توہین رسالت کیا ہے؟

توہین رسالت کیا ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

شایان الٰہی خان

ملت اسلامیہ ہمیشہ اور ہر دور میں اس بات پر متفق رہی ہے کہ نبی کریمؐ کی شانِ اقدس میں کسی بھی طریقہ سے گستاخی کرنے والا واجب القتل ہے، وہ گستاخی صراحتہً کرے یا کنایتہ اشارۃً کرے یا کسی بھی طریقہ سے۔ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، ہر حال میں واجب القتل ہوگا اور توبہ کر لینے سے بھی اس کا قتل معاف نہیں ہوگا اور کسی بھی نبی کی توہین کا یہی حکم ہوگا۔
توہین رسالت میں اصولی بات یہ ہے کہ ہر وہ بات جسے عرف عام میں توہین آمیز کلمہ تصور کیا جائے گا جس میں حضور سید عالمؐ کی توہین یا تنقیص کا پہلو نکلتا ہو وہ توہین رسالت متصور ہوگی بلکہ یہ اتنا نازک مقام ہے کہ بعض چیزیں جنہیں عرف عام میں توہین نہیں بھی سمجھا جاتا، رسالت کے باب میں ایسا غیر مناسب رویہ بھی توہین و تنقیص تصور کیا جاسکتا ہے۔
قاضی ابوالفضل عیاض بن موسیٰ اندلسی فرماتے ہیں!
’’جان لو (اللہ تعالیٰ تمہیں اور ہمیں نیک توفیق دے) کہ جو شخص حضور اکرمؐ کو گالی دے یا آپ پر عیب لگائے، یا کسی نقص کی نسبت آپ کی ذات، نسب اور دین میں کرے، یا آپؐ کی کسی عادت کی طرف کرے یا آپ کو بطریق گستاخی کسی چیز سے تشبیہ دے یا ناقص کہے یا آپ کی شان کو کم کرنے کی توہین کرنے والا ہوگا۔ اس کے متعلق وہی حکم ہے جو آپ کو گالی دے اس کو قتل کر دیا جائے گا‘‘۔
علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں۔
’’اذی، سب اور شتم کا مفہوم سمجھنے کے لئے عرف کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ اہل عرف کے نزدیک جو چیز گستاخی، تنقیص اور عیب شمار ہوگی ان سب کو ’’گالی‘‘ کہا جائے گا۔‘‘
قاضی ثناء اللہ پانی پتی فرماتے ہیں۔
’’جو بھی شخص حضور سید عالمؐ کو اشارہ و کنایہ، صریح وغیرہ، عیب کی جملہ وجوہ میں سے کسی ایک وجہ سے یا آپؐ کے دین یا آپؐ کی ذات اقدس کے متعلق کسی بھی قسم کی زبان درازی کرے گا تو وہ کافر ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں اس پر لعنت کی اور اس کے لئے جہنم کا عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘۔
توہین رسالتؐ کے متعلق علماء امت نے بعض چیزوں کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے کہ ان چیزوں کا ارتکاب کرنے والا توہین رسالت کا مرتکب ہوگا تاکہ اس مسئلہ کی نزاکتیں مزید واضح ہو جائیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے!
’’اے ایمان والو تم ’’راعنا‘‘ نہ کہو بلکہ ’’انظرنا‘‘ کہو اور غور سے سنو اور کفر کرنے والوں کے لئے درد ناک عذاب ہے۔‘‘
اس آیہ کریمہ کا پس منظر یہ ہے کہ جب نبی کریمؐ صحابہ کرامؓ کو وعظ فرماتے تو اگر کسی صحابیؓ کو کوئی بات سمجھ نہ آتی تو وہ عرض کرتا راعنا یا رسول اللہؐ۔ اے اللہ کے رسولؐ ہماری طرف توجہ فرمایئے۔ یہود کی لغت میں یہی لفظ بددعا کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اور اس کا معنی تھا سنو تمہاری بات نہ سنی جائے؟ اسی معنی کا لحاظ کرتے ہوئے یہود یہ لفظ کہتے اور آپس میں ہنستے کہ پہلے تو ہم انہیں تنہائی میں بددعا دیتے تھے اب برسرمجلس بددعا دینے کا موقع ہاتھ آگیا۔ حضرت سعدؓ بن معاذ کو یہود کی لغت کا علم تھا۔ انہوں نے یہود کی اس سازش کو بھانپ لیا اور انہوں نے فرمایا۔ اے یہود تم پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اگر تم نے آئندہ یہ لفظ بولا تو میں تمہاری گردن اڑا دوں گا۔ یہود کہنے لگے تم بھی تو یہی لفظ کہتے ہو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی اور اہل ایمان کو بھی ’’راعنا‘‘ کے لفظ کے استعمال سے روک دیا کیونکہ یہ ذومعنی اور مشترک لفظ تھا۔
چونکہ یہود نے راعنا کا مشترک اور ذومعنی لفظ بول کر حضور سید عالمؐ کی توہین کا راستہ اختیار کیا تھا لہٰذا اللہ تعالیٰ نے راعنا کا لفظ بولنا ہی منع فرما دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو بھی لفظ کسی بھی معنی اور لحاظ سے حضوراکرمؐ کی توہین کا سبب بنے وہ حضوراکرمؐ کی گستاخی تصورہوگا۔ جیسے ’’ذلیل‘‘ کا لفظ اگرچہ عربی میں بے سروسامان کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ لیکن یہ گھٹیا اور حقیر کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے قرآن مجید میں منافقین کا یہ قول بیان کیا گیا۔
’’وہ کہتے ہیں اگرہم مدینہ لوٹے تو عزت والا وہاں سے ذلت والے کو نکال دے گا‘‘۔
یہاں ذلت کا لفظ عزت کے متضاد کے طور پر استعمال ہوا ہے اور اردو میں تو ذلیل کا لفظ استعمال ہی گھٹیا معنی میں ہوتا ہے۔
نبی کریمؐ پر ایسے الفاظ کا اطلاق توہین تصور ہوگا جو کسی بھی لحاظ سے کسی برے معنی میں استعمال ہوتے ہوں۔
علامہ شہاب خفا جی فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے حضوراکرمؐ پر کسی کی علمی فضیلت ثابت کرتے ہوئے کہا فلان اعلم منہ کہ فلاں شخص حضوراکرمؐ سے زیادہ علم والا ہے تو وہ کافر ہو جائے گا۔ (نسیم الریاض جلد 4 صفحہ 334)
علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
’’ابن دھب نے امام مالک سے روایت کیا ہے کہ جس نے توہین کی نیت سے یہ کہا کہ نبی کریمؐ کی چادر میلی ہے اسے قتل کر دیا جائے گا‘‘۔
علامہ شامی لکھتے ہیں:
بعض مشائخ کے نزدیک اگر کسی نے حضوراکرمؐ کے شعر (بال) مبارک کو توہین کی نیت سے شعیر (بصیغہ تصغیر) کہا تو وہ کافر ہو جائے گا اور بعض کے نزدیک اگرچہ توہین کی نیت نہیں کی تو پھر بھی حضوراکرمؐ کے شعر مبارک کو شعیر کہنے والا کافر ہو جائے گا۔
حضور سید عالمؐ کی کسی سنت مبارکہ کا حقارت سے تذکرہ کرنا بھی توہین رسالت متصور ہوگا۔
امام ابن بزاز حنفیؒ فرماتے ہیں:
اگر کوئی شخص کہے کہ حضورؐ کا معمول تھا کہ آپ کھانا کھانے کے بعد اپنی انگلیاں چاٹ لیتے تھے اور کوئی سننے والا حقارت کی نیت سے کہے کہ یہ تو آداب کے منافی ہے تو وہ شخص کافر ہو جائے گا۔ (فتاوی بزازیہ جلد 6صفحہ نمبر 328)
اگر کسی نے کہا کہ ناخن ترشوانا سنت ہے دوسرے نے کہا ٹھیک ہے اگرچہ سنت ہے مگر اس کے باوجود میں ناخن نہیں ترشواتا۔ اس اسلوب کلام سے بھی وہ شخص کافر ہو جائے گا۔
(خلاصیہ الفتاویٰ جلد 4 صفحہ 384)
اگر کسی نے کوئی حدیث سنی پھر حقارت کرتے ہوئے کہنے لگا اس طرح کی بہت سی باتیں میں نے سنی ہوئی ہیں۔ اس طرح کہنے سے بھی وہ شخص دائرہ اسلام سے نکل جائے گا۔ (فتاویٰ بزازیہ جلد 4 صفحہ 86)
قاضی عیاض فرماتے ہیں:
امام محمد بن زید نے اس شخص کے قتل کا فتویٰ دیا جو ایک قوم کی باتیں سننے لگا جو حضور اکرمؐ کی صفات کا تذکرہ کر رہی تھی۔ اچانک ایک قبیح چہرے، داڑھی والا شخص وہاں سے گزرا تو وہ شخص کہنے لگا کیا تم حضوراکرمؐ کی صفت جاننا چاہتے ہو تو حضورؐ کی صفت خلقت اور داڑھی مبارک اس گزرنے والے کی طرح ہے۔ (معاذ اللہ) امام محمد بن ابوزید نے فرمایا۔ ’’اس کی توبہ قبول نہیں۔ یہ جھوٹا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔ ایسی باتیں اس شخص کے دل سے نہیں نکلتیں۔ جس کا ایمان سلامت ہو‘‘۔
امام احمد بن سلیمان فرماتے ہیں:
’’جس نے حقارت سے کہا کہ نبی کریمؐ کا رنگ سیاہ تھا (معاذ اللہ!) اسے قتل کر دیا جائے گا‘‘۔
ایک شخص نے دوسرے سے کہا تم میری فقیری کا مذاق اڑاتے ہو حالانکہ نبی کریمؐ نے بھی بھیڑبکریاں چرائی تھیں۔ امام مالک نے ایسے شخص کے خلاف فتویٰ دیا کہ اس نے نبی کریمؐ کا ذکر موقع و مناسبت کے بغیر کیا تھا اس لئے ایسے شخص کو اس کی سزا دی جائے۔ (نفس مصدرج جلد نمبر 2صفحہ 242)
ایسے ہی کسی شخص کا نبوت کا دعویٰ کرنا، آپؐ کی طرف کسی جھوٹ کو منسوب کرنا، آپؐ کی ذات پر طنز کرنا، آپؐ کو اللہ تعالیٰ کی نعمت عظمیٰ تسلیم نہ کرنا، آپؐ کے فقر کو اضطراری کہنا اور آپؐ کی طرف کسی جہالت کو منسوب کرنا وغیرہ یہ سب چیزیں توہین رسالت کے زمرہ میں آئیں گی۔ ان سے بچنا چاہئے۔

مزید :

ایڈیشن 1 -