سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 19

Sep 30, 2019 | 12:44 PM

مبین رشید

چھٹا حملہ
1011ءمیں محمود غزنوی نے تھانسیر کو فتح کرنے کا ارادہ کیا۔ ہندو اس کا اسی طرح احترام کرتے تھے‘جس طرح مسلمان مکہ مکرمہ کا کرتے ہیں۔ آنند پال نے بے سود ہی بادشاہ کو تھانسیر کے خزانے پیش کیے اور اس سے وعدہ کیا کہ شاہی خزانے سے ہر سال اسی قدر ادا کرے گا اور اس کی مہم پر اٹھتے والے جملہ اخراجات کی ادائیگی کرے گا۔اس کے علاوہ پچاس ہاتھی اور نہایت بیش قیمت تحائف پیش کرنے کا وعدہ کیا لیکن محمود غزنوی نے سارے ہندوستان سے بت پرستی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ اس نے پیشکش کو رد کر دیا اور شہر پر قبضہ کر لیا‘ اس کے شہریوں کو لوٹ لیا‘ ان کے بڑے بڑے عظیم الشان مندروں کو تباہ اور بتوں کو پاش پاش کر دیا۔ ان بتوں میں سب سے اہم بت کو”جگسوم“کہا جاتا تھا اور اس کے بارے میں ہندوﺅں کا عقیدہ تھا کہ یہ روزِ تخلیق سے موجود ہے۔ اسے بے شمار ٹکڑوں کی صورت میں غزنی‘مکہ مکرمہ اور بغداد روانہ کیا گیا تاکہ گلیوں میں پاﺅں تلے روندا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ محمود غزنوی نے اس موقع پر دو لاکھ قیدی غزنی روانہ کیے۔ اس دفعہ بہت سامال غنیمت بھی حاصل کیا گیا۔

سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 18 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ساتواں حملہ
1013ءمیں محمود غزنوی نے ایک بہت بڑی فوج کے ہمراہ بلوات کے پہاڑوں میں واقع نندونہ کے خلاف پیش قدمی کی اور بھرپور خملہ کے بعد چھاﺅنی کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا۔ آنند پال کے بیٹے اور جانشین جے پال ووئم نے جب یہ محسوس کیا کہ وہ سلطان کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہے تو اس نے اپنی فوج کے ہمراہ کشمیر کا رخ کیا۔ محمود غزنوی نے پہاڑی علاقے میں ایک حاکم کو تعینات کیا اور بغیر کوئی دقیقہ فرد گزاشت کیے کشمیر کی طرف روانہ ہوا۔ اس پر لاہور کے راجہ نے صوبہ کو خیر باد کہا اور پہاڑوں کی طرف فرار ہو گیا۔ محمود غزنوی نے کشمیر کی تمام عظیم الشان دولت کو لوٹ لیا اور وہاں کے باشندوں کو دینِ اسلام قبول کرنے پر مجبور کر دیا۔ اور لوٹ مار کے بیش بہا قیمتی سامان کے ساتھ اپنے دارالخلافہ کی طرف لوٹ گیا۔
آٹھواں حملہ
دو سال کے بعد سلطان نے چند باغی سرداروں کو سزا دینے اور چند قلعوں کو فتح کرنے کے لیے‘(جن پر گزشتہ مہم کے دوران حملہ نہیں کیا گیا تھا‘) دوبارہ کشمیر کا رخ کیا۔ ان میں سب سے اہم لوکوٹ کا قلعہ تھا‘ جو اپنی بلندی اور مضبوطی کے لیے بہت مشہور تھا۔ موسم گرما کے دوران اس مقام کو فتح کرنے کے لئے سلطان کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں اور موسم سرما شروع ہونے پر سلطان کو اس مہم کو ترک کرکے مجبور ہوکر غزنی واپس جانا پڑا۔
نواں حملہ
1017ءکے موسم بہار میں سلطان ایک لاکھ گھڑ سوار اور 20ہزار پیادہ فوج کے ہمراہ قنوج کی طرف بڑھا۔ اس نے کشمیر کے شمالی پہاڑوں کا راستہ اختیار کیا۔ قنوج کا راجہ بڑی شان و شوکت اور جاہ و جلال کا حامل تھا لیکن دفاع کے لئے پوری طرح تیار نہ ہونے کے باعث اس نے امن پر صلح کر لی۔ اس کے بعد اس نے میرٹھ کی طرف پیش قدمی کی۔ اس کے بادشاہ ہردیت رائے نے بھی اطاعت قبول کر لی پھر جمنا کے کنارے پر آباد مہاون کی طرف بڑھا اور اسے تسخیر کر لیا۔ راجہ کیل چند نے مایوسی کی حالت میں اپنے بیوی بچوں کو قتل کیا اور اس کے بعد اپنی تلوار کی نوک کو اپنی جانب کرکے اپنا خاتمہ بھی لر لیا۔تب اس نے متھرا کے بہترین شہر کی طرف رخ کیا۔ وہ کرشن باسدیو کے لئے وقف تھا۔ قلیل مزاحمت کا سامنا کرنے کے بعد لوٹ مار شروع کر دی گئی۔ تمام بتوں کو یا تو پاش پاش کیا یا جلا دیا گیا۔ زیادہ مندروں کو مسمار کیا اور سونے و چاندی کی صورت میں بہت بڑا خانہ لوٹ لیا۔
محمود غزنوی بیس روز تک قنوج میں ٹھہرا۔ اس دوران شہر میں خوب آتش زنی اور غارت گرمی کی گئی۔چند چھوٹے راجاﺅں کو مطیع کرنے کے بعد سلطان لوٹ مار کی دولت اور بے شمار قیدیوں سمیت غزنی کی طرف لوٹا۔ اس کی فوج نے اپنی طرف سے جو لوٹ مار کی تھی‘وہ سرکاری خزانے کے لوٹ مار سے کسی طرح بھی کم نہ تھی۔ محمود غزنوی ہندوستان میں اپنے قیام کے دوران ہندوستان کے فن تعمیر کی خوبصورتی سے بڑا متاثر ہوا۔ اپنے دارالخلافہ میں پہنچنے کے بعد اس نے وہاں پتھر اور سنگِ مرمر کی ایک شاندار مسجد تعمیر کرائی۔ اس نے اسے قالینوں‘فانوس اور سونے و چاندی کے سازو سامان سے مزین کیا۔ وہ اسے”آسمانی دلہن“کہتا تھا۔ اس کے درباری امراءنے بھی اس کی تقلید کی۔
وہ دارالحکومت کو نجی محلات اور سرکاری عمارات سے مزین کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ محمود غزنوی نے سرکاری خزانے کی مدد سے شاہی مسجد کے قرب و جوار میں ایک عظیم الشان جامعہ‘نہایت عالم فاضل مصنفین کی کتب پر مبنی دارالمطالعہ(کتب خانہ)‘قدرتی عجائبات اور فن کے نمونوں پر مشتمل عجائب گھر تعمیر کرایا۔ فن کے ذوق و شوق میں اضافہ ہوا اور مختصر سے وقت میں محمود غزنوی کا دارالخافہ خوبصورت مساجد‘بارہ دریوں‘فواروں‘تالابوں‘محرابی نالوں اور چوبچوں سے مزین ہو گیا۔ وضع قطع اور کاریگری کے لحاظ سے گزشتہ ادوار کی کوئی عمارت ان کی برابری نہیں کر سکتی تھی۔ 1019ءمیں سلطان محمود غزنوی نے بغداد کے خلیفہ القادر باللہ کے پاس اپنی فتوحات کی ایک سرگزشت روانہ کی۔ اس نے شہر کے مسلمانوں کے ایک عظیم الشان اجتماع کے سامنے پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے کرہ¾ ارضکے دور دراز علاقوں میں مسلمانوں کو حاصل ہونے والی فتوحات پر بہت خوشی منائی۔
دسواں حملہ
1021ءمیں ہندو راجاﺅں کی متحدہ فوج نے قنوج کی راجہ کنور رائے پر حملہ کر دیا کیونکہ اس راجہ نے محمود غزنوی سے الحاق کر لیا تھا۔ سلطان نے ہندوستان کی طرف پیش قدمی کر دی لیکن اس سے پیشتر کہ وہ قنوج پہنچتا‘ اس پر بندیل کھنڈ کالنجر کے راج نندا نے قنضہ کر لیا۔اس نے کنور رائے اور اس کے متعدّد سرداروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔اس کی موت کو بدلہ لینے کی لیے سلطان کالنجر کی طرف روانہ ہوا اور نندا رائے کو بھاگنے پر مجبُور کر دیا۔اس فتح کے بعد محمود غزنوی نے کشمیر کی طرف پیش قدمی کی اور راستے میں لوکوٹ کے ناقابلِ تسخیر قلعہ کا محاصرہ کر لیا۔تب وہ لاہور میں داخل ہوا اور آنند پال کے قنوج کے راجہ کے خلاف متحدہ فوج میں شمولیت کے باعث انتقاماً اس نے اپنے فوجی دستوں کو شہر کی لوٹ مار کا حکم دے دیا۔ یہاں پر بے شمار دولت اس کے ہاتھ لگی اور راجہ نے جب اپنے آپ کو دشمن کا مقابلہ کرنے میں ناکام پایا تو پناہ حاصل کرنے کے لیے اجمیر کی طرف بھاگیا۔ اسی سال موسم بہار میں محمود غزنوی نے مفتوح صوبوں پر اپنے صوبیدار تعینات کیے اور غزنی روانہ ہو گیا۔
اس نے لاہور کا انتظام اپنے پسندیدہ مشیر اور جنرل ملک ایاز کے سپرد کیا‘جس کا نام بہت سی روایات اور اپنے آقا کے ارشادات میں موجود ہے۔ ملک ایاز نے لاہور کا قلعہ اور فصیل تعمیر کرائی۔شہر کو وسیع اور خوبصورت بنایا۔ محمود غزنوی کے اس مقبول عام حاکم کے دور میں لاہور علم و فضل کا گہوارہ بن گیا اور غزنی سے لوگ یہاں آکر آباد ہوگئے۔ان میں حضرت مخدوم شیخ علی گنج بخش ہجویریؒ بھی تھے۔ شہر کے باہر کے باہر جن کا مزار داتا گنج بخشؒکے نام سے مشہور ہے اور مسلمان اس کی بہت تکریم و تعظیم کرتے ہیں۔
محمود غزنوی نے اپنے نام کی نسبت سے لاہور کو محمود غزنوی پور کہنا شروع کر دیا۔
اس نے لاہور میں سکے مضروب کرائے‘جن پر عربی اور ہندی کی مندرجہ ذیل عبارت درج تھی:
القادر باللہ
”اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمدﷺاللہ کے رسول ہیں۔ حکومت کے دائیں ہاتھ‘دین پناہ محمود غزنوی نے اللہ کے نام سے اس درہم کو 418ہجری میں محمود غزنوی پور میں مضروب کرایا“۔
پیشانی(ہندی)
ایبک تمک‘محمد اوتار‘نری پتی
محمود غزنوی
”غیر مرئی صرف ایک ہے۔
مجسم محمود غزنوی ہے
بادشاہ محمود غزنوی“۔
حاشیہ(ہندی)
”اللہ کے نام پر اس کو 418ہجری میں محمود غزنوی پور میں مضروب کیا گیا“۔
گیارہواں حملہ
دو سال بعد محمود غزنوی نے کالنجر کے راجہ نند رائے کو مزہ چکھانے کے لیے دوبارہ ہندوستان کی طرف پیش قدمی کر دی۔ کیونکہ گزشتہ مہم کے دوران وہ سزا سے بچ گیا تھا۔ وہ اس کے خلاف لاہور کے راستے سے بڑھا اور گوالیار سے گزرنے کے بعد اس نے اس کے قلعے کا محاصرہ کر لیا۔ لیکن راجہ نے اطاعت کر لی اس طرح وہ محفوظ رہا۔ نند رائے نے بر وقت اطاعت اور قیمتی تحائف پیش کرکے اپنے آپ کو آفت سے بچا لیا۔انہیں قبول لر لیا گیا اور علاقوں کے قبضہ پر بحال رکھا گیا۔
بارہواںحملہ
محمود غزنوی کافی عرصہ سے کاٹھیاواڑ کے ایک ساحلی شہر سومنات کے مشہور و معروف مندر کی دولت اور تقدس کے بارے میں سنتا چلا آ رہا تھا۔وہاں پر ہندوستان کے سبھی حصوں سے پجاری جمع ہوتے تھے۔
سومنات کا مندر
ہندوﺅں کا عقیدہ تھا کہ سوما دیوتا‘جس کا نام پر یہ مندر مشہور تھا‘اس کو تمام ارواح پر مکمل اختیار حاصل ہے۔ اس کے بارے میں اس عقیدے کا اظہار کیا جاتا تھا کہ وہ تمام تنانحوں کو باقاعدہ بناتا ہے اور روحوں کو سزا و جزا دینے کی طاقت بھی اسی کے پاس ہے۔ مندر بہت عالیشان تھا اور تمام پجاری اس کی بڑی تعظیم و تکریم کرتے تھے۔
بہر حال بت پرستی کے اس جیسے مراکز کو تباہ کرنے کے لیے تہیہ کرکے اس نے ستمبر 1024ءمیں غزنی سے ہندوستان کی طرف پیش قدمی کر دی۔ اس کے ہمراہ ترکستان اور ہمسایہ ممالک کے 30ہزار نوجوان رضا کار تھے۔ انہوں نے اس مندر کو تباہ کرنے کے لیے سلطان کی فوج میں بلا معاوضہ شمولیت اختیار کر لی تھی۔ملتان کے صحرا کو عبور کرنے کے بعد وہ اجمیر پہنچا۔ اس نے اس میں لوٹ مار مچا دی اور دیگر قلعوں کو تسخیر کرتا اور بلا مزاحمت تیزی سے پیش قدمی کرتا ہوا سومنات پہنچ گیا۔
مندر کے قلعہ کا راجپوتوں نے بڑی جوانمردی سے دفاع کیا اور مسلسل تین روز تک مسلمانوں کے حملوں کو عظیم نقصان کے ساتھ پسپا ہونا پڑا۔ آخرکار محمود غزنوی اپنے گھوڑے سے کود پڑا اور زمین پر سجدہ ریز ہوکر اللہ سے مدد کی درخواست کی اور دوبارہ گھوڑے پر سوار ہوکر اپنے سرکیشیئن جرنیل ابوالحسن کا ہاتھ تھام کر حوصلہ افزائی کی خاطر اپنی فوج میں جوش و خروش پیدا کرنے کے لیے کچھ اس قدر گرم جوشی سے نعرہ لگایا کہ وہ سب ایک طوفان کی صورت میں قلعہ پر ٹوٹ پڑے اور چھاﺅنی کے پانچ ہزار سپاہیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ باقی ماندہ فوج اپنی جان بچانے کے لیے کشتیوں پر سوار ہو گئی لیکن مسلمانوں نے ان کو تعاقب کیا اور بے شمار کشتیوں کو ڈبو دیا۔ اب محمود غزنوی مندر میں داخل ہوا۔ اس کے بیٹے چند امراءاور سردار اس کے ہمراہ تھے۔ جیسے ہی وہ ایک عظیم الشان ایوان میں داخل ہوا تو اس نے اپنے سامنے پتھر کا ایک نو فٹ بلند بت دیکھا۔ سلطان نے مجسمے کے قریب پہنچ کر اپنے گرز کی ایک ہی کاری ضرب سے اس کا ناک اڑا دیا۔اس کے بعد اس نے حکم دیا کہ بت کے دو ٹکڑے غزنی روانہ کر دیے جائیں۔ایک کو جامع مسجد کی دہلیز پر پھینک دیا جائے اور دوسرے کو اس کے محل کے صدر دروازے پر رکھ دیا جائے۔ اسی وقت مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے لیے بھی دو اور ٹکڑے روانہ کیے گئے۔ برہمنوں نے سلطان کے سامنے پیش کش رکھی کہ اگر وہ بتوں کو چھوڑ دے تو وہ اسے بہت مقدار سونا دیں گے۔ حتیٰ کہ محمود غزنوی کے درباریوں نے بھی اسے مشورہ دیا کہ ایک بت کی تباہی سے بت پرستی ختم نہیں ہو سکتی۔ لیکن محمود غزنوی نے یہ بات کہتے ہوئے اس خیال کی تضحیک اڑائی کہ اگر اس نے دولت کی خاطر اس بت کو چھوڑ دیا تو آنے والی نسلوں میں اس کا نام”بت فروش“کے طور پر لیا جائے گا‘جب کہ اس کا مقصد اس کے بجائے”بت شکن“کہلانا ہے۔بت کو اسی وقت پاش پاش کر دیا گیا تو اس کے اندر سے اس دولت سے کہیں زیادہ مالیت کے ہیرے جواہرات برآمد ہوئے‘جس کی پیشکش راہبوں نے کی تھی۔ سومنات میں مختصر قیام کے بعد سلطان کے کچ میں گنداوا اور شاندار شہر انہلواڑہ کو فتخ کیا اور اس ملک کے راجہ کو گجرات کی سلطنت عنایت کرنے کے بعد سندھ کے راستے غزنی کی طرف لوٹ گیا۔ سامنات کی مہم اور گجرات کے معرکہ میں اڑھائی سال صرف ہوئے۔
تیرہواں حملہ
ہندوستان کیلئے محمود غزنوی کی آخری مہم کا آغاز 1027ءمیں ہوا۔ یہ مہم دریائے سندھ کے کناروں پر آباد جاٹ قبائل کے خلاف تھی۔ انہوں نے گجرات سے واپسی پر مسلمانوں کی فوج سے چھیڑ چھاڑ کی تھی۔ ان قبائل کو تسخیر کر لیا اور اس کے بعد ہندوستان پر مزید کسی حملے کا ارادہ نہیں کیا۔(جاری ہے)

سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 20 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں