سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 18
سلطان محمود غزنوی کے تاریخی حملے
پہلا حملہ
اگست1001ءمیں دس ہزار منتخب گھڑ سوار فوج کے ساتھ اس نے غزنی سے پشاور کی طرف پیش قدمی کر دی۔ یہاں پر لاہور کا راجہ جے پال 12ہزار گھڑ سوار اور 30ہزار پیادہ فوج اور300ہاتھوں کے ہمراہ اس کے مقابلہ پر آیا۔ دونوں فوجوں کے درمیان جنگ شروع ہوگئی۔ ہندو بڑی بے باکی سے لڑے لیکن آخرکار وہ محمود غزنوی کے منظّم گھڑ سوار دستوں کے سامنے پسپا ہوگئے اور انہیں شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ میدانِ جنگ میں ان کے پانچ ہزار سپاہی مارے گئے۔ جے پال اور اس کے پندرہ سرکردہ سرداروں کو محمود غزنوی نے قیدی بنا لیا۔
اس فتح سے محمود غزنوی کو بہت زیادہ شہرت اور دولت حاصل ہوئی۔ مالِ غنیمت میں ہیرے جواہرات سے مزین سولہ ہار بھی اس کے قبضے میں آئے‘جن کو صرف جے پال زیب تن کرتا تھا۔ ان کی مالیت 82ہزار پاﺅنڈ تھی۔ اس فتح کے بعد محمودغزنوی نے بھٹنڈہ کی طرف پیش قدمی کی اور اس کے قلعے پر حملہ کرکے اسے فتح کرلیا۔ آئندہ موسم بہار میں اس نے جے پال کو اس شرط پر رہا کر دیا کہ وہ اسے سالانہ خراج ادا کرے گا لیکن اس نے اس کی پنجاب کی طرف پیش قدمی کے دوران مخالفت کرنے والے افغان سرداروں کو تہہ تیغ کر دیا۔ ضعیف ہندو راجہ جے پال نے محمود غزنوی کی طرف سے ہونے والی شکست اور شکست کی وجہ سے ذلت محسوس کرتے ہوئے اور اپنے آپ کو حکومت کرنے کا نا اہلِ سمجھتے ہوئے اپنے بیٹے آنند پال کی حمایت میں دستبردار ہونے کا فیصلہ کرلیا اور اپنی تیار کردہ چتا پر دیوتاﺅں کے اپنی قربانی پیش کر دی۔
سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 17 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دوسرا حملہ
محمود غزنوی نے 1004ءمیں سیستان میں ایک فوجی مہم سے واپس آنے کے بعد یہ دیکھا کہ ہندوستان سے خراج مکمل طور پر ادا نہیں کیا گیا۔لاہور کے راجہ آنند پال نے اپنا حصّہ ادا کر دیا تھا لیکن بھاٹیہ کے ایک با جگرار راجہ بیجی رائے نے اپنا حصّہ روک لیا اور مسلمانوں سے نہایت تلخ رویہ اختیار کرنے کے علاوہ ان گورنروں سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگا‘جنہیں محمود غزنوی نے ہندوستان میں تعینات کیا تھا۔ محمود غزنوی ملتان کے راستہ سے راجہ کے علاقہ میں داخل ہوا۔ اس نے دیکھا کہ بھاٹیہ کو ایک نہایت بلند فصیل سے قلعہ بند کیا گیا ہے اور اس کے اردگرد ایک گہری اور کشادہ خندق ہے۔ راجہ نے اپنی راجپوت فوج کو جنگ کے مطابق ترتیب دیا اور ہندوستانی مسلمانوں سے اس قدر بے باکی سے لڑے کہ لگاتار تین دنوں کی جھڑپوں میں موخرالذکر پسپا ہو گئے۔ تمام مصبوط مورچوں پر ہندوﺅں کا قبضہ تھا اور مسلمانوں کو اس قدر نقصان کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ اب میدان جنگ کو چھوڑنے کی تیاری کرنے لگے۔ آخرکار چوتھے روز محمود غزنوی نے اپنی فوج کے سامنے اپنا رخ مکہ مکرمہ کی طرف کیا اور سجدے میںگر گیا اور اپنے ہاتھ دعا کے لئے پھیلا دیے۔ اس نے چلا کر کہا”اللہ کے رسولﷺ نے اسے فتح کی بشارت دے دی ہے“ اس نے بذات خود بڑے حملے کی قیادت کی۔ سپاہیوں کے زبردست نعروں سے فضا گونج اٹھی اور مسلمانوں نے اس قدر شدت سے حملہ کیا کہ دشمن کو شہر کے دروازوں تک دھکیل دیا گیا۔
اگلی صبح بھاٹیہ کے قلعہ کو مکمل طور پر محصور کر لیا گیا اور صرف چند دنوں میں چاروں طرف کی خندقوں کو بھر دیا گیا۔ بیجی رائے نے جب یہ دیکھا کہ اپنی پوزیشن کو مستحکم رکھنا نا ممکن ہو گیا ہے تو اس نے قلعہ کو خالی کر دیا اور اس کے دفاع کے لئے ایک مختصر سی چھاﺅنی کو وہاں چھوڑنے کے بعد اس نے اپنے باقی ماندہ دوستوں کے ہمراہ دریائے سندھ کے کناروں پر اُگے جنگل میں پناہ لے لی۔ محمود غزنوی کی فوج کے ایک دستے نے جنگل میں اس کا تعاقب کیا۔ انہوں نے اس کے مورچے پر حملہ کیا اور اسے تنگ گھاٹیوں کی طرف بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ اس کے بہترین دوست اس کا ساتھ چھوڑ گئے اور جب اسے قیدی بنایا جانے لگا تو اس اپنی تلوار سے اپنی زندگی ختم کر لی۔ اس کے پیروکار‘ جنہوں نے اپنے آقا کی موت کا بدلہ لینے کی کوشش کی‘ان میں سے بے شمار کو تہہ تیغ کر دیا گیا۔ایک حملے کے ذریعے بھاٹیہ پر قبضہ کر لیا گیا۔ دو سو اسی ہاتھی‘بے شمار غلام اور دیگر مالِ غنیمت بادشاہ کے ہاتھ لگا اور وہ ایک فاتح کی حیثیت سے غزنی کی طرف لوٹا۔
تیسرا حملہ
ملتان کے پہلے مسلمان حکمران شیخ حمید سیدی نے امیر سبکتگین کی اطاعت کر لی تھی اور اسے خراج ادا کرتا تھا۔ اس کے بعد ناصر کا بیٹا اور اس کا پوتا ابوالفتح داﺅد غزنی کے سلطان کا مطیع رہا لیکن 1005ءمیں اس نے لاہور کے راجہ آنند پال سے ساز باز کرکے اطاعت کا جواءاتار پھینکا۔اب بہت محمود غزنوی نے ملتان کو دربارہ فتح کرنے کا منصوبہ بنایا۔ لٰہذا موسم بہار کے آغاز میں ایک بہت بڑی فوج کے ہمراہ اس نے اس مقام کی طرف پیش قدمی کی۔ پشاور کی پہاڑیوں میں آنند پال کی فوجوں نے اس کا مقابلہ کیا لیکن غزنی کی فوج نے انہیں زبردست شکست سے دوچار کیا اور دریائے چناب کے کنارے پر سودرا کے قصبہ تک ان کا تعاقب کیا۔ آنند پال اپنے دارالحکومت کو چھوڑ کر کشمیر کی طرف بھاگ گیا۔ محمود غزنوی بھٹنڈہ کے راستے ملتان کی طرف بڑھا اور سات روز تک اس کا مکمل محاصرہ کیا۔ آراکار داﺅد کو گرفتار کر لیا گیا اور اسے اس وعدے پر معافی دے دی گئی کہ وہ 20ہزار طلائی درہم سالانہ خراج کے طور پر ادا کرے گا۔ ہو سکتا ہے سلطان ہندوستان میں اپنا قیام طویل کر لیتا لیکن اس کے سسر اور کاشغر کے بادشاہ الیق خان کی طرف سے اس کے مغربی علاقوں پر حملے کے باعث اسے مجبوراًغزنی کی طرف لوٹنا پڑا۔ اس نے ہندوستان کے معاملات ایک ہندد شہزادے سیوک پال کے سپرد کیے‘جو پشاور کے حاکم ابو علی کے اثر و رسوخ سے مسلمان ہو گیا تھا۔
چوتھا حملہ
سلطان کے نائب سیوک پال کی بغاوت نے محمود غزنوی کو 1005-6ءمیں دوبارہ ہندوستان کی سرزمین پر لاکھڑا کیا کیونکہ اس نے سلطان کے تمام افسروں کو ان کے محکموں سے نکال دیا تھا۔ محمود غزنوی نے سب سے پہلے اپنے دستے کے ایک حصّہ کو پیش قدمی کرنے جکا حکم دیا۔دستوں نے ہندو فوج کے سامنے غیر متوقع طور پر ظاہر ہوکر انہیںزبرست شکست سے دوچار کیا۔ سیوک پال کو قیدی بنا لیا گیا اور اسے 4لاکھ درہم جرمانے کے طور پر ادا کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اور ساری زندگی سرکاری قیدی کے طور پر رکھا گیا۔
پانچواں حملہ
ملتان کی بغاوت میں آنند پال کی حمایت اور غدارانہ رویہ محمود غزنوی کے سینے میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا تھا۔ چنانچہ 1008ءمیں موسم بہار کے اوائل میںایک بہت بڑی فوج کے ہمراہ ایک عظیم مہم کے سلسلہ میں ہندوستان کی طرف گامزن ہوا۔ آنند پال‘جو مسلمانوں کی طاقت سے باخبر تھا اور اسے سابقہ نقصانات ابھی تک یاد تھے۔اس نے ہندوستانی راجاﺅں میں مذہبی جوش و خروش پیدا کرنے کے بعد ان سے درخواست کی کہ وہ ارضِ مقدس سے اپنے مشترکہ دشمن کو نکالنے کے لئے جدوجہد کریں۔ اس کی اپیل کا خیر مقدم کیا گیا اور اجین‘گوالیار‘قنوج‘دہلی‘اجمیر اور کالنجر کے راجاﺅں نے اپنی دستیاب فوجوں کو جمع کیا اور دریائے سندھ کی جانب پیش قدمی کر دی۔ پنجاب کی سر زمین پر جمع ہونے والے سب سے بڑی فوج پشاور کی سرحدوں پر میدانوں کے سامنے نمودار ہوئی پھر ہر روز اس میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔جنگ کی تیاریوں کے لیے ملک کے ہر علاقے سے مال و زر مہیا کیا گیا اور اس قدر جب الوطنی کا مظاہرہ کیا گیا کہ ملک کے طول و عرض سے ہندو عورتوں نے اپنے زیورات پگھلا کر قومی مقصد کے لیے ذرائع فراہم کرنے کے لیئے سونے اور چاندی کی صورت میں روانہ کیے۔ پنجاب کے شمال مغربی پہاڑی علاقہ کے ایک طاقتور قبیلے ککھڑ کے افراد 30ہزار جنگجوئوں کے ہمراہ متحدہ فوجوں میں شامل ہوگئے۔ اسلامی فوجیں چاروں طرف سے گھر گئیں تو انہوں نے عام حملے کے خدشے کے پیش نظر خود خندق کھودنے کا فیصلہ کر لیا۔
دونوں فوجیں چالیس روز تک آمنے سامنے بے حس و حرکت پڑی رہیں۔ دونوں طرف سے پیش قدمی کرنے کے معاملہ میں ہچکچاہٹ ہو رہی تھی۔ آخرکار اس سکوت کو ہندوﺅں نے توڑا۔ انہوں نے مسلمانوں کے مہیا کردہ موقع سے فائدہ اٹھایا‘جنہوں نے دشمن کو مشتعل کرنے اور انہیں خندقوں کی طرف پیش قدمی کرنے پر اکسانے کے لیے چھ ہزار تیر اندازوں کو سامنے بھیجا تھا۔ کہ کھڑوں نے تیر اندازوں پر حملہ کر دیا اور سلطان کی موجودگی و جدوجہد کے باوجود پسپا ہو گئے۔ہندو انتہائی غیض و غضب کے ساتھ مسلمانوں کے مورچوں میں داخل ہو گئے۔اور زبردست خون ریزی شروع ہو گئی۔نہایت مختصر وقت میں پانچ ہزار مسلمان شہید ہوگئے۔ تاہم ہندوﺅں کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے مسلمانوں کی ایک منظّم فوج نے ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا۔دریں اثناءایک ایسا واقعہ رونما ہوا جو ہندوﺅں کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوا۔
محمود غزنوی کے ذہن میں دین اسلام کی تبلیغ اور ہندوﺅں کے بتوں کی تباہی کا خیال جوش مار رہا تھا۔ اس نے فتح کے فوراً بعد مقدس شہر نگر کوٹ کی طرف پیش قدمی کی اور پہلی مرتبہ ان کے بتوں کیو توڑا اور ان کے مندروں کو زمین بوس کر دیا۔ اس نے پورے ملک کو آگ اور تلوار سے تباہ کرنے کے بعد بھیم کے مشہور قلعہ کا محاصرہ کر لیا‘جس کا شمار پنجاب کی مقدس خانقاہوں میں ہوتا تھا اور مال و زر کا ذخیرہ ترتھا۔یہ ایک ڈھلوانی پہاڑ کی چوٹی پر واقع تھا‘جس سے شعلے نکلتے تھے‘جنہیں موجودہ دور میں جلتے ہوئے مقدس فوارے کا جوالا مکھی کہا جاتا ہے۔ شمالی ہندوستان میں یہ سب سے مضبوط قلعہ تھا۔ اس میں ایک شاندار مندر تھا۔ اس کی چھت اور دروازے قیمتی دھات کے تھے یہ شاستروں کی تعلیم کے لیے ایک مشہور و معروف مدرسہ تھا۔ چھاﺅنی نے جنگ میں حصّہ لینے کے لیے قلعہ کو چھوڑ دیا۔ اس کے اندر موجود راہب‘جنگ اور خون خرابے سے بہت کم واقف تھے چنانچہ انہوں نے اطاعت کے لیے درخواست کر دی اور مندر کے دروازے کھولنے کے بعد فاتح کے سامنے اوندھے منہ گر کر رحم کے لیے بھیگ مانگی‘ جو انہیں دے گئی۔ سونے اور چاندی کی سلاخوں‘جواہرات‘سچے موتیوں‘مونگھیوں‘ہیروں کاور لعلوں کی شکل میں مال غنیمت‘جسے بھیم پر فاتح کے قبضہ کے دنوں میں مضافاتی بادشاہتوں سے جمع کرکے اس مندر میں رکھا گیا‘ محمود غزنوی کے ہاتھ لگا‘ جو اس وسیع و عریض خزانے کے ہمراہ غزنی واپس لوٹا۔ 1009ءمیں سلطان نے اپنے دارالخلافہ کے باہر میدان میں ایک بہت بڑا اجلاس منعقد کیا‘جس میں اس نے اپنے امراءاور حیران و پریشان لوگوں کے سامنے پنجاب سے سونے کے تختوں‘قیمتی پتھروں‘ اور بے بہا قیمت کے زیورات کی شکل میں لائی گئی دولت کو پیش کیا۔ اس نے اپنے سرکاری افسروں کو ان کے منصب اور تبے کے مطابق قیمتی تحائف بھی دیئے۔(جاری ہے)
سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 19 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں