یورپ اور امریکہ میں بڑا جرم ٹیکس اور قرضے ادا نہ کرنا ہے، ہمارے سیاسی حکمران اور عدلیہ انصاف پسندی سے کام کرتے تو مارشل لاء نافذ نہ ہوتے
مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
قسط:69
طویل سیاسی جدوجہداور وکلاء کی طاقتور تحریک کے بہت غور طلب اور دور رس نتائج ہیں۔ اس موضوع پر بہت تفصیلی کتب چھپ چکی ہیں اور ان تفصیلات کو دہرانا ہمارا مقصد نہیں ہے بلکہ عرض کرنے کی غایت یہ ہے کہ عدلیہ نے بہت سے مواقع پر کمزوری کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہمارے سیاسی حکمران اور عدلیہ اگر انصاف پسندی اور توازن کو قائم رکھنے کے لیے کام کرتے تو ملک میں مارشل لاء کبھی بھی نافذ نہ ہوتے۔ اب بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ ملکی حالات اور سیاست دانوں کے بارے میں ازخود نوٹس لینے کی روایت شروع کرے جو سیاسی لیڈر اور اراکین حکومت سرکاری ٹیکس ادا نہیں کرتے عدالتیں اُن کے بارے میں نوٹس لیں۔ یورپ اور امریکہ میں کسی بڑے سے بڑے آدمی کے بارے میں یہ کہا جائے کہ وہ ٹیکس نہیں دیتا تو عدالتیں اُنہیں طلب کر کے ساری زندگی کی آمدنی اور اخراجات کا حساب طلب کر لیتی ہیں۔ وہاں سب سے بڑا جرم حکومت کو ٹیکس ادا نہ کرنا اور سرکاری قرضے واپس نہ کرنا ہے۔
ہماری عدالتوں میں فیصلے بہت تاخیر سے کئے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں وکلاء کیس کو لمبا کرنے کے ماہر بن گئے ہیں۔ بعض نامور وکلاء اس سلسلہ میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں اور بہت سے وکلاء تو بے معنی مقدمہ بازی کو بہت طول دیتے ہیں جس کی وجہ سے عدالتوں پرمقدمات کا بوجھ زیادہ ہو جاتا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں انہوں نے اس کا علاج یہ ڈھونڈا ہے کہ جو مقدمہ دائر کرے گا وہ اس کے خرچہ کا ذمہ دار بھی ہو گا۔ جس کے خلاف مقدمہ ہو اگر وہ قصور وار ہے تو وہ مقدمہ کے اخراجات بھی ادا کرے۔
انگلینڈ میں مقدمہ دائر کرنے کے لئے سائل کو کسی سولسٹر کے پاس جانا ہوتا ہے جو اس کے مقدمہ کی فائل تیار کرتا ہے۔ تمام حقائق اور قانونی استحقاق طے کرتا ہے۔ اس کے بعد اس مقدمہ کو متعلقہ ایڈووکیٹ کے پاس لے جاتا ہے۔ وہاں ایڈووکیٹ یا سولسٹر کسی بے بنیاد یا جھوٹے مقدمہ کی وکالت کی بنیاد نہیں بناتے بلکہ وہ عدالت کی معاونت کرتے ہیں تاکہ عدالت کو انصاف کرنے اور قصور وار کو سزا دینے میں آسانی ہو۔ جو لوگ غلط مقدمہ بازی کرنے کے شوقین ہیں یورپ اور امریکہ میں وہ فوراً پکڑے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یورپ اور امریکہ میں جیوری سسٹم بھی کام کرتا ہے۔ جس علاقہ میں جرم ہوا ہے یا جس علاقہ کی جائیداد کا مقدمہ ہے اس علاقہ کے وہ لوگ جو آس پاس رہتے ہیں عدالتیں انہیں جیوری کے طور پر طلب کرتی ہیں۔ علاقہ کے دس بیس یا پچاس معزز لوگ سارے حالات و واقعات سن کر حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں اور عدالت ایک دو تین پیشیوں میں مقدمہ کا فیصلہ کر دیتی ہے۔
اس نظام سے عوام کو سہولت ملتی ہے اور عدالتیں ناجائز مقدمہ بازی کے بوجھ سے آزاد ہو جاتی ہیں۔ جو لوگ جائز مقدمہ کرتے ہیں اُنہیں انصاف ملتا ہے اور جو لوگ ناجائز مقدمہ بازی کرتے ہیں اُنہیں مقدمہ کے مکمل اخراجات ادا کرنے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بھی اس سے فائدہ اٹھایا جائے تو کیا حرج ہے۔ پاکستانی عدالتوں میں انگریزی حکومت جانے کے بعد تک عدالتوں میں جیوری یا اسیسرز کا نظام کام کرتا رہا ہے۔ اس سے عوام کے لیے انصاف کا حصول آسان ہو جاتا ہے اور عدلیہ پر عوام کا اعتماد بڑھتا ہے۔ ہماری اعلیٰ عدلیہ میں دائر ہونے والے سیاسی مقدمے بھی عدالتوں کے لیے ایک بوجھ ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو چاہئے کہ وہ سیاسی مقدمہ بازی کی حوصلہ شکنی کریں۔ جو لوگ سیاسی مقدمات لے کر آتے ہیں اُنہیں کہا جائے کہ وہ اسمبلیوں میں جا کر یہ معاملات طے کریں۔ عدالتوں میں صرف آئینی اور قانونی معاملات آنے چاہئیں۔ اگر کسی جگہ انتظامیہ نے جبر اور تشدد سے کام لیا ہے تو اعلیٰ عدالتوں کو مظلوم کی داد رسی کے لیے کھڑا ہونا چاہیے۔ ازخود نوٹس کا اختیار ایسے ہی مواقع کے لئے استعمال ہونا چاہیے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔