر کے میڈیا سینٹرز اس جنگ کی کوریج کس طرح کررہے ہیں۔ مغربی بلاک کے میڈیا چینلز کی اپنی حدود و قیود اور ضابطہ اخلاق ہے ۔ سرکاری چینلز چونکہ عوام کی ٹیکسز پر چلتے ہیں چنانچہ اگر وہ سویلین آبادی کا قتل عام سرعام دکھانے لگیں توعوام کا اپنی حکومتی پا لیسیز اور سٹانس کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ حکومتی پالیسیز اپنی سکیورٹی کی خاطر نیٹو کی پالیسی سے ہم آہنگ ہیں اور نیٹو کی پالیسیز امریکہ کی طابع ہیں۔یہ الگ بحث ہے کہ امریکہ کی پالیسیز پرو اسرائیل کیوں ہیں۔ بقول مغربی بلاک کے اسرائیل کی ریاست ایک مارڈن جمہوری ریاست ہے اور مارڈن جمہوری ریاست کو ایک کچی آبادی سے جس میں انتہا پسند اور نیم انتہا پسند مذہبی لوگ رہتے ہیں اور رنگ و نسل میں بھی مختلف ہیں وقت بے وقت راکٹ برسائے جارہے ہیں۔
 گویا یہ لوگ ایلینز کے کتنے قریب ترین ہیں۔ ایلینز کی اصطلاح ایک اجنبی مخلوق کے لیے بولی جاتی ہے جو شاید کسی سیارے پر رہتے ہوں گے اور کسی دن شاید ان سے ماڈرن ترقی یافتہ دنیا کے اعلی نسل کے لوگوں سے مڈ بھیڑ بھی ہوجائے۔ جب تک وہ کسی سیارے سے اتر کر نیچے نہیں آتے جنگ و جدل کے لیے اپنے ہی سیارے پر ایلینز ڈھونڈ لیے جاتے ہیں۔ مذہب سے دور دنیا کا پراگریسو طبقہ ایلینز کے بارے میں اپنی فلم ، ڈرامے اور لٹریچر میں قیاس آرائی کرتے رہتے ہیں۔ بلکہ ناسا والوں کے پاس فوٹو اور ویڈیوز کا ریکارڈ بھی موجود ہے جس میں فضا میں خاص جسامت کے یو۔اف ۔اوز کی پروازیں ریکارڈ کی گئی ہیں۔ جن کی وضاحت کرنے سے ترقی یافتہ دنیا ابھی تک قاصرہے۔ پتہ نہیں ہمارے راڈارز نے بھی کچھ اس طرح کی پروازیں ریکارڈ کی ہیں کہ نہیں؟
فوڈ چین میں قدرتی طور پر ایک درجہ بندی ہے۔ فوڈ چین کے بہت نچلے درجے پر خون ریزی زیادہ ہوتی ہے۔ چنانچہ اپنے ہی سیارے کے ایلینز کا قتل عام پیس آف کیک ہے۔ نو پرابلم۔
ہم اس قتل عام کو ایک مختلف پیرائے میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوکرین کی جنگ مغربی بلاک کے لیے ایک مقدس جنگ بن چکی ہے۔ خدانخواستہ شکست سارے نیٹو ممبرز کا ہاضمہ مستقل خراب کرسکتی ہے۔جس شدو مد سے مغربی بلاک یوکرین کی مدد کیے جارہا تھا اور روس کو جارح قرار دے رہا تھا۔ لگ رہا تھا کہ شاید اب روس کے لیے پسپائی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہ جائے گا۔ مغربی میڈیا کم از کم یہی بتا رہا تھاکہ پوری دنیا روس کو جارح سمجھتی ہے اور روس کو اس جنگ میں شکست ہوگی  اور بین الاقوامی عدالت انصاف نے روسی صدر کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہوئے ہیں اور روس پر وار کرائمز کے مقدمے چلیں گے اور یوکرین کی تباہی کا خرچہ بھی روس پر پڑے گا۔ چونکہ روس جابر اور ظالم ملک ہے جس میں انسانی حقوق، آزادی اور جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
ایران تو پہلے ہی باغی ملک قرار دیا جا چکا ہے۔ پابندیوں کے شکنجے سخت سے سخت ہوتے رہتے ہیں۔ تو کیا ایران نے حماس کی تربیت کی یا مدد کی اور ایک مقدس  اور مارڈن جمہوری ریاست میں آزاد اور جمہوری باشندوں پر راکٹ برسائے اور ہلاکتیں واقع ہوئیں۔ پھر تو اسرائیل کا ری ایکشن پلان کے عین کے مطابق ہوا اور ایک سویلین آبادی نے اس کی قیمت چکائی۔ بین الاقوامی رائے عامہ کی توجہ یوکرین سے ذرا ہٹی اور بلیم گیم کے نشانے پر اسرائیل اور مغربی بلاک آگیا۔توجہ دوبارہ اسلام انتہا پسندی کی طرف مبذول ہوئی ہے۔ امریکہ اور اتحادیوں کے انسانی حقوق اور انسانی آزادی کے بیانیے کو شدید دھچکا لگا ہے۔ چین اور روس نے اطمینان کی سانس لی ہے۔ 

ہمارے خیال میں اس طرح کا قتل عام جو غزہ میں ہورہا ہے اس کے اثرات بہت منفی اور دور رس ہوتے ہیں۔ مغربی بلاک میں دہشت گردی کے جو واقعات ہوتے رہے ہیں ۔ وہ اسی طرح کے سویلین قتل عام کا ری ایکشن ہوتا ہے۔ جو بچے زند بچے ہیں اور انہوں نے اپنی فیملیوں کو یوں دن دیہاڑے قتل ہوتے دیکھا ہے وہ ایک ٹائم بم ہیں۔ وہی ٹائم بم جو نائن الیون کو پھٹا تھا۔ جس نے عشروں تک مسلمانوں کو دہشت گرد کا لباس پہنا دیا تھا۔
ؓبڑے مگرمچھوں کی جنگ میں مچھلیوں کا قتل عام عام فہم بات ہے۔ اب کچھ یوں ہوا ہے کہ امریکہ میں دائیں بازو کی سیاست جان پکڑ رہی ہے اور یوکرین کی امداد میں جمہوری پیچیدگیاں آڑے آنے لگی ہیں۔ میری نظر سے ایک مغربی مبصر کا تبصرہ گزرا ہے۔ اس کے بقول یورپ کے لیے یہ بات ایک شاک سے کم نہیں ہے کہ یوکرین کے لیے امریکی امداد رک رہی ہے۔ اب یورپ کو اپنے دفاع کا انتظام خود کرنا ہے۔یہ حقیقت یورپ کے لیے بہت تشویش ناک ہے۔ یورپ کو پتہ ہے دفاع کتنا مہنگا پڑتا ہے۔ چونکہ دفاع جب اپنے او پر آجاے تب سمجھ آتا ہے کہ دفاع اولین ترجیح ہوتی ہے۔ کس قدر ملکی بجٹ دفاع پر خرچ کرنا ہے۔ اس کا تعین آپ کا دشمن کرتا ہے۔ آپ نہیں کرتے۔ دشمن جتنا بڑا اور مضبوط ہے اتنا ہی دفاع کا بجٹ بڑھتا جاتا ہے۔
تو کیا یورپ اپنی ویلفیئر سٹیٹ کے ساتھ ساتھ دفاعی طور پر اتنا مضبوط ہوسکتا ہے کہ امریکہ کے بغیر روس کو جارحیت سے باز رکھ سکے؟ بہرحال ولڈ آرڈر میں ابھی تک بڑی تبدیلی کا انتظار ہے۔ ہمیں اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ہم غزہ میں نہیں رہتے؟ بے شک اللہ بہتر جانتا ہے۔ 
 اللہ ہمارا حامی اور ناصر ہو۔

۔

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

مزید :

بلاگ -